حالیہ دنوں میں نے ایک طریقہ دریافت کیا جس سے ایسے پاکستانیوں کے دل میں بھی حب الوطنی کا جذبہ ابھارا جاسکتا ہے جو عام حالات میں اپنی ریاست کے بار ے میں جذبات کا اظہار کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ ایسے افراد کو عرب دنیا میں لے جائیں۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے کہ اگر وہاں سے کہیں اور جانے کا موقع مل جائے تو مڈل کلاس، حتیٰ کہ اپرکلاس پاکستانی بھی اپنی قسمت کے ستاروں کے شکرگزار ہوں گے۔ دنیا کے کسی ملک کے ایئر پورٹ پر پاکستانی وطن واپس جانے کے لیے اتنے بے قرار نہیں دکھائی دیتے جتنے سعودی عرب کے ائیرپورٹس پر۔
خلیجی ریاستوں میں سے ایک میں مجھے''کشمکش اور تبدیلی ‘‘ کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ عرب مقررین کی تقاریرسن کر اور اُن کا اپنے نظریاتی حریفوں کے بار ے میں رویہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ لوگ مادی ترقی کے باوجود اپنی قبائلی سوچ سے جان نہیں چھڑا سکے۔ ہر خلیجی ریاست چاہتی ہے کہ وہ دولت، شاپنگ مالز اورگلیمر کو مارکیٹ کرتے اور ذہنی اور سماجی معروضات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دوبئی بن جائے۔ دنیا کے اس حصے میں ہر مرتبہ دورہ کرتے ہوئے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ عرب دنیا اور مغرب کے درمیان تعلقات کی لکیر بہت گہری ہے۔ اگرچہ اُس کانفرنس میں شریک بہت سے سامعین کا خیال تھا کہ 2011ء کی بہار ِ عرب دراصل امریکی سازش تھی، ایسا لگتا تھا کہ جیسے امریکہ اور مغرب کی ہرچیز اُن کا خبط بن چکی ہے۔ گلف جانے والی فلائیٹ میں مجھے ایک برطانوی لیڈی ڈاکٹر سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُسے سعودی عرب جانے کا تجربہ کیسا لگا۔ اُس سے بات کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا جیسے ہم دو مختلف مقامات کی بات کررہے ہیں۔ وہ وہاں پانچ آدمیوں کے ساتھ جانے کے لیے آزادتھی اور وہ پانچوں اُس کے ''محرم‘‘ نہ تھے، لیکن تمام مسلمان خواتین کے لیے یہ پابندی لازمی تھی۔
عرب ممالک میں مغربی ملکوں کے ساتھ فکری تعاون کی فضا بہت حوصلہ افزا نہیں ، لیکن اگر آپ کے پاس کسی مغربی ملک کا پاسپورٹ ہو تو آپ کو بہت جلد ملازمت مل جائے گی۔ اسی طرح مغربی ممالک میں کسی کا ڈرائیونگ لائسنس رکھنے والے شہری کو وہاں گاڑی چلانے کی اجازت ہے لیکن کسی مسلمان ملک کا شہری، چاہے وہ انٹر نیشنل لائسنس کیوں نہ رکھتا ہو، وہاںگاڑی نہیں چلا سکتا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں ہمارے جن کاغذات پر اعتبار کیا جاتا ہے، عرب ریاستوں میں ان کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ ہو سکتاہے کہ عرب دنیا کے ساتھ کاروبار کرنے والے افراد مجھے پہنچنے والے صدمے کو عجیب سمجھیں، لیکن بہرحال میرے لیے یہ بہت ہی عجیب بات تھی کہ وہاں جدیدیت صرف اشیا کی صورت میں ہویدا ہے لیکن اس کی روح وہاں تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے برعکس، یہاں بہت سی عورتیں مغربی لباس پہنتی ہیں، آدمیوں کے ساتھ ہاتھ ملاتی ہیںاور آدمیوں کی موجودگی اُن کی طبع نازک پر گراں نہیں گزرتی ، لیکن یہ جدیدیت بھی خواتین کی فکری آزادی کو یقینی نہیں بناتی۔ اُس کانفرنس،جس میں ، میں نے شرکت کی، خواتین کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ سامعین میں ان کی موجودگی دکھائی دیتی تھی لیکن ایسا صرف جدیدیت اور مرد اور عورت کی برابری کا تاثر دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ وہاں تاریخ کااحساس بہت محدود دکھائی دیا۔ یکے بعددیگرے بہت سے مقررین نے بہار ِعرب کو، جو 2011میں تونس میں شروع ہوئی اور خطے کے بہت سے دیگر ممالک میں پھیل گئی،کو خطے میں ہونے والی ایک بہت بڑی پیش رفت قرار دیا ، لیکن ایک بات پر لوگوں نے شاید توجہ نہیں دی کہ بہار ِ عرب کے نتیجے میں کچھ عرب ممالک میں حکومتیں تو تبدیل ہوئیں ، چہرے بدل گئے، لیکن آمریت کی بنیاد پر قائم ہونے والا سیاسی نظام تبدیل نہ ہوا۔ ویسے تو اسکی بہت سی وجوہ تھیں، لیکن ان میں سے دو بہت اہم تھیں ۔۔۔ایک، سول سوسائٹی کی کمزوری اور دوسری، طاقتور اور جامد نظام کے خلاف پیہم جدوجہد کرنے کی صلاحیت کا فقدان۔
ایک مضبوط ریاست ، جیسا کہ مصر میں دیکھنے میں آیا، سول سوسائٹی کو تقسیم کرنے پر قادر ہوتی ہے۔ وہاںدائیں بازوسے تعلق رکھنے والے اور لبرل طبقے فوجی حکومت کی وجہ سے تقسیم ہوگئے۔ بہت سے مصری اوربیرونی دنیا میں موجود اُن کے ہمدرد سوچتے ہیں کہ فوجی مداخلت نے ملک کو مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہونے سے بچا لیا، لیکن ایسا سوچتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ دراصل فوج نہ صرف دونوں طبقات (لبرل اور مذہبی) کے ساتھ پارٹنر بننے کا ہنر جانتی ہے بلکہ ان دونوں میں کشمکش کو بھی ابھارتی رہتی ہے تاکہ اپنے اقتدار کو طول دیا جا سکے۔ ہم اس صورت ِحال کا پاکستان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ عرب آمریت پر بیرونی دنیا سے کوئی دبائو نہیں پڑتا کہ وہ خود کو تبدیل کریں۔ بہت سے لوگ ترکی کی مثال دیتے ہوئے مسٹر اردوان کو سیاسی بصیرت کی علامت قراردیںگے ، لیکن اُنہیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اگر یورپی یونین کا دبائو نہ ہوتا توترکی کی طاقتور فوج اردوان کی پالیسیوں پر ویسا ہی رد ِعمل ظاہر کرتی جیسا مصری فوج نے محمد مرسی کے ساتھ کیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کانفرنس کے عرب شرکا کو 2011ء سے پہلے مشرق ِو سطیٰ میں ہونے والی کشمکش کی کوئی یاد نہیں۔ مسئلہ فلسطین اور اسّی کی دہائی میں معاشرے میں آنے والی تبدیلی ایک موضو ع ہوسکتا تھا لیکن شرکا میں سے کسی نے بھی اس پر بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ حوالے ضروردیے گئے کہ مغرب اسلام کا چہرہ مسخ کرکے دنیا میں اسے بدنام کررہا ہے، لیکن ایسا کہتے ہوئے شرکا نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ ان کی دولت مند ریاستوں نے امریکہ کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ''جہاد ‘‘ کرنے کے لیے مالی معاونت فراہم کی تھی۔ اُس وقت مختلف ممالک کے افراد کو افغانستان جاکرلڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے جہاد کا جذبہ ابھارا گیا۔ دل میں سوچ پیدا ہوتی ہے کہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال یہ ریاستیں کیا آج جائزہ لینا چاہیں گی کہ اُن دنوں کی گئی فکری سرمایہ کاری کا آج دنیا کیا خمیازہ بھگت رہی ہے؟ ان نظریات کی آبیاری سے تشکیل پانے والے آتشیں عفریت کس طرح دنیا کو بھسم کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں؟
آج اُس سوچ کا جائزہ لینے سے لوگوں کو ایک موقع مل جائے گاکہ وہ اپنے اپنے ممالک میں طاقت کے کھیل کو سمجھ جائیں گے۔ یقینا ہم القاعدہ اوراس طرح کی دیگر تنظیموں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے گروہ ان ریاستوں میں داخلی طوپرر وسائل اور اختیارات کی تقسیم کی وجہ سے ہونے والی کشمکش کا نتیجہ ہیں۔ جہاد کی وجہ سے نہ صرف منفی سوچ رکھنے والے عناصر بڑی طاقتوں کے پارٹنر بن گئے بلکہ چھوٹے چھوٹے گروہوںکو بھی تحریک ملی کی وہ بھی طاقت اوروسائل حاصل کرنے کے لیے نظریاتی طور پراکٹھے ہوکر اپنا حصہ حاصل کریں۔ اس کشمکش کی وجہ سے ہی بہار ِ عرب کی نمو ہوئی تھی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام تر دولت رکھنے کے باوجود عرب دنیا سماجی طور پر خود کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کچھ ریاستوں کے تیل کے ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں۔ ایسا ہونے سے خطے میں تبدیلی کا ایک نیا کھیل شروع ہوجائے گا، ایک نئی بہارِ عرب آئے گی۔ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ خطہ شاید کسی طاقتور پارٹنر کا ہاتھ تھام کر خود کو سنبھالا دینے کی کوشش کرے یا پھر مزید عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔ فی الحال اس موضوع پر کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ۔