خوش قسمت جنرل

پاکستانی جنرلوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں۔ جو جنرل جتنے بڑے عزائم رکھے، اتنا ہی بہتر ثابت ہوتا ہے۔ اور تو اور، آسمانی طاقتیں بھی ان کی یاوری کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو دولت کی دیوی اُن پر فریفتہ ہوجاتی ہے اورنئے مواقع ان کے لیے چشم براہ ہوتے ہیں۔ آج پاکستان اورا س کے بعض جرنیلوں کے ٹھاٹھ دیکھ کر دنیا کا کوئی بھی شخص حسد سے جل بھن کر کباب ہوجائے گا۔ نہ صرف سول سوسائٹی کے مخصوص دھڑے واحد نجات دہندہ کے طورپر پیش کرنے کے لیے بیتاب ہیں بلکہ دوست اور دشمن، سبھی دفاعی ادارے کے امیج کو بہتربنانے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل اسد درّانی فروری 2015ء کو بی بی سی اور الجزیرہ انگلش کو انٹرویو دیتے ہوئے بہت مطمئن دکھائی دیے۔ آسکر ایوارڈ اور نوبل انعام سینوں پر سجائے اب ہم چین کے ساتھ تعمیر کی جانے والی اقتصادی راہداری کے تصور سے بھی سرشار ہیں۔ بہت جلد بسوں اور ٹرکوں پر ایف سولہ کی تصاویر کی بجائے راہداری سے گزرتے ہوئے چینی ٹرکوں کی تصاویر پینٹ کی جائیں گی۔
سب سے بڑی قسمت کی یاوری سیمور ہرش کی کہانی کی صورت ہویدا ہوئی ۔ اس کہانی میں اُس نے دومئی 2011ء کو امریکی کمانڈوز کے آپریشن کے دوران اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے کچھ خفیہ گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ بہت سوںنے اسے بے بنیاد قراردیا ، جبکہ کچھ اسے پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا مقصد پاکستان میں آنے والی چینی سرمایہ کاری کے لیے فضا کو مکدر کرنا ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ بن لادن کی کہانی کا، جس کے مطابق پاکستان کے مقتدرحلقے اسے ہلاک کرنے کے آپریشن سے آگاہ تھے، بیجنگ کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ اسی منطق سے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ چونکہ بھارتی وزیر ِ داخلہ نے بیان دیا ہے کہ اُنہیں کوئی علم نہیں کہ دائود ابراہیم کہاںہے تو لشکر ِ طیبہ کے ذکی الرحمن لکھوی اور حافظ سعید پر الزامات لگاتے ہوئے بھی وہ اسی بے خبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے باخبر وزرا کے ہوتے ہوئے بھارت کے پاس ممبئی حملوں کے مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر اس وقت بھارت میں یو پی اے کی حکومت ہوتی تو بہت سے جوشیلے اینکرز خود پر حب الوطنی طاری کرتے ہوئے اپنے ہی وزیر کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ قرار دے ڈالتے ۔
ہرش کی رپورٹ کے حوالے سے ایک بات حیران کن ہے کہ پاکستانی میڈیا نے اسے مثبت پیش رفت ماننے سے گریز کیا۔ یہ امریکی ہیں جو ہونق دکھائی دیتے ہیں نہ کہ جی ایچ کیو۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف نے، جوہرش کی کہانی میں شامل معلومات کا بنیادی ذریعہ ہیں، کہا کہ دنیا کا مطلوب ترین شخص ہم نے اس لیے پاس رکھا ہوا تھا کہ آئندہ کسی مناسب وقت پر اس کے بدلے کچھ حاصل کرلیں۔ جس طرح جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکہ سے تعاون کرتے ہوئے پاکستان کو بچا لیا، اسی طرح جنرل پاشا اور جنرل کیانی کے اعلیٰ تخیل نے ایک عمدہ ڈیل کے تحت امریکیوں کو بن لادن کی موجودگی کی اطلاع دی؛ چنانچہ اس میں پریشانی کی کیابات ہے؟
ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جس کسی نے بھی ہرش کو یہ معلومات بہم پہنچائیں، اُس نے پاکستان کے ساتھ ہمدردی کی۔ اس کہانی کے مطابق پاکستان نے بن لادن کو قیدی کے طور پر رکھا ہوا تھا‘ جہاں سے وہ القاعدہ کے آپریشنز کو کنٹرول کرنے کے قابل نہ تھا۔ یہ کہانی ظاہر کرتی ہے کہ اوباما انتظامیہ نے کمانڈو ایکشن کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے دروغ گوئی سے کام لیا کیونکہ اُنھوں نے دراصل ایک نہتے اور قیدی بنائے گئے بے بس دہشت گرد کو ہلاک کیا تھا۔ وہاں سے اُنہیں کوئی قابل ِ ذکرچیز نہیں ملی تھی۔ تو پھر کیا یہ پاکستان کا درست فیصلہ تھا کہ ایک لاچار شخص کو اس طرح دھوکہ دیا جائے؟
آئی ایس آئی کے یہ چیف اپنی زنبیل میں بہت سے طلسم ہوشربارکھتے ہیں۔ امریکہ سے لے کر برطانیہ اور بھارت تک، ہر کوئی ان سے بات کرنا چاہتا ہے۔ درحقیقت انہوں نے اس کتاب کو، جو آئی ایس آئی کے بارے میں شائع کی جانے والی ہے اور اپنی نوعیت کی منفر د کتاب ہوگی، بنیادی اور ضروری معلومات فراہم کی ہیں۔ بہت سے لوگ یقین کرتے ہیںکہ یہ رپورٹ دراصل ہرش نے اپنی آئندہ شائع ہونے والی کتاب کے لیے اشتہار کے طور پر پیش کی ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس کے ''شریک ِ جرم‘‘ کوئی اور بھی ہیں۔ سابق آئی ایس آئی چیف کا فروری میں لندن سے پیش کیا جانے والا انٹرویوبھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ریٹائرڈ جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بن لادن کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا(آج کل ہوشیار جنرل جانتے ہیں کہ کس طرح خطرناک راز فاش کرنے کے باجود خود کو قانون کی گرفت سے کس طرح بچانا ہے)۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایسی کہانیاں 2011ء میں بھی فوج کے اپنے ذرائع نے پھیلائی تھیں۔ اُس وقت فوج ایک مخمصے کا شکار تھی کہ کیا وہ امریکہ کے تعاون کو تسلیم کرے یا اپنی نااہلی کا اعتراف کرے، تو ایسا لگتا تھا کہ اُنھوں نے پہلے آپشن کو بہتر گردانا۔
منطقی طور پر اس کہانی کے نتیجے میں ایبٹ آباد واقعے کی از سرِنو تحقیقات ہونی چاہیے کیونکہ ہرش نے بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ تاہم خاطر جمع رکھیں، ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوگا؛ تاہم اس کہانی میں، خاص طور پر اگر اسے امریکیوں کے بیان کے مطابق دیکھا جائے، تو اس میں بہت سی مشکل اور تہہ دار باتیں ہیں، چنانچہ کچھ سوالات زبان پر آجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستانی سرحد میں ہیلی کاپٹر کس طرح گھس آئے؟ایبٹ آباد کمیشن کے روبرو ائیرچیف کا بیان، جو افشا ہوگیا تھا، یہ تھا کہ چونکہ ہمیں افغانستان کی طرف سے کسی فضائی کارروائی کا خدشہ نہیں ہوتا اس لیے اُس طرف ریڈار کور نہ ہونے کے برا بر تھا، اس لیے ہیلی کاپٹروںکی آمدکی اطلاع نہ مل سکی، لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ کارروائی کرنے کے بعد بن لادن کی لاش لے کر واپس جارہے تھے تو بھی ہمیں علم کیوں نہ ہوا؟یقینا پی ایم اے کاکول کے انتہائی نزدیک ہیلی کاپٹر اتر رہے تھے اور اُن کا شورکسی نے تو سنا ہوگا؟ کیا ان کی اس علاقے کی مانیٹرنگ نہیں ہوتی؟ بہتر ہے کہ یہی گمان کیا جائے کہ ہمارے جنرل اس کارروائی سے باخبر تھے ورنہ یہ اُس واقعے کا اعادہ سمجھا جائے گا جب 1965ء کی جنگ کے دوران دشمن بی آربی نہر پر حملہ آور ہورہا تھا اور ہمارے جنرل خواب ِ راحت کے مزے لے رہے تھے۔
اگر خواہشات کو حقیقت کا جامہ پہنانا ممکن ہو تو ایبٹ آباد آپریشن کی تفصیلی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اس دوران ، پاکستان کی طرف سے تعاون کرنے والے ''ذرائع‘‘ کا لہجہ ہرش کی کہانی میں بہت واضح ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں پاکستانی انٹیلی جنس سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے ٹویٹ کی تھی کہ جنرل کیانی سے بدعنوانی کی تحقیقات ہورہی ہیں۔ ہرش کا تحقیقات کا حوالہ اسی ٹویٹ کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح لگتا ہے کہ پاک فوج کی صفوںسے یحییٰ خان اور ضیا الحق کے بعد ایک اور منفی کردار برآمد ہوچکا ہے۔ آنے والی نسلیں اُسے برابھلا کہہ کر حب الوطنی کا ثبوت دیا کریں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کہانی سے پاکستان کے امریکہ، یورپ اور چین کے ساتھ تعلقات پر آنچ نہیں آئے گی۔ چنانچہ اسی لیے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی جنرل بہت خوش قسمت ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں