ایک امریکی سروے کے مطابق صدارتی امیدوار کملا ہیرس کو پہلے مباحثے کے بعد اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر نمایاں سبقت حاصل ہوئی ہے۔ مباحثے سے پہلے اگست میں دونوں امیدوار برابر جا رہے تھے اور اگر کہیں کملا ہیرس ٹرمپ سے آگے تھیں بھی تو یہ فرق ایک آدھ پوائنٹ سے زیادہ نہیں تھا۔ مگر مباحثے کے فوراً بعد کملا ہیرس کی لیڈ پانچ پوائنٹ تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف کملا ہیرس کے چیلنج کے باوجود سابق صدر نے مزید مباحثوں سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی جو وجہ انہوں نے بیان کی ہے وہ بڑی دلچسپ ہے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ میں مزید مباحثوں میں کیوں شرکت کروں‘ میں تو پہلے دو مباحثے‘ جن میں سے ایک صدر جوبائیڈن اور دوسرا کملا ہیرس کے ساتھ‘ جیت چکا ہوں۔ مگر کملا ہیرس کی نظر میں ٹرمپ کے انکار کی اصل وجہ ان کا یہ خوف ہے کہ اگلے مباحثے میں وہ امریکی عوام کے سامنے مزید ایکسپوز ہو جائیں گے۔ ٹرمپ کے اس دعوے کے باوجود کہ انہوں نے 10 ستمبر کے مباحثے میں میدان مار لیا ہے‘ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں کملا ہیرس کو مباحثے کا فاتح قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں انتخابی نتائج کے بارے میں پیش گوئیاں کرنے والے تقریباً تمام ادارے اس رائے پر متفق ہیں کہ 10 ستمبر کے مباحثے میں کملا ہیرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور امریکی معاشرے کے مختلف طبقات میں اُن کے حامی ووٹرز کی تعداد میں اضافہ اس کا ثبوت ہے‘ مگر کیا اس سے کملا ہیرس کا وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے؟ اس کے بارے میں دو آرا موجود ہیں۔ ایک کے مطابق کملا ہیرس نے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں تاخیر سے شامل ہونے کے باوجود ٹرمپ کو جس طرح پیچھے چھوڑا ہے‘ اس سے ان کے صدر منتخب ہونے کا امکان پختہ ہو گیا ہے۔ اس رائے کی تائید میں کملا ہیرس کو اب تک حاصل ہونے والی غیرمعمولی کامیابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مثلاً کملا ہیرس کی نامزدگی سے ڈیمو کریٹک پارٹی کے سیاہ فام آبادی کے ووٹوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کی جانب سے تارکین وطن پر امریکہ کے دروازے بند کرنے کے اعلان اور امریکہ میں موجود تارکینِ وطن کو جرائم پیشہ اور قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دینے کی وجہ سے تارکین وطن کی طرف سے کملا ہیرس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ خود ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکینِ کانگرس کی ایک بڑی تعداد نے ٹرمپ کے بجائے کملا ہیرس کو ووٹ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
کملا ہیرس کی جانب سے خواتین کی آزادی اور حقوق کی پُرجوش حمایت نے امریکہ کی خواتین میں کملا ہیرس کو پاپولر بنا دیا ہے۔ مشہور امریکی سنگر ٹیلر سوئفٹ کی جانب سے کملا ہیرس کی حمایت کے اعلان سے بھی کملا کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں ٹیلر سوئفٹ کے پرستاروں کی تعداد اٹھائیس کروڑ چالیس لاکھ بتائی جاتی ہے‘ البتہ اس طرح کی حمایت سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ٹیلر کے تمام پرستار کملا کو ووٹ دیں گے۔ واشنگٹن میں مقیم ایک امریکی تاریخ دان Allan Lichtman‘ جو 1984ء سے اب تک ایک کے سوا ہر صدارتی انتخاب کے نتیجے کے بارے میں صحیح پیش گوئی کرچکے ہیں‘ نے کہا ہے کہ امریکہ کی اگلی صدر کملا ہیرس ہوں گی۔ مگر ان تمام تجزیوں کے باوجود بھی کملا ہیرس کی کامیابی کو سو فیصد یقینی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کملا ہیرس کی ڈونلڈ ٹرمپ پر لیڈ پاپولر ووٹوں کی شکل میں ہے اور امریکی صدارتی انتخاب کے میکانزم میں پاپولر ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود ضروری نہیں کہ وہ صدر کا الیکشن جیت جائیں۔ جیت کیلئے 538میں سے 270الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
یہ درست ہے کہ کملا ہیرس نے صدر بائیڈن پر ڈونلڈ ٹرمپ کو جو سبقت حاصل تھی‘ نہ صرف اسے ختم کیا ہے بلکہ ٹرمپ کو پانچ پوائنٹ سے پیچھے بھی چھوڑ دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس میں کملا ہیرس کی قابلیت سے زیادہ ٹرمپ کی نالائقی کا زیادہ کردار ہے کیونکہ انہوں نے کملا ہیرس کے بیانات میں تضادات کو اجاگر کرنے کے بجائے غیرمصدقہ اور زیادہ تر افواہوں اور نسلی تعصبات پر مبنی بیانات دے کر اپنے آپ کو کمزور ثابت کیا لیکن ٹرمپ کے جیتنے کا امکان اب بھی موجود ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ آٹھ سال کے دوران لبرل و پروگریسو امریکیوں اور تارکین وطن کے خلاف نظریاتی انتہا پسندی اور نسلی تعصب کو ہوا دینے والا نہ صرف ایک مضبوط بیانیہ کامیابی سے تشکیل دیا ہے بلکہ اس بیانیے پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے والا ایک طبقہ بھی تیار ہو چکا ہے۔ 6 جنوری 2021ء کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کا تعلق امریکی معاشرے کے اسی نوجوان طبقے سے تھا‘ جنہوں نے ٹرمپ کے اس اعلان پر کہ انہیں جیتے ہوئے انتخاب میں ہرایا جا رہا ہے‘ بغیر سوچے سمجھے جوبائیڈن کی کامیابی کا اعلان روکنے کیلئے کیپٹل ہل پر حملہ کر دیا تھا۔ کملا ہیرس کے ساتھ مباحثے میں ٹرمپ نے امریکہ میں آنے والے تارکینِ وطن کو جرائم پیشہ‘ دہشت گرد‘ منشیات فروش اور قاتل قرار دیا اور یہاں تک دعویٰ کیا کہ دنیا کے 160ممالک‘ جن میں امریکہ کے ہمسایہ ممالک میکسیکو‘ وینزویلا اور ہیٹی بھی شامل ہیں‘ اپنی جیلوں اور پاگل خانوں سے مجرم اور ذہنی مریض تارکینِ وطن کی شکل میں امریکہ کی طرف دھکیل رہے ہیں جو امریکہ میں جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ان جرائم میں چوری‘ ڈاکا زنی‘ جنسی زیادتی اور اغوا کے علاوہ ریاست اوہائیو کے جنوبی حصے‘ جہاں 20 ہزار کے قریب ہیٹی کے باشندوں نے پناہ لے رکھی ہے‘ میں لوگوں کے پالتو کتوں اور بلیوں کو کھانے کی وارداتیں بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق دنیا بھر میں جرائم کی شرح میں کمی آ رہی ہے اور امریکہ میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ بقول ٹرمپ‘ دنیا بھر کے ممالک نے اپنے ہاں سے جرائم پیشہ لوگوں کو امریکہ میں پناہ لینے کیلئے بھیج دیا ہے۔ امریکی محکمہ انصاف اور جرائم سے متعلقہ دیگر اداروں نے ٹرمپ کے ان دعووں کی تردید کی ہے اور تفتیش کے بعد اعلان کیا ہے کہ نہ تو تارکین وطن میں جرائم کی سطح بلند ہونے اور نہ اوہائیو میں پالتو کتوں کو کھانے کی اطلاعات کی تصدیق ہوئی ہیں مگر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں اس پر بدستور اصرار کر رہے ہیں۔
امریکی مبصرین کے مطابق ٹرمپ اپنی غلط بیانی‘ بے بنیاد الزام تراشی اور حقائق کے منافی بیانات دینے میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں کیونکہ امریکی سفید فام باشندوں کا ایک بڑا حصہ نہ صرف ان کی ہر بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کو تیار ہے بلکہ ٹرمپ کو ہر قیمت پر اس انتخاب میں کامیاب بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکی باشندوں کا یہ طبقہ سکول کی حد تک تعلیم یافتہ یا کالج ڈراپ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کے پاس کالج یا یونیورسٹی کی کوئی ڈگری نہیں۔ اس لیے وہ ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ٹرمپ کی تقریروں اور دعووں کی روشنی میں یہ طبقہ اپنی محرومیوں کی ذمہ داری تارکینِ وطن پر ڈالتا ہے۔ صدارتی مہم کا تجزیہ کرنے والے امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ طبقہ ٹرمپ کے حامیوں کا Core ہے اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس طبقے کو پوری طرح متحرک اور منظم کر لیتے ہیں تو کملا ہیرس کی موجودہ لیڈ کے باوجود ان کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اس دوڑ میں فیصلہ کن کردار امریکہ کی سات Swing سٹیٹس کا ہے۔ ان میں پنسلوینیا‘ مشی گن اور وِسکونسن خاص طور پر اہم ہیں۔ 2016ء میں ٹرمپ ان ریاستوں میں کامیابی حاصل کر کے صدر منتخب ہوئے تھے‘ مگر 2020ء میں جوبائیڈن نے اکثریت حاصل کر کے ٹرمپ کو شکست دیدی تھی۔ ان ریاستوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر الیکشن میں اپنی حمایت بدلتی رہتی ہیں۔ اس وقت ٹرمپ کے مقابلے میں ان ریاستوں میں کملا ہیرس کو سبقت حاصل ہے مگر یہ فرق بہت کم ہے۔ اس لیے پانسہ کسی بھی وقت کسی کے حق میں بھی پلٹ سکتا ہے۔