امڈتا طوفان اور چھپتاالیکشن

عصرِ حاضر کے ہر دلعزیز شاعر شعیب بن عزیز نے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کہا ہے :
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
مگر اب بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ اگرچہ ہر کوئی کہتا ہے کہ شبِ غم کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو بالآخر سحر ہو کر رہتی ہے۔ مگر یہاں اب غم کی سیاہ رات گزرنے کا نام لیتی ہے اور نہ ہی دن نکلتا نظر آتا ہے۔ دیکھئے ہمارے غم کی کتنی حقیقی تصویر کشی استاد قمر جلالوی نے کی تھی:
شبِ غم کی سحر نہیں ہوتی
ہو بھی تو میرے گھر نہیں ہوتی
دیکھے تھے جو خواب جاگتی آنکھوں نے
اُن کی تو تعبیر اکثر نہیں ہوتی
گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے یہ بیچاری قسمت کی ماری قوم جاگتی آنکھوں سے رنگ برنگے خواب دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ ایک سے ایک مسیحا قومی افق پر اپنی تمام تر ساحری اور جادوگری کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور قوم کو کسی اور دلدل کے سپرد کر کے رخصت ہو جاتا ہے یا رخصت کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہفتے سے ملک کے طول و عرض میں مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔
لوگوں کی چیخ و پکار‘ اُن کے احتجاجوں اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کے جواب میں کوچہ ٔ سیاست سے نابلد ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ قوم سبسڈی بھول جائے کوئی ایک پائی بھی بل سے واپس نہیں لی جائے گی۔ بجلی اور پٹرول مزید مہنگے ہوں گے عملاً ایسا ہی ہوا ہے پٹرول 15روپے فی لٹر اور بجلی 1.58روپے مہنگی ہو چکی ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ بااثر گروپوں سے مفت بجلی کی سہولت واپس نہیں لے سکتے۔ ثقہ ذرائع کے مطابق اعلیٰ افسران اور واپڈا کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کو ہزاروں یونٹ ماہانہ تک مفت بجلی استعمال کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ یہ بوجھ بھی بلبلاتے غریب صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔ آئی پی پیز سے ڈالروں میں مہنگی بجلی خریدنے اور ان کی طرف سے ضرورت سے زیادہ تیار کردہ ضائع ہونے والی بجلی کا خرچہ بھی انہی صارفین کی دہری کمر پر لاد دیا جاتا ہے۔ اگر نگران حکومت مفت بجلی کی سہولت ہی واپس لے لیتی تو بیچارے بے وسیلہ صارفین کی کچھ اشک شوئی ہو جاتی۔
ان حالات میں خود آئی ایم ایف والے حیران پریشان ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے جو امیروں سے بھاری ٹیکس لے کر غریبوں کو رعایت نہیں دیتا۔ اس کے برعکس یہاں غریبوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر طبقۂ امرا کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جاتی ہیں۔آئی ایم ایف کی سنگدلانہ شرائط اور اپنے حکمرانوں کے قرض کی مے پینے کے کلچر کی بنا پر پاکستان میں ایک ڈالر 320روپے کا ہو گیا ہے۔ اگر مہنگائی اور بجلی وغیرہ کے ریٹس اسی طرح بڑھتے گئے تو پھر بیچارے دم توڑتے عوام کا پیمانۂ صبر بالکل لبریز ہو جائے گا۔ ایسی صورتحال میں دور اُفق پر نئے انتخابات کی ایک دھندلی سی شکل دکھائی دیتی ہے مگر اس کی کوئی واضح تصویر دکھائی نہیں دیتی۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ایک کر کے مذاکرات اور الیکشن کی تاریخ کے تعین کیلئے مدعو کیا۔ اردو شاعری کے محبوب کی بزم سے تو جو نکلا سو پریشاں نکلا مگر راجہ صاحب کی بزم سے نکلنے والے بظاہر مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔حال ہی میں راجہ صاحب سے ملاقات کر کے آنے والے ایک دو ''مطمئن حضرات‘‘ سے پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی گفتگو اور بدن بولی سے تو یہی لگتا تھا کہ وہ جلد انتخابات کروا دیں گے۔ یہی بات انہوں نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے کی جنہوں نے چند روز قبل اُن سے ملاقات کی تھی۔
بدھ کے روز نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے امریکی انڈر سیکرٹری وکٹوریہ نولینڈ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ عام انتخابات مقررہ وقت اور آئینی فریم ورک کے اندر ہوں گے۔ بظاہر تو اب یہ طے ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ دینا چیف الیکشن کمشنر کا استحقاق ہے تاہم وطنِ عزیز میں ''ادھر کااشارہ‘‘ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں سکندر سلطان راجہ کو ''ضروری ہوم ورک‘‘ مکمل کر کے فوری طور پر عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہئے۔ اس اعلان سے مستقبل کے بارے میں پائے جانے والے خدشات اور کنفیوژن میں کسی حد تک کمی واقع ہو گی۔
نگران حکومت کو عوامی جذبات کے امڈتے ہوئے طوفان کا کچھ اندازہ ہونا چاہئے۔اس لئے عوام کو کورا جواب دینے کے بجائے اُن کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔
عالمی یوم حجاب
حجاب اسلامی تعلیم و تہذیب کا بنیادی جزو ہے۔ اکثر اسلامی ممالک میں مسلمان خواتین مختلف انداز میں حجاب اختیار کرتی ہیں۔ کہیں سکارف کے ساتھ عبایا بھی استعمال ہوتا ہے۔ کہیں نقاب بھی اوڑھا جاتا ہے۔ کہیں چہرہ کھلا ہوتا ہے اور کہیں عبایا کی بجائے خواتین نے کھلا سا باوقار لباس زیب تن کیا ہوتا ہے اور سر پر سکارف لیا ہوتا ہے۔ مغرب کی منطق نرالی ہے۔ عریانی میں عورت جس حد تک جانا چاہے اس پر کوئی رکاوٹ نہیں مگر جب دیارِ مغرب میں کوئی مسلمان عورت اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کیلئے اپنے جسم کی زینت کو حکم ِخداوندی سے ڈھانپ کر رکھنا چاہے تو اس پر بہت سے تنگ نظر بھڑک اٹھتے ہیں۔2003ء میں فرانس نے اپنے ملک میں عورتوں کے حجاب پر بحکم سرکار پابندی عائد کر دی۔ اس کے خلاف ساری دنیا میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ یہ دیکھ کر لندن کے انصاف پسند میئر لونگ سٹون نے 4ستمبر کو دنیائے اسلام کے علمائے کرام کو برطانوی دارالحکومت میں اکٹھا کیا۔ اس کانفرنس میں اپنے دور کی بہت بڑی دینی و علمی شخصیت علامہ یوسف القرضاوی مرحوم بھی لندن کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ اسی کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ ہر سال 4ستمبر کو عالمی یوم حجاب منایا جائے اور مغرب و مشرق کو اس روایت کی حکمت سے روشناس کرایا جائے گا۔
پاکستان میں بھی قاضی حسین احمدؒ کی زیر قیادت جماعت اسلامی نے 2005ء سے 4ستمبر عالمی یوم حجاب منانے کا آغاز کیا۔ جماعت اسلامی ہر سال 4ستمبر کو پاکستان بھر میں ' ورلڈ حجاب ڈے‘ مناتی ہے۔ ان پروگراموں میں جماعت کی اہم خواتین بالخصوص ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی پیش پیش ہوتی ہیں۔
ہماری جماعت اسلامی کی معزز خواتین سے گزارش ہو گی کہ طالبان حکومت نے جس طرح سے لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں پر پابندی لگا رکھی ہے اس پر شدید تنقید کریں اور دنیا کو بتائیں کہ یہ اسلام پسندی نہیں شدت پسندی ہے۔ نیز جماعت اسلامی پاکستان کی خواتین کو ملائیشیا اور انڈونیشیا جا کر دیکھیں کہ کس طرح وہاں من حیث القوم تمام مسلمان خواتین نے باوقار حجاب کو برضا و رغبت اختیار کررکھا ہے۔اس باوقار حجاب کے ساتھ وہ زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ دیگر مسلمان ممالک کیلئے ملائشیا اور انڈونیشیا کا حجاب ماڈل قابل تقلید ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں