اہلِ غزہ کی سرخروئی

ایک فلسطینی ماں عامرہ الطویل اپنے بچے کے لیے دودھ کی تلاش میں غزہ کی سڑکوں پر یوں دیوانہ وار بھاگ رہی تھی‘ جیسے بی بی حاجرہ اس وقت کی وادیٔ غیرذی ذرع مکۃ المکرمہ میں اپنے بچے اسماعیل کے لیے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سرگرداں تھیں۔بی بی حاجرہ کو تو اپنے اسماعیل کے لیے زمزم کا چشمہ مل گیا تھا مگر عامرہ کو اپنے شیر خوار یوسف کے لیے کسی جگہ سے دودھ کی ایک بوند یا خشک دودھ کا ایک چمچ تک نہ مل سکا۔ 33سالہ ماں نے بتایا کہ اس کا بیٹا یوسف سنٹرل غزہ کے الاقصیٰ شہدا ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔ عامرہ الطویل جیسی سینکڑوں مائیں کسمپرسی کی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔
غزہ پر قابض اسرائیلی فوجوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے علاقے میں خوراک پر پابندی عائد کر رکھی ہے بالخصوص شیر خوار بچوں کے لیے دودھ کا داخلہ ممنوع ہے۔ بچوں کے ساتھ ایسا سنگدلانہ سلوک کوئی درندہ صفت شخص ہی کر سکتا ہے۔ وسط جنوری 2024ء سے لے کر اب تک کم از کم 93 ہزار 400 بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان میں سے 7200 بچے خوراک کی بدترین کمی سے دوچار ہیں۔
ایک دو روز پہلے رفح سے ایک فلسطینی بہن کی وڈیو وائرل ہوئی ہے‘ اسے جو سنتا ہے وہ تڑپ اٹھتا ہے۔اس بیٹی نے بتایا کہ ان کی فیملی اور دیگر لاکھوں بے گھر فلسطینی انتہا درجے کی بے بسی اور کسمپرسی کا شکار ہیں۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جن کے دنیا میں دو ارب مالدار اور بااثر مسلمان بہن بھائی موجود ہیںمگر یہ مسلمان حکومتیں اپنے ''طاقتور حکمرانوں‘‘ کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں‘ اسی لیے وہ اہلِ غزہ سے لاتعلق ہو کر بیٹھے ہیں۔ ان کی تنظیمیں او آئی سی اور عرب لیگ وغیرہ بے روح ڈھانچے ہیں۔رفح سے فریاد کناںفلسطینی بیٹی کا کہنا ہے کہ جب سے غزہ کی جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت سے اب تک ہم ساتویں مرتبہ بے گھر ہوئے ہیں۔ کبھی ایک پناہ گزیں کیمپ میں کبھی دوسرے میں اور اب ہمیں سینا کے تپتے ہوئے صحرا میں بے یارو مددگار دھکیل دیا گیا ہے یہاں پانی ہے نہ خوراک اور نہ ہی زندگی کی کوئی اور بنیادی ضرورت ہمیں میسر ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم بھوک‘ پیاس اور دوا سے محروم ہو کر زندگی کی بازی ہار جائیں ہم دنیا کے سب باضمیر انسانوں سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔
یہ ہے غزہ کا تازہ ترین منظر نامہ جہاں 36 ہزار سے زیادہ لوگ جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں جن میں پندرہ ہزار بچے بھی شامل ہیں جبکہ 81 ہزار سے زائد شدید زخمی ہیں۔ تین چار روز قبل لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ''غزہ اور عالمی منظر نامہ‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار میں جناب مجیب الرحمن شامی اور میڈم صباحت رفیق کے ہمراہ مجھے بھی خطاب کا موقع ملا۔ میں نے اپنی گزارشات پیش کرتے ہوئے ہمہ تن گوش طلبہ و طالبات کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی دنیا میں چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے وحشی آ چکے ہیں جنہوں نے کروڑوں کے حساب سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔اسی طرح ہٹلر نے بھی لاکھوں افراد کو گیس چیمبرز میں ڈال کر ہلاک کر دیا تھا مگر آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے طاقتور حکومتیں اور دنیا بھر کے عوام لائیو دیکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کے مظالم ہم نے صرف تاریخ کی کتابوں میں پڑھے ہیں۔
اس جنگ میں اب تک کے نتائج کے مطابق مغربی دنیا کے کروڑوںباضمیر عوام اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات فلسطینیوں کے ساتھ کھلم کھلا اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں اور اسرائیل کی پُرزور مذمت کر رہے ہیں۔ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا‘ جنوبی امریکہ اور جنوبی افریقہ میں ہر جگہ عوام نے فلسطینی ریاست کے قیام کی پُرزور حمایت کی ہے۔اسلامی دنیا کے عوام نے بھی سوائے ایران‘ پاکستان اور ترکیہ کے‘ کہیں بھی اہلِ غزہ کے ساتھ پُرجوش یکجہتی کا ثبوت نہیں دیا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی 25کروڑ مسلمانوں کا فرض کفایہ ادا کر رہی ہے۔ اب مسئلہ فلسطین ایک انسانی مسئلہ ہے جس کی اونر شپ باضمیر عالمی کمیونٹی نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔
اس سیمینار میں جناب مجیب الرحمن شامی نے نہایت خیال افروز نکات اٹھائے۔ انہوں نے اسلامی دنیا پر زور دیا کہ وہ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر کرائے اور سابقہ معاہدات کی روشنی میں بااختیار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنوائے۔بیگم صباحت رفیق صاحبہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بزنس وومن ہیں۔ وہ کیلیفورنیا میں آباد ہیں جہاں وہ آئی ٹی انڈسٹری سے وابستہ ہیں‘ تاہم گزشتہ چند برس سے واپس وطن آ کر شعبۂ تعلیم کو اپنی این جی او کے ذریعے جدید سہولتوں سے آراستہ کر رہی ہیں۔انہوں نے عالمی منظر نامے کے حوالے سے بتایا کہ جس طرح مغربی دنیا کے کروڑوں لوگوں نے مبنی بر صداقت فلسطینی مؤقف کی بھرپور حمایت کی ہے اس سے اسرائیل دنیا میں تنہا ہو چکا ہے۔ انہوں نے اسلامی دنیا پر تنقید کی کہ سوائے ایران کے کسی حکومت نے عملاً اسرائیلی جارحیت کے خلاف اہلِ غزہ کی کوئی خاص حمایت نہیں کی ہے۔
ممتاز تاریخ دان اور کئی تحقیقی کتب کے مصنف ڈاکٹر طاہر کامران نے بھی تاریخی حوالوں کے ساتھ بتایا کہ دنیا کی ہٹ دھرم اور غاصب طاقتیں اس وقت تک مذاکرات کی میز پر نہیں آتیں جب تک انہیں مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے نیلسن منڈیلا کی منفرد مثال دے کر واضح کیا کہ 27 برس قیدِ تنہائی میں رہنے کے باوجود منڈیلا نے اپنے وطن کی آزادی‘ سلامتی اور ترقی کے لیے وائٹ اقلیت اور بلیک اکثریت کو ساتھ بٹھایا اور جنوبی افریقہ کی آزاد حکومت قائم کی جس کے وہ بانی صدر تھے۔
سیمینار کی کمپیئرنگ ایک صاحبِ علم نوجوان لیکچرار عدیل احمد نے نہایت کامیابی کے ساتھ کی اور کئی علمی و ادبی حوالوں اور تحریروں سے سیمینار کی افادیت میں بہت اضافہ کیا ۔یونیورسٹی کے شعبہ لبرل آرٹس کے انتظامی امور کی انچارج رابعہ پراچہ نے سیمینار کے شاندار انتظامات کیے ۔طلبہ و طالبات کے سوال سے عیاں تھا کہ وہ اہلِ غزہ کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور انہیں اس مسئلے کی تاریخ اور موجودہ صورتحال سے اچھی آگہی ہے۔
عالمی دباؤ کے نتیجے میں امریکی صدر جوبائیڈن نے تین مراحل پر مشتمل مکمل جنگ بندی کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے مطابق اسرائیل اپنی فوجیں غزہ سے واپس نکال لے گا۔ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔ تمام فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے اور تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیرِ نو کا پروگرام بھی شامل ہے۔ اسرائیل نے اس منصوبے پر عمومی رضامندی کا اظہار کیا ہے ۔ حماس نے بھی اسے مثبت پیشرفت قرار دیا ہے مگر ابھی تک اس کی باقاعدہ منظوری نہیں دی۔ اگرچہ یہ ایک بااختیار فلسطینی ریاست کے حوالے سے کوئی آئیڈیل جنگ بندی معاہدہ نہیں مگر اس میں اہلِ فلسطین کے لیے بھی بہت مثبت پہلو ہیں۔ لہٰذا حماس کو ضروری ضمانتیں حاصل کر کے اسے بلاتاخیر قبول کر لینا چاہیے۔
اہلِ غزہ نے اپنے وطن کے لیے بے مثال قربانی دے کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ عربی میں کہا جاتا ہے للصبر حدود۔ یعنی صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ در بدر‘ بے گھر‘ انتہائی غیر محفوظ پناہ گاہوں میں بھٹکتے ہوئے زخموں سے چور چھوٹوں‘ بڑوں اور دودھ کے لیے بلکتے ہوئے بچوں کااب مزید امتحان نہ لیا جائے۔اہلِ غزہ نے اپنی جانوں کے نذرانے اور اپنے پھول سے بچوں کے تڑپتے ہوئے لاشے پیش کر کے دفاعِ وطن کے لیے درپیش ہر امتحان میں سرخروئی حاصل کی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں