تحریک انصاف کا مستقبل

غالباً 31جنوری کے ٹی وی پروگرام میں جب میری باری آئی تو میں نے عرض کیا کہ عمران خان بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔ ایسی گلی کہ جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا۔ اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں۔
پینل میں شامل تحریک انصاف کے مدّاحوں کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی جسے میں نے نظر انداز کر دیا اور دل میں دعا کی کہ خدا پاکستان کو ہر طرح کی ناخوشگوار صورتحال سے محفوظ رکھے۔ پروگرام میں یہ بھی کہا تھا کہ گلی تو بند ہے مگر واپسی کا باوقار راستہ موجود ہے۔ کچھ اور لوگوں نے بھی ایسی ہی بات کہی ہوگی‘تاہم جب آنکھوں کے آگے تکبر اور انا کے پردے حائل ہوں تو پھر اپنے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
خیر ہمیں تو اپنی اوقات خوب معلوم ہے۔ البتہ آج سے صرف دو اڑھائی ماہ قبل ایک نہایت اہم شخصیت نے عمران خان سے ملاقات کی۔ اُن کو حالات کی سنگینی‘ معیشت کی ہر لمحہ بگڑتی ہوئی صورتحال اور سیاست میں عدم استحکام سے آگاہ کیا‘ مذاکرات کی ضرورت پر بہت زور دیا۔جب یہ واجب الاحترام لیڈر رخصت ہونے لگے تو انہوں نے عمران خان سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب! اللہ نے آپ کو بہت مقبولیت دی ہے اگر آپ اس مقبولیت کو انتخابی کامیابی میں نہ بدل سکے تو یہ آپ کی بہت بڑی ناکامی ہو گی۔ خان صاحب اس مشورے کی سنجیدگی کو نہ سمجھ سکے۔
سیاست میں اس بات کی بے حد اہمیت ہوتی ہے کہ کیا فیصلہ کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ جنگ‘ کھیل اور بزنس کی طرح سیاست میں بھی کسی فیصلے کی ٹائمنگ نہایت اہم ہوتی ہے۔ اگر آپ درست فیصلہ وقت گزرنے کے بعد کریں گے تو وہ بے وقت کی راگنی ہی شمار ہوگا۔ جب تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بہت سی جماعتوں کی متحدہ حکومت‘ تحریک انصاف کے قائد کو مذاکرات کی دعوت دے رہی تھی‘ جب دردِ دل رکھنے والے سیاستدان‘ اہم اخبار نویس اور سول سوسائٹی کے ممتاز افراد خان صاحب کو مذاکرات کی میز پر آنے کو کہہ رہے تھے تو اس وقت عمران خان کھلے دل کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات پرآمادہ نہ تھے۔اب عمران خان نے پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم بنا کر اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ مذاکراتی ٹیم میں شاہ محمود قریشی‘ پرویز خٹک‘ اسد قیصر‘ حلیم عادل‘ عون عباس‘ مراد سعید اور حماد اظہر شامل ہیں۔ یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب تحریک انصاف کے اسد عمر‘ فواد چودھری اور عمران اسماعیل جیسے لوگ پارٹی کو خیر باد کہہ گئے ہیں۔ بعض تو سیاست سے ہی تائب ہو گئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نومئی کے ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنانا چاہئے تاہم کسی بے گناہ کو ہرگز ہرگز نہیں۔محض شک کی بنا پر کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہئے۔ عمران خان کی پیشکش بے وقت سہی مگر اس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے سنجیدہ فکر سیاست دانوں کو وہ طنز و طعنہ زیب نہیں دیتا۔ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ اکیلا بیٹھ کر کہہ رہا ہے مذاکرات کر لیں۔ مریم اورنگ زیب کہتی ہیں کہ یہ این آر او کی اپیل ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ اگر مذاکراتی ٹیم کے ارکان خیر باد کہہ گئے تو متبادل ناموں کا اعلان کر دیں۔یہ طنزیہ گفتگو اور زہر خند تبصروں سے مسلم لیگ (ن) کو اجتناب کرنا چاہئے۔ اس وقت (ن)لیگ کے سیاستدانوں کو بغلیں بجانے اور اداروں سے اپنے پرجوش رابطوں پر شادیانے بجانے کے بجائے ماضی‘ حال اور مستقبل کے حوالے سے گہرا غور و فکر کرنا چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ ماضی اور حال میں سیاست دانوں سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جن کی بنا پر جمہوریت کمزور ہوئی۔ آئندہ کیلئے ان غلطیوں کے تکرار کا دروازہ بند کرنا ہوگا۔موجودہ حکومت میں شامل سیاستدانوں اور حکومتی عہدہ داروں کو معیشت کی ہر دم بگڑتی صورتحال کو اوّلیں ترجیح دینی چاہئے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 310روپے تک پہنچ چکا ہے۔ قیمتیں اتنی بلند ہو چکی ہیں کہ آدھی سے زیادہ آبادی کو دو وقت روٹی اور چٹنی تک دستیاب نہیں۔اوپر سے بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی عام آدمی کیلئے تقریباً ناممکن ہے۔
اپنی ریٹائرمنٹ سے صرف ایک ہفتہ قبل نومبر 2022میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے راولپنڈی گریژن میں خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ کئی دہائیوں تک اُن کے ادارے کی طرف سے قومی سیاست میں غیر دستوری مداخلت ہوئی اس کی بنا پر ہمیں کبھی کبھی عوامی تنقید سننا پڑتی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا تھا کہ فروری 2021ء میں فوج نے بحیثیت ادارہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر ادارہ آئندہ سیاست میں ہرگز دخل اندازی نہیں کرے گا۔ جنرل باجوہ نے زور دے کر کہا تھا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ فوج اس فیصلے پر کاربند رہے گی۔ فوج نے سابق وزیراعظم کی بے پناہ خواہش کے باوجود سیاسی ملاقاتوں یا اپنے زیر نگرانی مذاکرات کا دروازہ نہیں کھولا۔
سیاستدانوں کو بھی باہمی اتفاق سے ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ مستقبل میں فوج سے سیاسی یا انتخابی مدد و تعاون کے طلب گار نہیں ہوں گے۔ اپنے فیصلے خود کریں گے۔ دستور کے مطابق ملکی سکیورٹی کیلئے یقینا کوئی بھی منتخب حکومت ملٹری سے صلاح مشورے کی پابند ہے۔ گاہے بہ گاہے یہ اجلاس ہوتے رہیں گے اور ملکی دفاع اور ترقی کیلئے مثالی تعاون جاری رہے گا البتہ ''سیاسی تعاون‘‘ کے دروازے باجوہ صاحب کی کمٹمنٹ کے مطابق اب ہمیشہ کیلئے بند ہو جانے چاہئیں۔ اس سلسلے میں ماضی قریب کے ''سیاسی تعاون‘‘ نے جو گل کھلائے ہیں اُن سے فوج کے اس فیصلے کی حکمت پوری طرح عیاں ہو رہی ہے۔ ہمارے قارئین ہی نہیں‘ ہر مجلس میں بھی لوگ ہم سے یہی سوال کرتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی ٹوٹ رہی ہے یا توڑی جا رہی ہے۔ اس وقت تو اس سوال کا صرف اتنا ہی جواب دیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف سے واپس جانے والوں کی ایک بڑی تعداد اُن لوگوں پر مشتمل ہے کہ جو
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ کہ جو ہر شب سونے سے پہلے خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہیں مگر عمران خان شاید اُن لوگوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنے ''مزاج کی شدّت‘‘ سے اپنے نصیب کو بھی غلط رخ پر ڈال دیا ہے۔ شاید ان دنوں فرصت میں خان صاحب اپنا اور اپنی پارٹی پالیسی کا احتساب کر رہے ہوں گے۔ جو لوگ خان صاحب کے قریب تھے بلکہ جو بہت قریب تھے اُن کا بھی کہنا ہے کہ خان صاحب کے ہاں اوپن مشاورت کا کوئی تصور نہیں۔ شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کو بھی اُن کے سامنے اذنِ کلام تھا اور نہ جرأتِ اظہار۔
عرب دنیا میں طویل قیام کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ بادشاہوں نے بھی اپنے چند مشیروں کو مکمل اذنِ کلام دیا ہوتا ہے کہ وہ جو دیکھیں اور اُن کی جو آبزرویشن ہو وہ من و عن حاکم تک پہنچا دیا کریں‘عمران خان کے ہاں مشاورت کا ایسا کوئی آزادانہ نظام نہ تھا۔ مستقبل میں جھانکنے اور بدلتے حالات کو پرکھنے کی انہیں مہارت تھی اور نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ خان صاحب کا خیال تھا کہ سیاسی کامیابی کیلئے ''عوامی مقبولیت‘‘ ہی سب کچھ ہے جبکہ اس کے درجنوں اور چیزیں بھی اہم ہوتی ہیں۔
پی ٹی آئی سے ناتا توڑنے والوں کیلئے اس وقت کئی آپشنز ہیں۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور جہانگیر ترین کی قیادت میں بننے والی پارٹی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین صاحب کی پارٹی پر اب غیبی دست شفقت ہوگا‘ مگر ہمیں پختہ یقین ہے کہ فوج اپنی کمٹمنٹ پر پورا اترے گی اور اب پاکستان میں کوئی کنگز پارٹی نہ ہوگی۔ جہاں تک تحریک انصاف کے مستقبل کا تعلق ہے تو اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ اس پر پابندی نہیں لگنی چاہئے۔ پی ڈی ایم تحریک انصاف کا سیاسی و انتخابی میدان میں مقابلہ کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں