وزیراعظم کاکڑ‘ خوش آمدید

میرے گزشتہ دو تین ہفتے بڑے خوش گوار گزرے ہیں۔ تقریباً روزانہ ہی کسی عزیز یا دوست کا فون آ جاتا تھا۔ ہر فون کال اپنے ساتھ نہایت ہی ثقہ ذرائع سے یہ خبر لاتی تھی کہ آپ کے فلاں دوست یا جاننے والے کے بارے میں متفقہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ وہ اگلے نگران وزیراعظم ہوں گے۔ ایک روز میں ٹی وی بند کر کے سونے جا رہا تھا کہ ایک باخبر عزیز کی کال آ گئی کہ آپ کے ایک دوست کے ریٹائرڈ چچا کے لیے میاں نواز شریف صاحب نے ابھی ابھی لندن سے اوکے کہہ دیا ہے کہ وہی اگلے نگران وزیراعظم ہوں گے۔ میرے عزیز نے اتنے وثوق سے یہ مژدہ سنایا کہ مجھے محسوس ہوا کہ ادھر کال بند ہو گی اور ادھر ٹی وی سکرین پر اُسی نام کی بریکنگ نیوز آ جائے گی۔
پہلے تین نام آئے جن میں عبدالحفیظ شیخ‘ رضا باقر اور میاں محمد سومرو شامل تھے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ نام آئی ایم ایف کے منظور کردہ ہیں۔ پھر اسحاق ڈار‘ شاہد خاقان عباسی اور فواد حسن فواد کے نام سامنے آئے تو کہا گیا کہ ناموں سے ہی عیاں ہے کہ یہ میاں نواز شریف کی طرف سے ارسال کردہ ہیں۔ آخر میں جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جلیل عباس جیلانی کے ناموں کا چرچا ہوا تو ان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ ہیں۔ سیہون شریف سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست خالد احمد قاضی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں۔ اُن کی سوچ اور اپروچ سیاسی ہے۔ میں نے اُن کے سامنے اہم پاکستانی ناموں کی کہکشاں ایک ہفتہ قبل پیش کی تو انہوں نے کہا کہ ان میں سے ایک بھی نہیں۔ قاضی صاحب نے کہا کہ اگر سیاسی دانشمندی کا ثبوت دیا گیا تو وزیراعظم بلوچستان کی کوئی اہم شخصیت ہو گی۔ میرے فاضل دوست کے عرفان سے بس اتنی بھول ہوئی کہ انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے سابق سپیکر محمد اسلم بھوتانی کا نام لیا تھا جبکہ قرعۂ فال سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے نام نکلا۔
البتہ قارئین کی دلچسپی کے لیے اتنا عرض کر دوں کہ راجہ ریاض نے قائدِ حزب اختلاف کا کردار جس مہارت سے ادا کیا اس سے تو معلوم ہوتا تھا کہ فی الواقع وہ ایک ایسی اپوزیشن کے لیڈر ہیں جن کی پارٹی اور حکومتی پارٹی میں بس انیس بیس کا فرق تھا۔ میاں شہباز شریف جس ''بزمِ ناز‘‘ سے اپنی قربتوں کا برملا اعتراف و اظہار کرتے رہتے ہیں‘ اُس بزمِ ناز سے اس بار خبر راجہ ریاض لائے اور یہی فائنل خبر تھی۔ انگریزی محاورے کے مطابق کہ وہی اچھا ہے جس کا انجام اچھا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ نام کہاں سے آیا یا کوئی کہاں سے لایا مگر اس حسنِ انتخاب کی بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔
میں نے دو سینئر سینیٹرز سے جناب انوار الحق کاکڑ کے بارے میں پوچھا تو دونوں رہنماؤں نے اُن کے بارے میں نہایت مثبت رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ نہایت مہذب اور شائستہ شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ کثیر المطالعہ ہیں۔ کم از کم چھ زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ انگریزی اور اردو میں بہترین خطابت کے جوہر دکھاتے ہیں۔ دونوں سینیٹرز کا اتفاق ہے کہ وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ ہیں اور دینی شعائر سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف انگریزی ادب اور انٹرنیشنل افیئرز وغیرہ کے بارے میں مطالعہ کر رکھا ہے بلکہ اُن کا دینی مطالعہ بھی وسیع ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ انہوں نے کاکڑ صاحب کے ساتھ کئی ملکوں کے پارلیمانی دورے کیے‘ وہ ایک اچھے ہمسفر تھے۔ ہم جہاں بھی گئے وہاں انہوں نے پوری تیاری کے ساتھ متعلقہ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی بہترین ترجمانی کی۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کی کئی برس سے کاکڑ صاحب سے یاداللہ ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اور کاکڑ صاحب نے نیشنل ڈیفنس کی 35روزہ ورکشاپ میں اکٹھے شرکت کی۔ ورکشاپ میں کاکڑ صاحب نے مختلف موضوعات بالخصوص بلوچستان کے بارے میں تیاری کے ساتھ اپنا مافی الضمیرمؤثر طریقے سے پیش کیا۔
چند ماہ قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے بلوچستان میں ٹیرر ازم کے موضوع پر ایک فکر انگیز خطاب کیا۔ مجھے یہ تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ تقریر میں کاکڑ صاحب نے کہا کہ ہمیں ادراک کر لینا چاہیے کہ یہ مٹھی بھر دہشت گرد بھارت نے بھیجے ہیں نہ ایران نے۔ یہ افغانستان سے آئے ہیں نہ چین سے۔ یہ نان سٹیٹ ایکٹرز ہمارے اندر سے ہی ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ٹیرر ازم سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک نے کاؤنٹر ٹیرر ازم میکانزم تشکیل دیا ہے‘ ہم تاہم ابھی تک روایتی سکیورٹی فورسز کے ذریعے ہی اس وبا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں یہ ٹیرر ازم قومیت کے نام پر اور دوسرے صوبوں میں مذہب کی آڑ میں تخریبی کارروائیاں انجام دیتا ہے۔ کاکڑ صاحب نے اس اہم خطاب میں نہایت درد مندی سے کہا کہ ہماری پارلیمنٹ‘ سول سوسائٹی‘ میڈیا اور سکیورٹی ادارے ٹیرر ا زم کے بارے میں کماحقہٗ فہم و ادراک نہیں رکھتے۔
باون سالہ انوار الحق کاکڑ مسلم باغ قلعہ سیف اللہ بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ فرانسس سکول کوئٹہ سے حاصل کی۔ پھر انہوں نے سکول کی باقی تعلیم کیڈٹ کالج کوہاٹ سے مکمل کی۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے ایم اے سیاسیات کیا۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے خاندانی سیاسی پس منظر کے باوجود تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک دور دراز علاقے کے ایک سکول میں بحیثیت مدرس بخوشی کام شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح کاکڑ صاحب نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز اپنے گاؤں میں سکول ٹیچر کی حیثیت سے کیا۔
کاکڑ صاحب مسلم لیگ (ق) اور (ن) کا بھی حصہ رہے مگر جب بلوچستان عوامی پارٹی بنی تو انہوں نے اس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگرچہBAP پارٹی نے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر کام کیا‘ تاہم اس پارٹی کے مقتدرہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی بھی شہرت ہے۔ 2018ء میں کاکڑ صاحب بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ سینیٹ میں اپنی حسنِ کارکردگی سے انہوں نے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کو بہت متاثر کیا۔ وہ سینیٹ کی اہم ترین کمیٹیوں کے چیئرمین اور کئی کمیٹیوں کے رکن تھے۔ وہ اوورسیز پاکستانیز اور بشری وسائل کمیٹی کے چیئرمین جبکہ فارن افیئرز‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ بزنس اور فنانس کی پارلیمانی کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ کاکڑ صاحب اپنی غیرسیاسی حیثیت اجاگر کرنے کے لیے سینیٹ اور BAP پارٹی کی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ بحیثیت نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب کو چار کام ترجیحی بنیادوں پر انجام دینے چاہئیں: مقررہ مدت کے اندر منصفانہ عام انتخابات کا انعقاد اُن کی اہم ترین ترجیح ہونی چاہیے۔ اُن کا دوسرا کام معیشت کی بہتری اور زرعی و صنعتی منصوبوں کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کا تسلسل ہو گا۔ اُن کی تیسری ترجیح بلوچستان میں ایک ایسے میکانزم کی تشکیل و ترویج ہونی چاہیے جس سے اس صوبے کے امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ اُن کا چوتھا اہم ترین کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ مرکز اور صوبوں میں کہیں بھی قیمتوں کو بڑھنے نہ دیں۔ البتہ اُن کی پالیسیوں سے قیمتیں کم ہو سکیں تو پاکستانیوں کے لیے یہ ایک خوشخبری ہوگی۔
14اگست یومِ آزادی کے تاریخی موقع پر کاکڑ صاحب نے آٹھویں نگران وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اگر کاکڑ صاحب مقررہ مدت میں صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنا لیتے ہیں تو یہ اُن کا یادگار کارنامہ ہوگا۔ بہرحال ہم اہلِ پاکستان کی طرف سے کاکڑ صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں