این جی اوز کے ایشو کی اصل حقیقت

حکومت این جی اوز کی وجہ سے پریشان ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ ان میں سے کچھ ریاست کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ریاست کے مفاد کا تعین کون کرتا ہے اور کس فارمولے کے تحت کرتاہے، ریاست اور معاشرے کے ان غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں رویے پر سنجیدگی سے نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو این جی اوز کا دور شروع ہونے سے ہمارے سیاسی رویے میں تبدیلی آگئی۔ ہم اُن ایشوز پر مشکل سے ہی سٹینڈ لیتے ہیں جن میں کہیں سے فنڈنگ نہ ہو رہی ہو۔ کراچی میں وصول کی جانے والی رقم یا مساجد اور مدارس کو فراہم کیے جانے والے عطیات کو ایک طرف رکھیں تو ہمارے ہاں انسانی فلاحی کاموں کی روایت نہیں پائی جاتی ۔ اس کے لیے کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے؟
مجھے برطانیہ کے ڈیپارٹمنٹ آف انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ (DFID) کے ممبران سے جو جنوبی پنجاب میں انسداد ِ دہشت گردی کے لیے کچھ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے، اپنی ہونے والی گفتگو یاد ہے۔ میں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی رقم اپنے پاس ہی رکھیں کیونکہ جب تک مقامی افراد اس ایشو پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی زندگی اور اپنے معاشرے کو اس عفریت سے نہیں بچانا چاہتے، اس پر سرمایہ کاری کرنا برطانوی ٹیکس دہندگان کی رقم ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ بہرحال اُنہوں نے میری بات پرکان نہیں دھرے اور بہت سے ایسے افرادنے DFID اور یورپی یونین سے فنڈز لے لیے جنہیں جنوبی پنجاب کے زمینی حقائق کے متعلق علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس علاقے میں بنیاد پرستی بلا روک ٹوک بڑھتی رہی۔ پاکستان کے ریاستی عہدیدار ایسی نصیحت پسند نہیں کرتے کیونکہ عطیات کی مد میں ملنے والے رقم اُنہیں خوش کرتی ہے اور پھر تالی بھی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ حکومت ِ پنجاب کا تعلیم کے لیے مختص بجٹ مکمل طور پر DFID کا فراہم کردہ ہے۔ آج کل یہ ادارہ مقامی این جی اوزکو فنڈنگ کر کے سکول چلانے اور شرح خواندگی میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح سندھ حکومت نے غذائی قلت دور کرنے کے لیے کئی این جی اوز سے رابطہ کر رکھا ہے۔ کہاں ہے ریاست؟ وہ اپنے شہریوں کو تعلیم ، خوراک ، صحت اور زندگی کی دوسری سہہولتیں فراہم کیوں نہیں کرتی؟
نائن الیون کے بعد این جی اوز کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اس عمل میں 2005ء میںکشمیر اور شمالی علاقہ جات میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد تیزی دیکھنے میں آئی۔ پھر 2010ء اور2011ء کے سیلابوں جیسی قدرتی آفات نے حکومت کو این جی اوز کا تعاون لینے پر مجبور کردیا چاہے وہ مغربی عطیات سے چل رہی ہوں یا وہ جماعت الدعوۃ ہو۔ اس شعبے میں اضافے کے ساتھ سیاسی اداروں اور حکومتوں کو بدنام کرنے کی مہم شروع ہوگئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے چہیتے اینکرز حکومت کی مذمت کرتے ہوئے قدرتی آفات سے نمٹنے میں این جی او سیکٹر کی تعریف و توصیف کرنے لگے۔ بہت سے افراد نے غیر ملکی حکومتوں کے نمائندوں کو مشورہ دیا کہ وہ ''بدعنوان ریاستی مشینری‘‘ کی بجائے سول سوسائٹی پر انحصارکریں۔
پاکستان میں این جی او ز کا ڈھانچہ مکعب نما ہے۔ اس کی چوٹی پر چند ایک بڑے نام ہیں جیسے USAID، برطانیہ کا DFID اور جاپان کا JAICA۔ عطیات فراہم کرنے والے یہ پروگرامز وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے این جی اوسیکٹر کو فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر سرکاری بیوروکریسی بھی شریک ِعمل ہوجاتی ہے۔ سیودی چلڈرن، کیئر اور اس طرح کی دیگر این جی اوز دوسرے درجے پر آتی ہیں۔ یہ اپنے ذرائع سے فنڈز اکٹھاکرتی ہیں اور یقیناً ان کے وسائل USAID اور DFID پروگرامز کے مقابلے کے نہیں ہیں۔ ان دونوں پروگرامزکی فنڈنگ یواین کی فنڈنگ سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ USAID جس نے 1990ء میں پاکستان پر امریکی پابندیاں لگنے کے بعد یہاں اپنی سرگرمیاں معطل کردی تھیں، مشرف دور میںدوبارہ فعال ہوگئی۔ اس ڈھانچے میں سب سے نیچے مقامی این جی اوز ہیں جو پاکستانی قوانین کے مطابق رجسٹرڈ ہیں۔ یہ بھی عالمی سطح پر عطیات فراہم کرنے والے افراد اور اداروںسے فنڈز حاصل کرتی ہیں۔ قومی این جی اوزاُن شعبوںمیں معاونت کی غرض سے فنڈز حاصل کرتی ہیں جن پر حکومت اور عالمی عطیات فراہم کرنے والوں کی باہمی رضامندی شامل ہوتی ہے۔
اگر این جی اوز بدعنوان ہیں تو ان کی بدعنوانی میں حکومت بھی شریک ہے۔ لگا تار کئی وفاقی اور صوبائی حکومتوںنے اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اپنی ضروریات اور ماحول کی مناسبت سے پروگرام ترتیب دینے سے جان بوجھ کر گریز کا راستہ اختیار کیا۔ مثال کے طور پرپنجاب کے سکولوں سے کتابیںختم کرنے اور ای ایجوکیشن (E-Education) کا راستہ اپنانے سے خواندگی میں کس طرح اضافہ ہوگا؟ جب میں نے ایک کنسلٹنٹ سے اس ضمن میں سوال کیا تو اُس کا جواب تھا کہ ہر وہ چیز جس میں آئی ٹی کی شمولیت ہو، اس کے لیے بیرونی دنیا سے مدد لینا آسان ہوتا ہے۔ سول بیوروکریسی عطیات دینے والوں اور این جی اوز کے چکر کا ایک حصہ ہے۔ حکومت میں اہم روابط اور بہت سے امور کی معلومات رکھتے ہوئے یہ سرکاری افسرایسی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں اہم کارندوں کے طور پر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ مشرف؍شوکت عزیز حکومت کے شروع کردہ نظام نے سرکاری افسران کو اجازت دی کہ وہ اپنے عہدوں سے چھٹی لے کر کوئی اور ملازمت اختیار کرسکتے ہیں۔ اگرچہ کچھ افراد وضاحت کریں گے کہ یہ اُن نیک سیرت افسران کے پاس رزق ِحلال کمانے کا واحد ذریعہ تھا، لیکن اس میں مفادات کے ٹکرائو کا ایک ایسا ایشو تھا جس پر کوئی بھی توجہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ INGO (انٹر نیشنل نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز) کے احتساب کا مخصوص طریقِ کار کام نہیں کرتا۔ پاکستان میں کام کرنے والی ایسی ہر تنظیم منسٹری آف فنانس کے اکنامک افیئرز ڈویژن (EAD) کے پاس رجسٹر ہوتی ہے۔ چنانچہ این جی اوز کو مختلف مراعات، جیسے ڈیوٹی فری امپورٹ کے لیے EAD کو رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ باقاعدگی سے اپنی سرگرمیوں کی تفصیل سے آگاہ کریںگی۔ بدقسمتی سے اُن کی چھان بین کرنے والے چند ایک سیکشن آفیسرز کے پاس نہ تو وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کام کے طریقِ کار سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی تنظیمیں ہیں جو آئی این جی اوز (INGO) کی سرگرمیوں کو بڑھانے میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک امریکی INGO سے جو اسلام آباد میں کام کا آغاز کررہی تھی، کہا گیا کہ وہ Strategic Plans Directorate کے ایک ممبر کو انٹرویو دیں۔
2012ء میں ایوان ِ صدر کی طرف سے سیو دی چلڈرن کو عارضی طور پر کام کرنے سے روکنے پر جب انکوائری ہورہی تھی تو بتایا گیا کہ ریاست کے کچھ اہم حلقوں کی ہدایات کے مطابق یہ تا اطلاع ِ ثانی بند رہے گی ؛ تاہم کچھ عرصہ بعد اُنہی حلقوں نے اسے کام کرنے کی اجازت دے دی۔ یقیناً سیودی چلڈرن اور دیگر تنظیموں کو اپنی فعالیت میں شفاف ہونا چاہیے، لیکن ریاست کا بھی فرض ہے کہ وہ ان کے احتساب کا کوئی فارمولہ وضع کرے۔ چونکہ ان پروگراموں اور ان کے حوالے سے ریاست کے مقاصد کادرست علم نہیںہوتا، اس لیے ان کی فعالیت کے بارے میں غلط تخمینے اور شکوک و شبہات میں لپٹے ہوئے اندازے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ این جی اوز کا احتساب کرنے کے علاوہ بہتر ہوگا کہ ریاست اپنے جاسوسوںکو بتادے کہ کن مقاصد کے تحت عطیات وصول کیے جارہے ہیں۔ صحت، تعلیم، افرادی قوت کی ترقی، غربت میں کمی اور اس طرح کے دیگر پروگراموں کے لیے جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم یہ معاملات فنی نوعیت کے ہیں، اصل ایشو سیاسی ہے۔ این جی او مخالف مہم شروع کرنے کا مقصد شاید بلوچستان ، سزائے موت اور مسنگ پرسنز جیسے معاملات کو عالمی نظروں میں آنے سے روکنا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس طرح کے وقتی اقدامات سے ریاست کے بارے میں منفی تاثر اجاگر ہوگا۔ وقتی اقدامات کی عملی تشریح دیکھنی ہوتو سیودی چلڈرن پر پابندی لگانے اور ہٹائے جانے کی سرعت کو دیکھیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں