ایک فضائی کمپنی کا قتل

کئی سال پہلے جب میں پی ایچ ڈی کے مقالے،'اسلحے کی خریداری کے فیصلے‘ پر کام کررہی تھی تومیرے زیر ِ مطالعہ کتب میں سے ایک میں فضائی سفر کی بہت سی مثالیں دی گئی تھیں۔ کئی ایک فضائی کمپنیوں کو پیش آنے والے حادثات کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب اس بات کا جائزہ لیتی تھی کہ دبائو اور ناگہانی حالات انسانی ردِعمل پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک ہوائی جہاز حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا حامل ہوتا ہے لیکن اس کی کارکردگی کا بہت حدتک دارومدار اس مشین کو چلانے والے افراد پر ہوتا ہے۔ ایک پائلٹ کا اعتماد، خوشی، پریشانی یا بے چینی جیسے عامل فلائٹ سیفٹی کو متاثر کرتے ہیں۔ 
پی آئی اے کے حالیہ دنوں پائلٹوں کے ساتھ چلنے والے تنازع کے تناظر میں فلائٹ سیفٹی ایک ایسا اہم ایشوہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت تک میڈیا نے پائلٹوں کو ایسے''سرکش عناصر‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے جن کے نامناسب مطالبات نے معصوم مسافروں اور حکومت کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ تاثر دیا جارہا ہے کہ ان مطالبات کے پیچھے لالچ کے سوااور کوئی محرک کارفرما نہیں۔بعض حالیہ رپورٹیں شکایات کو اجاگر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ مسافروں کو جس چیز سے پریشانی ہے وہ پائلٹوں کی ہڑتال ہے۔ اور یہ تاثر بنیادی طور پر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پائلٹ تو طیارے اُڑا رہے ہیں، لیکن اُن کا اصرار ہے کہ وہ اُن قواعد وضوابط کے ، جو 2011-2013ء میں کیے جانے والے معاہدے میں شامل تھے، مطابق کام کریں گے۔ یہ معاہدے PIAC اورPALPA کے درمیان طے پائے تھے اور کسی حد تک 2009-2011ء میں ہونے والے معاہدے کا تسلسل تھے۔ یہ وہ قانون ہے جو پائلٹس ایسوسی ایشن اور ائیرلائن کے تعلقات کا احاطہ کرتے ہوئے فلائٹ سیفٹی کو یقینی بنانے پر زور دیتا ہے۔ 
قوانین کے مطابق پرواز کا مطلب ہے کہ پائلٹوں سے اُن کے کام کرنے کی گنجائش سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ انتظامیہ انہیں مجبور کررہی ہے کہ وہ طے شدہ معاہدے سے زیادہ اوقات کے لیے کام کریںتاکہ وہ پائلٹوں کی کمی کو دور کرسکے۔ گمان ہے کہ یہ کمی بھی مصنوعی طور پر پیدا کردہ ہے۔ اوسطاً پائلٹوںسے ایک سو گھنٹے زائد پرواز کا تقاضا کرنے کا مطلب ہے کہ اُن پر کام کا شدید دبائو ہے۔ بدقسمتی سے یہ مسئلہ بری منصوبہ بندی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے فضائی بیڑے میں سترہ نئے جہازوں کا اضافہ کیا جن میں سے پانچ ATR-72 اور بارہ A320 ہیں ، جبکہ کچھ 777 بھی خریداری کے مراحل سے گزرہے ہیں۔ اس طرح ان جہازوں کو فعال بنانے کے لیے کم از اکم ایک سو تیس پائلٹوں کی کمی محسوس کی جارہی ہے ۔ مذکورہ بالا معاہد ہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کتنی پروازوں کے لیے کتنا عملہ کتنی دیر کے لیے مقرر کیا جائے گا، چنانچہ اس معاہدے کی اپنی جگہ پر بہت اہمیت ہے۔یہ بات بھی اہم کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ایسا ہورہاتھا لیکن PALPA کی ایگزیکٹو کمیٹی اور ایوی ایشن کے عہدیداروںنے اس سے صرف ِ نظر کیا۔ کچھ پائلٹ یہاںتک کہتے ہیں کہ ایسوسی ایشن کے سینئر ممبران نے اصولوںسے کسی ذاتی مفادکی خاطر یا کسی قانون کی خلاف ورزی پر پردہ ڈالنے کے لیے طے شدہ اصولوں پر سمجھوتہ کیا۔ تاہم موجودہ مسئلہ کچھ خاص ممبران کا نہیں، تمام پائلٹوں کا ہے۔ 
اس مسئلے کو معمولی اور احتجاج سمجھ کر نظر انداز کرنا غلطی ہوگی اور نہ ہی اسے محض تنخواہوںمیں اضافے کا مطالبہ سمجھا جانا چاہیے، بلکہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اوراس کا تعلق فضائی سفر کے دوران ہمارے حفاظت پر منزل پر پہنچ جانے سے ہے۔ اس سے بھی اہم یہ کہ اس کا تعلق پی آئی اے کے مستقبل سے ہے۔ میڈیا جس چیز کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا ، وہ یہ حقیقت ہے کہ جہازوں کو بیڑے میں شامل کرنے اور عملے کی مطلوبہ تربیت میںبہت فرق ہے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق 2015ء کے آغاز سے ہی ہمارے پاس کوئی تربیتی پروگرام یا تربیتی جہاز نہیں ۔ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ 777 طیاروں کے لیے اس سال اپریل یا مئی میں بیس کے قریب پائلٹوں کی خدمات حاصل کرے گی۔ ایسا کیوں ہے کہ 65 کے قریب کیڈٹ پائلٹ گزشتہ پانچ برسوںسے گھروں میں بیٹھے ہیںکیونکہ اُنہیں کام پر نہیں رکھا گیا ہے۔ کچھ737 طیاروں کو گرائونڈ کیوں کیا گیا حالانکہ اُن کی پرواز کی عمر باقی تھی؟یا ائیرلائن میں ترقی یا تعیناتی طے شدہ اصولوں کے مطابق کیوں نہیںکی جاتی؟کیا یہ سوال اٹھائے جانے کی ضرورت نہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ نوجوان پائلٹوں کو ملازمت نہیںدی جارہی اور سینئر پائلٹوں کو شیڈول کے مطابق تربیت نہیں دی جاتی اور اُن سے طویل گھنٹوںکے لیے کام لیا جاتا ہے۔ اگر نئی ایوی ایشن انتظامیہ نے شارٹ کنٹریکٹ پر ان آسامیوں کو پُر نہ کیا تو بہت جلد فلائنگ عملے کی قلت پیدا ہوجائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ پائلٹوںسے چھٹکاراپانے کی ترکیب کی جارہی ہے تاکہ مختصر مدت کے کنٹریکٹ دے کر نئے پائلٹوں کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ائیرلائن کو بھی شوگر یا سٹیل مل کی طرح چلانا چاہتی ہے ۔ ان ملوں میں رقم بچانے کے لیے ملازموں کو سیزن آئوٹ ہونے پر نکال دیا جاتا ہے۔ میڈیا یقینا اس مسئلے پر مغالطے کا شکار ہوگیااور اس نے اسے حقیقی معنوں میں اجاگر نہ کیا۔اسلام آباد میں 2010 میں ائیربلیو کی پرواز کو پیش آنے والے حادثے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ خراب موسم کی وجہ سے اُس دن پی آئی اے کی پروازوں کا رخ لاہور کی طرف موڑدیا گیا لیکن پائلٹ نے لینڈ کرنے کی کوشش کی اور اُس کا جہاز مارگلہ پہاڑیوںسے ٹکراگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پائلٹ کو ڈر تھا کہ کمپنی کے مالک جہاز کا رخ موڑنے پر اٹھنے والے زائد اخراجات کی وجہ سے اُس سے کڑی بازپرس کریں گے۔ ایوی ایشن کی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح عدم تحفظ کا احساس پائلٹوں کے ذہن پر سوار رہتا ہے۔ 
یہاں یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ بہت سے مسائل کے باوجود پی آئی اے کی فلائٹ سیفٹی کا ریکارڈ تسلی بخش ہے۔ مذکورہ بالا معاہدے کو تبدیل کرنا آسان معاملہ نہیں کیونکہ وہ بہت سے امور کا احاطہ کرتا ہے۔ تاہم نئے جہازوں کے اضافے اور ٹریننگ کی کمی سے ایسا لگتا ہے کہ ائیرلائن کو فروخت کرنے کا منصوبہ بن چکا۔ اس کے فضائی بیڑے میں نئے جہازوں کی شمولیت متوقع خریداروں کے لیے پرکشش ہوگی ، لیکن وہ یقینا مستقل اور تھکے ماندے سٹاف کو رکھنے کے روادار نہیںہوںگے۔ اس لیے پنجا ب حکومت سٹائل کہ پسندیدہ افراد کو رکھیں ، باقیوں کی چھٹی کرادیں، کی طرح چلایا جارہا ہے۔ یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ موجودہ ایسوسی ایشن انتظامیہ کی نمائندگی وزیر ِ اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے ایوی ایشن کرتے ہیں۔ اس سے مفادات کے ٹکرائو کا بھی تاثر ملتا ہے۔ بہرحال اگر پی آئی اے کو فروخت کرنے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے ، تو اسے زیادہ بہتر انداز میں کیا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں