پیرس حملوں کے اگلے روز بیدار ہونے کے بعد یورپ یا باقی دنیا میں مسلمانوںکو ایک عجیب سے احساس نے گھیر لیا ہو گا کہ اُنہیں ایک ایسے گناہ کی سزا مل سکتی ہے‘ جس میں اُن کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تشدد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اسلام فوبیا رکھنے والوں نے اس سانحے کا شامی مسلمان مہاجرین سے تعلق جوڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے ساتھ یہ پیش رفت ہوئی کہ حملوں میں ملوث مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ تاحال ایسی کوئی دلیل نہیں ہے‘ جو اس واقعے کا اسلام سے تعلق جوڑ سکے۔ دنیا میں ہونے والی قتل و غارت میں صرف مسلمان ہی ملوث نہیں، میانمار اور سری لنکا میں بدھ انتہاپسندوں کی کارروائیاں، ہندو شیوسینا اور آر ایس ایس کا مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں پر وحشیانہ تشدد اور نہتے فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی جارحیت اور ایسی ہی بے شمار مثالیں ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ دنیا میں ہونے والے تشدد کی تمام ذمہ داری مسلمانوں پر ہی عائد نہیں ہوتی۔
اگرچہ تشدد کی کوئی بھی کارروائی دوسرے سے بہتر نہیں ہوتی‘ اور نہ ہی کسی کا جواز دوسرے سے زیادہ ٹھوس ہوتا ہے‘ لیکن جب بھی مسلمان کسی کاررروائی میں ملوث ہوں تو وہ واقعہ عالمی مضمرات کا حامل ہونے کی وجہ سے توجہ کا زیادہ مرکز بن جاتا ہے۔ مسلمانوں کی طرف انگشت نمائی کرنے کی ایک وجہ غالبا ً یہ بھی ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک عالمی سطح پر تو ایک طرف، داخلی طور پر بھی نہ صرف دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عزم نہیں رکھتے بلکہ بسا اوقات اُن میں سے کچھ دہشت گردی سے اغماض برتتے ہیں۔ اس کے لیے ہم اپنے ملک، پاکستان، کی مثال دے سکتے ہیں ۔ یہاں سینکڑوں معصوم بچوں کی بہیمانہ ہلاکت بھی حکمرانوں (اس میں سویلین اور خاکی وردی پوش، دونوں شامل ہیں) کو قائل نہ کر سکی کہ وہ غیر ریاستی عناصر سے مکمل طور پر لاتعلق ہو کر ان کا قلع قمع کریں۔ آپریشن چل رہا ہے، اس کے باوجود ہم ان میں سے بہت سوں، جن کا ماضی دہشت گردی سے عبارت ہے، کو اس امید پر ہدف بنانے سے گریز کر رہے ہیں کہ شاید وہ کبھی معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ میں ہر کسی کو ہلاک کرنے کے حق میں نہیں لیکن ہر کسی نے اپنے ماضی کا حساب تو دینا ہے۔
مزید یہ کہ دہشت گردی کے واقعات کو غیرملکی سازش کی عینک سے دیکھنے کی بجائے‘ ہمیں اپنے سیاسی و نظریاتی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کا موجودہ واقعات سے گہرا تعلق نکلتا ہے۔ یقینا عالمی طاقتوں کی غلط پالیسیوں، جن کے نتیجے میں عراق اور کچھ دیگر ریاستوں کی اتھارٹی تحلیل ہو گئی، کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا میں داعش جیسے عفریت نے سر اٹھایا؛ تاہم اس کے پیچھے ایک مخصوص نظریے کے نفاذ، کچھ اسلامی ریاستوں کا دیگر ریاستوں پر اپنا اختیار مسلط کرنے کی خواہش اور، سب سے بڑھ کر، اسلامی ریاستوں پر مسلط شدہ غیر جمہوری حکومتوں کا مخصوص نظریات کے خلاف اقدامات کرنے کی پالیسی کارفرما تھی۔
داعش تیسری نسل کے جنگجوئوں کی مسلح تحریک ہے۔ اس کا آغاز مشرق وسطیٰ میں النصرہ اور القاعدہ سے ہوا۔ اگرچہ یہ گروہ صرف دہشت پھیلانے کی پالیسی رکھتے تھے‘ لیکن داعش نے آگے بڑھ کر خطوں کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا ہے۔ بہرحال ان سب گروہوں کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہے۔ یہ سب ایک طاقت ور اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں جو فوجی اور سیاسی اعتبار سے دیگر مذاہب اور تہذیبوں پر فوقیت رکھتی ہو۔ اگرچہ شناخت کے بحران اور نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد مسلمان نوجوانوں کو اپنے طبقے میں نظر آنے والی پسماندگی نے ایک آتش گیر عامل کا کام کیا‘ لیکن اصل مسئلہ اُس نظریے کا ہے‘ جو دوسروں پر غلبہ پانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ گروہ بھی ماضی میں روا رکھے جانے والے طاقت کے استعمال کو اپنی کارروائیوں کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس ذہنیت کا دوسرا پہلو اپنے اپنے تصور کے مطابق مذہب کی درست تشریح کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلم ریاستیں داخلی طور پر افراتفری، جسے عام فہم زبان میں فرقہ واریت کہا جاتا ہے، کا شکار ہیں۔
انفرادی گروہوں کی طرف سے جہاد کا تصور، جو بعض حلقوں میں دیگر تہذیبوں پر غلبہ پانے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے، ریاست کے وجود پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ بہت سے دانشور عقیدے کو انفرادی ذمہ داری قرار دیتے ہیں کیونکہ، اُن کے مطابق، ریاست اور حکمران اشرافیہ شہریوں کی زندگیوں کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔ اسلامی تاریخ میں تمام دفاعی یا جارحانہ جنگیں اسی تصور کی بنیاد پر ہی لڑی گئیں کہ حکمران اور ریاست میں ٹکرائو موجود تھا۔ اس حوالے سے داعش ایک حقیقی خطرے کی علامت بن کر ابھر رہی ہے کیونکہ یہ نظریے کو استعمال کرتے ہوئے موجودہ افراتفری کو مقدس جنگ، جو اسلام اور مسیحی اور یہودی تہذیب کے درمیان لڑی جائے گی، میں تبدیل کرنے کی امید رکھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف داعش کی ہی سوچ نہیں، پاکستان کے اہم انتہا پسند عناصر بھی یہی نظریات رکھتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے یہ سوچتے ہیں کہ یہ انتہا پسند تنظیمیں بنیادی طور پر کشمیر کے مسئلے پر ہی اپنا فوکس رکھتی ہیں‘ لیکن ان کا لٹریچر مغربی دنیا کے مذاہب کے خلاف ہے اور ان کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔
دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کی ہر کارروائی، چاہے یہ بنکاک میں ہو یا پیرس میں، کے بعد تشدد کے خلاف فتوے دیتے ہوئے مسلمان مولوی دہشت گردی کے ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ کچھ تو اتنی نرم خوئی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ وہ امن کی فاختہ دکھائی دیتے ہوئے تشدد کے خاتمے کے لیے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ ایسی آرا، جو پاکستان میں کثرت سے پائی جاتی ہیں، دہشت گردی کی مذمت تو کرتی ہیں‘ لیکن داخلی طور پر پروان چڑھنے والے انتہا پسندی کے جذبات کا مداوا نہیں کرتیں۔ اس وقت دنیائے اسلام کو ایک نیا بیانیہ سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ احکامات کے کیا معانی نکالنے ہیں۔ مسلمان معاشروں کو ذمہ داری اٹھانا ہو گی کیونکہ اس وقت حالات کا قافیہ تنگ ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فرانس اور دیگر طاقتیں مشرق وسطیٰ میں فوجیں نہ اتاریں‘ لیکن بڑھتے ہوئے اشتعال کی وجہ سے افراد نفرت کا نشانہ بنیں گے۔ مسلمانوں کو مغربی ممالک سے نکالنے کا مطالبہ بھی سامنے آئے گا۔ اس سے نسل پرستی کے جذبات سے سماجی فضا بوجھل ہو جائے گی۔
ان معروضات کا مطلب یہ نہیں کہ انتہائی نرم خوئی اختیار کرتے ہوئے تھپڑ کھانے کے بعد دوسرا گال بھی آگے کر دیا جائے‘ لیکن سٹریٹجک تصور اور فکر کی ضرورت یقینی طور پر ہے۔ اس وقت انفرادی طور پر دیے گئے فتوے کام نہیں دیں گے بلکہ اسلامی معاشروں کو داخلی طور پر تاریخی عوامل کا جائزہ لے کر مقدس کتاب کے درست معانی تلاش کرکے ایک بیانیہ آگے بڑھانا ہو گا۔ مجھے امریکہ کے عراق پر حملے سے پہلے کچھ پوسٹ گریجوایٹ طالب علموں سے اسلام آباد میں ہونے والی گفتگو یاد آ رہی ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ امریکہ مداخلت نہیں کرے گا کہ اس سے مسلم دنیا عدم استحکام سے دوچار ہو جائے گی؛ تاہم وہ یہ سن کر پریشان ہو گئے کہ دنیا کو مسلم دنیا کی کوئی پروا نہیں کیونکہ معاشی پسماندگی کے علاوہ اسلامی دنیا سیاسی، فوجی اور ذہنی طور پر بھی کمزور اور لاچار ہے۔ مت بھولیں کہ ننھے ایلان کردی کی ہلاکت کے بعد اسلامی دنیا نے نہیں، یورپ نے شامی مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے؛ چنانچہ داعش کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ افراد اور تہذیب کے درمیان کشید گی پیدا کرے۔ اس کا تعلق صرف یورپ کے امن سے نہیں، مسلمانوں کے بچائو سے بھی ہے۔