پاک بھارت تعلقات کی گزشتہ 77 سالہ تاریخ کشیدگی‘ تصادم اور جنگ کے واقعات سے معمور ہے‘ مگر پچھلی تین دہائیوں (1992ء) سے دونوں ممالک ہر سال یکم جنوری کو خیر سگالی کے طور پر ایک رسم باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ یہ رسم جوہری تنصیبات اور اپنی جیلوں میں بند ایک دوسرے کے قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہے۔ جوہری تنصیبات اور قیدیوں کی فہرستوں کا یہ تبادلہ اسلام آباد اور نئی دہلی میں ایک دوسرے کے سفارت خانوں میں کیا جاتا ہے۔ جوہری تنصیبات کا تبادلہ 31 دسمبر 1988ء کے ایک معاہدے کے تحت کیا جاتا ہے جس کے تحت پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا عہد کیا۔ اس معاہدے پر باقاعدہ عملدرآمد کا آغاز یکم جنوری 1992ء سے ہوا۔ اسی طرح دونوں ملکوں کی جیلوں میں قید افراد کی فہرستوں کا تبادلہ Counsellor Access Agreement کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر 2008ء میں دستخط کیے گئے تھے۔ یہ دونوں معاہدے ہمسایہ ممالک کے مابین امن‘ انسانی ہمدردی اور ذمہ دار ہمسائیگی کی ایک مثال ہیں۔ جوہری تنصیبات کی فہرستوں کے تبادلے کے معاہدے کو ایٹمی شعبے میں ایک اہم سی بی ایم (Confidence Building Measures) قراردیا جاتا ہے جو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان لازمی سمجھا جاتا ہے تاکہ کسی حادثے یا غلط فہمی کی بنا پر ایٹمی تصادم کی نوبت نہ آ جائے۔
قیدیوں کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ حساس اور توجہ کا مستحق ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر سے سندھ تک ایک طویل (3323کلو میٹر) سرحد ہے۔ اکثر مقامات پر سرحد کی واضح نشاندہی نہیں‘ اس لیے سرحد کو دونوں اطراف سے شہری غلطی سے سرحد پار کر جاتے ہیں جنہیں دونوں ملکوں کی بارڈر سکیورٹی فورسز گرفتارکرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ خشکی کے مقابلے میں سمندر میں‘ جس کے پانیوں پر کوئی سرحدی لکیر نہیں کھینچی جا سکتی‘ صورتحال اور بھی زیادہ مخدوش ہے کیونکہ سمندر کی اُٹھتی ہوئی لہریں پاکستان اور بھارت کے ماہی گیروں کی کشتیوں کو ایک دوسرے کے پانیوں میں لے جاتی ہیں جہاں میری ٹائم سکیورٹی فورسز ماہی گیروں کو پکڑ کر غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے کے جرم میں جیل میں ڈال دیتی ہیں۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں جاسوسی یا ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد غیرقانونی قیام کے الزام میں دھر لیا گیا ہو۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر قیدیوں کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنے کے بعد بھی کئی برسوں تک محض اس لیے صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں کہ جیل سے باہر آنے کا جو قانونی طریقہ کار ہے‘ اس کے تقاضے پورے کرنے میں دونوں اطراف سے غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ان قیدیوں کو رہائی میں مدد دینے کیلئے‘ جو اپنی سزا کی مدت پوری کر چکے ہوں‘ 2008ء میں پاکستان انڈیا جوڈیشل کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ اس کمیٹی میں دونوں ملکوں کی طرف سے چار‘ چار ریٹائرڈ ججز شامل ہوتے ہیں۔ اپنے قیام کے بعد اس کمیٹی نے 2012ء اور 2013ء میں پاکستان اور بھارت کے مختلف شہروں کی جیلوں میں جا کر ایک دوسرے کے قیدیوں کی حالت کا جائزہ لیا تھا مگر اس کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھنے سے یہ کمیٹی تقریباً غیرفعال ہو کر رہ گئی۔ اس کمیٹی کے غیر فعال ہونے کی وجہ پہلے صرف لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری تھی لیکن 2019ء میں مودی حکومت کے کشمیر میں یکطرفہ اقدامات کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابین ہر قسم کے روابط اور تعلقات منقطع ہو کر رہ گئے ہیں۔
تعلقات میں اس طویل تعطل سے جہاں تجارت‘ عوامی روابط‘ کھیلوں اور ثقافت میں تعاون بری طرح متاثر ہوا ہے‘ وہاں ایک دوسرے کی جیلوں میں پڑے قیدیوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کی جیلوں میں بند ایسے قیدیوں کو‘ جو اپنے جرائم کی سزا بھگت چکے ہیں‘ دونوں ملکوں کے مابین روابط منقطع ہونے کی وجہ سے جیلوں سے نکالنے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو رہیں۔ اس سلسلے میں سال میں صرف دو دفعہ‘ یکم جنوری اور یکم جولائی کو‘ جب سفارتی سطح پر قیدیوں کی فہرستیں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کی جاتی ہیں‘ ان بدقسمت قیدیوں کے لیے کچھ آواز اٹھائی جاتی ہے۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق بھارتی جیلوں میں بند جو پاکستانی قیدی اپنی سزائیں بھگت چکے ہیں ان کی تعداد 108 ہے جبکہ پاکستانی جیلوں میں بند ایسے بھارتی قیدیوں کی تعداد 183 ہے۔ یکم جنوری کو قیدیوں کی فہرستیں ایک دوسرے کے حوالے کرنے کے موقع پر پاکستان اور بھارت‘ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر زور دیا کہ جو قیدی اپنی سزائیں پوری کر چکے ہیں‘ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کے مسئلے کا ایک پہلو اُن سپاہیوں سے متعلق ہے جو 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں لاپتا ہو گئے تھے۔ اگرچہ بھارتی وزارتِ خارجہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مسائل‘ جن میں قیدیوں اور ماہی گیروں کی رہائی بھی شامل ہے‘ کو ترجیح دینے کا دعویٰ کرتی ہے مگر بھارت کی طرف سے اس ضمن میں عملی اقدامات میں لیت ولعل سے کام لیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف ایسے قیدیوں کو رہا کرنے میں تاخیر کی جاتی ہے جو اپنی سزائیں بھگت چکے ہوتے ہیں بلکہ قیدیوں کو معاہدے کے مطابق انہیں بنیادی سہولتیں بھی مہیا نہیں کی جاتیں۔ 2008ء کے معاہدے کے مطابق دونوں ملکوں کی حکومتیں جیلوں میں بند قیدیوں کو وکیلوں تک رسائی فراہم کرنے کی پابند ہیں مگر اس شق پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے قیدیوں کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رواں برس یکم جنوری کو بھارت میں قید پاکستانیوں کی فہرستیں پاکستان کے حوالے کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستانی جیلوں میں بند بھارتی شہریوں کو اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے وکیلوں کی سہولت مہیا کی جائے مگر اس کے لیے بھارتی حکومت کو بھی پاکستانیوں قیدیوں کو وکیلوں تک رسائی کی سہولت فراہم کرنا ہو گی۔ قیدیوں کی فہرستوں کے تبادلے کے مواقع پر قیدیوں کو درپیش مسائل کا بھی پتا چلتا ہے اور اس کے ساتھ یہ احساس بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین موجود ایسے مسائل‘ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ کے حل کے لیے دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی سے پاک‘ امن اور تعاون پر مبنی تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین موجود سرحد کے بڑے حصے پر آہنی باڑ موجود ہے مگر پنجاب اور سندھ کے علاوہ آزاد جموں کشمیر کے بھی کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں شہری غلطی سے سرحد پار کر جاتے ہیں۔ یہی حال سمندری حدود کا ہے جن کی واضح نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے دونوں ملکوں کا اس مسئلے سے مستقل واسطہ رہے گا۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ بھی جن ممالک کے درمیان اوپن بارڈر ہیں‘ وہ اس قسم کے مسائل سے دوچار ہیں مگر ان کے ہاں قیدیوں سے ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ یہ صرف سیاسی مسائل کی پیدا کردہ کشیدگی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین مسائل اور اختلافات دیرینہ اور پیچیدہ ہیں‘ اس لیے ان کے جلد حل کی امید نہیں کی جا سکتی مگر اس کی سزا عام شہریوں کو نہیں ملنی چاہیے اورکم از کم ایسے مسائل جن کا تعلق انسانی ہمدردی سے ہے‘ ان کے حوالے سے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔