طالبان حکومت: وومن ایجوکیشن اور سیاست پر پابندی

کئی دہائیوں کی خانہ جنگی کے بعد طالبان کی قیادت نے جس سمجھداری اور ہنرمندی کے ساتھ قطر میں امریکہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کئے اس سے ساری دنیا میں طالبان قیادت کے بارے میں مثبت تاثر ابھرا۔ خیال کیا جا رہا تھا 2021ء میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت 1990ء والی حکومت سے بہت مختلف ہوگی۔
اُن دنوں یہ تاثر عام تھا کہ تقریباً چار دہائیوں کی خانہ جنگی، غیر ملکی مداخلت اور غیروں کی بالواسطہ حکومتوں سے طالبان نے بہت سے اسباق حاصل کئے ہوں گے۔ عالمِ اسلام میں طالبان کے خیر خواہوں کا اندازہ یہ تھا کہ اُن کی وسیع البنیاد حکومت ہوگی۔ وہ افغانستان کے تمام مذہبی فرقوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ پڑوسی ملکوں بالخصوص پاکستان کے ساتھ اُن کے شاندار مثالی تعلقات ہوں گے۔ پاکستان افغانستان کا ہمسایہ اور دینی بھائی ہی نہیں اُن کا محسن بھی ہے۔ دنیا بھر کو یہ بھی یقین تھا کہ افغان حکومت اپنی آدھی آبادی یعنی خواتین کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ حجاب کی پابندیوں کے ساتھ اُن پر اعلیٰ تعلیم کی دانش گاہوں کے دروازے کھلے ہوں گے۔
مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ مذاکرات کی میز پر آخری معرکہ سر کرنے والی طالبان قیادت نے ''انتہا پسندی‘‘ کی انتہا کر دی ہے۔افغان معاملات میں دلچسپی رکھنے والے اسلامی سکالرز کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی تھی کہ اس بار طالبان قیادت افغانستان میں ایک جدید اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست کا نقشہ پیش کریں گے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے افغان یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کے ساتھ اپنے وطن لوٹیں گے اور اس کو ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بنانے کیلئے نہایت شوق و ذوق کے ساتھ اپنا حصّہ ڈالیں گے۔افسوس تو یہ ہے کہ ان تمام خواہشوں اور اُمیدوں میں سے ایک بھی پوری نہیں ہوئی۔افغان حکومت کی بعض شدت پسندانہ پالیسیوں کی بنا پر اس کے سفارتی تعلقات کسی ملک کے ساتھ بھی استوار نہیں ہو سکے۔ 15اگست کو اپنی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر افغان طالبان نے جشن منایا مگر اس موقع پر اُن کے اعلانات افغان عوام اور بالخصوص افغان خواتین کیلئے نہایت حوصلہ شکن تھے۔ کابل میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے ڈپٹی پرائم منسٹر عبدالسلام حنفی نے دو سال کے دوران اپنی حکومت کی بہت سی کامیابیاں گنوائیں مگر انہوں نے طالبات کے مدارس اور جامعات کھولنے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔بعد ازاں افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سرکاری طور پر بھی ان بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی برقرار رہے گی۔ قارئین کو یاد دلا دوں کہ افغانستان میں ہائی سکول اور یونیورسٹی تعلیم کے دروازے طالبات پر بند ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے اداروں میں بھی عورتوں کی ملازمتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ میں نے سارا انٹرنیٹ چھان مارا، پاکستان کے بعض علمائے کرام سے بھی رابطہ قائم کیا مگر کہیں سے بھی مجھے وہ اسلامی دلائل میسر نہ آ سکے جن کا سہارا لے کر طالبان کی اعلیٰ قیادت نے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں پر قفل چڑھا رکھے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں تو خواتین کی تعلیم پر پابندی کے علاوہ افغان طالبات یونیورسٹی کے پرائیویٹ امتحانات بھی نہیں دے سکتیں۔
قرآن پاک کی ابتدا ہی علم و قلم کے ذکر سے ہوئی ہے ''پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم کرنے والا ہے۔ جس نے قلم سے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ قرآن پاک میں جابجا انسان کو زمین و آسمان اور انفس و آفاق پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سمندروں کے اتار چڑھاؤ اور زیر آب خزانوں کا تذکرہ بھی اس کتابِ مبین میں موجود ہے۔ غرضیکہ فزیکل اور سوشل سائنسز کی وہ کون سی شاخ ہے جس کا تذکرہ قرآن میں نہ ملتا ہو۔ان سارے عصری علوم کا حصول اگر مسلمان طلبہ کیلئے جائز ہے تو علم دین کی کس نص کے تحت وہ طالبات کے لئے ناجائز ہے؟
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر224میں جناب مصطفیﷺ کا ارشاد ہے کہ علم کی طلب ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔ انسان کو اپنی ذات کے وسیع تر امکانات ا ور اس لامحدود کائنات کے علمی خزانوں کی معلومات کا حصول عصری علوم کی تحصیل کے بغیر کسی طرح ممکن نہیں۔
مجھے حیرت ہے کہ عورتوں کو میڈیکل کی تعلیم و تربیت نہیں دی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورتوں کا علاج مرد اطبا ہی کریں گے۔ افغانستان کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان اپنی حکمرانی کو ایسی حکومت سمجھتے ہیں جس کے قوانین اسلام سے قانونی حیثیت کرتے ہیں۔ عملاً تو یہ ہو رہا ہے کہ طالبان قیادت کے منہ سے نکلا ہوا ہر فرمان مستند سمجھا جاتا ہے۔ اگر طالبان اپنی حکمرانی کیلئے اسلام سے قانونی سند حاصل کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ اب طالبان حکومت کے ترجمان اپنی اعلیٰ قیادت سے پوچھ کر بتائیں کہ قرآن و سنت کی کس دلیل کی بنا پر طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کئے گئے ہیں؟انہی دنوں طالبانی وزیر انصاف عبدالحکیم شرعی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اب افغانستان میں سیاسی سرگرمیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی شرعی لحاظ سے کوئی بنیاد نہیں ۔اگر طالبان حکومت اسلام کو اپنے قوانین کا منبع و مصدر سمجھتے ہیں تو پھر وہ یہ بتائیں کہ قرآنی احکامات کی تفسیر کون کرے گا؟ نیز اسلامی قوانین کی رو سے جائز اور ناجائز کا تعین کیسے ہوگا؟
اگر ساری اسلامی دنیاکے علمائے کرام لڑکیوں کی تعلیم کو ازرُوئے اسلام جائز ہی نہیں فرض گردانتے ہیں تو پھر طالبان حکومت اس تعلیم کو کس شرعی دلیل کی بنا پر ممنوع قرار دے سکتی ہے۔ طالبات کے سکولوں اور یونیورسٹیوں پر پابندی اسلامی شرع کی رو سے ہرگز نہیں لگائی جا سکتی۔ کیونکہ ایسی پابندی کسی اسلامی ملک میں کسی دینی مسلک کی طرف سے عائد نہیں کی گئی۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی کس شرعی دلیل کی بنا پر لگائی گئی ہے طالبان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اُن کا تعلق پاکستان کے دیوبندی مکتبِ فکر سے ہے۔ اسی مسلک کے مدارس سے طالبان کی اکثریت نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ دیوبندی مسلک کے علمائے کرام تقسیم ہند سے قبل جمعیت علمائے ہند سے وابستہ تھے اور اب جمعیت علمائے اسلام سے منسلک ہیں۔ازرُوئے اسلام لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی ہے نہ سیاسی جماعتوں اور نہ ہی سیاسی و صحافی آزادیوں پر کوئی قدغن ہے۔ وأمرھم شوریٰ بینھم کی تشریح متعدد واجب الاحترام علمائے کرام نے مجلس شوریٰ (منتخب پارلیمنٹ) کے طور پر کی ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ اور اُن کیلئے جتنی قوت ہو سکے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو تاکہ اس کی تیاری کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور جو اُن کے علاوہ ہیں انہیں ڈراؤ...
نزول قرآن کے زمانے میں ''قوت‘‘ کی تشریح بہترین تیر اندازی اور مضبوط قلعوں اور پناہ گاہوں کی تعمیر کے طورپر کی گئی تھی۔مگر آج ''قوت‘‘ کی تفسیر موجودہ زمانے کے جدید ترین اسلحے کی فراہمی کے معنوں میں کی جاتی ہے قرونِ اولیٰ میں گھوڑے جنگی شان و شوکت اور ہیبت کی علامت سمجھے جاتے تھے مگر آج ٹینک، بمبار جہازاور ایٹم بم جنگی برتری کی علامت ہیں۔ اسی لئے علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے فرمایا تھا ؎
آئینِ نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ہم افغانستان کی دینی حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ طالبات کی تعلیم کے حوالے سے اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں