کیا ثقافت انتہا پسندی کا تریاق ہے؟

انتہا پسندی کے مقابلے پر تازہ بیانیہ لانے کی بازگشت اسلام آباد میں تواتر سے سنائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ریاست اور حکومت معاشرے کو انتہا پسندی سے نجات دلانے کا منصوبہ بنا چکی ہیں، بلکہ اس لیے کہ عالمی برادری، خاص طور پر عطیات فراہم کرنے والوں کی توجہ حاصل کرنے کا یہ ایک عمدہ حربہ ہے۔ اس کی ایک وجہ داعش کا بڑھتا ہوا خوف بھی ہوسکتا ہے۔ وزارت ِداخلہ اور آئی ایس پی آر کے ان دعووں کے باوجود کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں، اس کے سیاہ سائے کہیں کہیں دکھائی ضرور دیتے ہیں۔ ہاں، داعش کی موجودگی کی حدود کا پاکستان اور افغانستان میں تعین کرنے پر اختلافات ضرور ہوسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہاں اس کا تنظیمی ڈھانچہ نہ ہو اور نہ ہی اس کی قیادت اور واضح کارکن موجود ہوں۔ دراصل داعش ایک مختلف طریقے سے کام کرنے والی تنظیم ہے جو مشرق ِوسطیٰ کے کشمکش کا شکار علاقوں میں اپنا فعال تنظیمی ڈھانچہ رکھتے ہوئے ایشیا سمیت دنیا بھر کے افراد اور گروہوں سے روابط قائم کرتی ہے۔ پھر اس کے نیٹ ورک کی موجودگی سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے جبکہ پنجاب اور سندھ سے سیکڑوں افراد شام میں لڑنے کے لیے گئے ہیں؟ اس حقیقت کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ لوگوں کو انتہا پسند بنانے کے لیے بہت مربوط کوشش ہو رہی ہے۔ اس کوشش میں ایک مرحلہ ایسا ضرور آتا ہے جب وہ افراد خود ہی ''مقدس جنگ ‘‘ لڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اہم عہدوں پر فائز سرکاری افسران، جو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں، کے ذہن میں کسی طور یہ خیال موجود ہے کہ اس عفریت کا مقابلہ کلچر کو فروغ دے کر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ روایتی میلوں، ادبی تہواروں اور دیگر پروگراموں کے انعقاد سے بھی انتہا پسندی کا تدارک کرنے میں مددمل سکتی ہے۔ یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ سیکڑوں افراد کا پرامن اجتماع، جس میں دہشت گردی کی کوئی کارروائی نہ ہو، دنیا کو تاثر دے سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ اور ماحول توانا ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہماری تمام کوششوں کا منشا انسداد ِدہشت گردی ہے، لیکن انتہا پسندی کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا ۔ اس سے قطع نظر کہ کیا ریاست ایسا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے، اس کا کم از کم فرض شہریوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ 
اس سے بھی اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ کلچر کو فروغ دینے سے اُن کا مقصد پورا ہوجائے گا؟ کیا وہ درحقیقت یہ سوچ رہے ہیں کہ میلے اور تہوار عوام کو انتہا پسندی سے دور لے جائیںگے؟ میں ان افراد کی توجہ پنجاب بھر میں کمرشل تھیٹروں کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہوں۔ ان تھیٹروں میں دکھائی جانے والی پرفارمنس کو اگر مجرا نہیں کہا جاسکتا تو اس سے کم بھی کوئی لفظ نہیں۔ جتنا چھوٹا قصبہ ہوگا، اتنی ہی عریاں اور فحش پرفارمنس دکھائی جائے گی۔ اس شو میں صرف مرد ہی ہوتے ہیں جبکہ سٹیج پر لڑکیاں پرفارم کر رہی ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو ایسا کوئی شو دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو اُس علاقے کے مقامی مذہبی افراد بھی وہاں دکھائی دیںگے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے چہرے چھپانے کی کوشش میں ہوں، لیکن وہ پہنچانے جاسکتے ہیں۔ اس موقع پر اُن کی نظروں کا تعاقب کریں، اُن کی محویت کا مرکز دیکھیں! یہی کچھ صوبے کے بہت سے مزارات پر ہونے والے میلوں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ یہاں آپ کو عورتوں سے نفرت کرنے والی ذہنیت بھی دکھائی دے گی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان تہواروں میں انتہا پسند آکر لبرل نہیں، مزید انتہا پسند اور جنونی بن جاتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ موسیقی یا رقص کوئی بری چیز ہے، بلکہ یہ کہ اس کے ذریعے آپ لوگوں کی سوچ پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ اس حقیقت کو فراموش مت کریں کہ جنوبی پنجاب میں جو انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کا گڑھ ہے، لاتعداد مزارات موجود ہیں اور وہاں ہونے والے میلوں میں طوائفوں کا رقص اور منشیات کا استعمال عام دیکھنے میں آتا ہے۔ جو لوگ نشے کے عادی نہیں ہوتے، وہ بھی ان مواقع پر کش لگانے سے باز نہیں آتے۔ 
بہرحال جس دوران ہمارے ہاں انتہا پسندی پروان چڑھ رہی تھی، میلے اور تہوار اپنی جگہ جاری تھے۔ جن علاقوں میں طالبان موجود تھے، اُنہوں نے میلوں اور میلاد کے اجتماعات کو طاقت سے روکنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں کراچی میں منگھو پیر میں شہیدی میلے کو رکوانے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اندرون سندھ کے کچھ حصوں میں میلاد کے اجتماعات کو بھی روکا گیا۔ تاہم یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اگرچہ سندھی معاشرے میں بھی نسائیت سے نفرت کی جذبات موجود ہیں لیکن وہ بنیادی طو رپر انتہا پسند معاشرہ نہیں ہے۔ 
ریاست انتہا پسندی کا تدارک کرنے کی خواہش مند دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اس کے لیے طویل حکمت ِعملی درکار ہے ۔ سیاسی طبقے اور سرکاری افسران کے درمیان مغلوبہ بننے والی پالیسیوں کا محور انتخابی کامیابی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اور پھر عطیات فراہم کرنے والے بھی ''بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘‘۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف اعداد و شمار ہی کافی ہیں، بیانیہ تبدیل ہونے کو کون دیکھتا ہے۔ ہاں، اس کو اپنی گفتگوکا لازمی حصہ بنایا جاتا ہے تاکہ مناسب تاثر چلاجائے۔ مختصر یہ کہ انتہا پسندی کے خلاف کوئی حکمت اس وقت تک کارگر نہیں ہوگی جب تک سٹریٹیجک بنیادوں پر ایک نیا بیانیہ آگے نہیں بڑھایا جاتا۔ اس کے لیے بنیادی طور پر ذہن بدلنا ہوگا۔ مثال کے طور پر اُس وقت تک سوچ تبدیل نہیں ہوگی جب تک یہ باور نہیں کرایا جائے گا کہ پاکستان ایک نیشن سٹیٹ ہے، پوری امت ِمسلمہ کا محافظ قلعہ نہیں! اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان مذہب سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ 
انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ریاست کو بھارت مخالف بیانیے کو بھی بدلنا ہوگا۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ ہمیں کسی سے فوجی خطرہ نہیں یا یہ کہ ہم کشمیر کو بھول جائیں، لیکن انڈیا اور پاکستان کے مسائل کو ہندو اور مسلمان کے مسائل بنا کر نہ پیش کیے جائیں۔ یقیناً مدرسوں میں اصلاحات درکار ہیں، لیکن اُنہیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے بہتر ہے کہ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں