ابومسلم خراسانی کی مدد سے ابوالعباس نے بنوامیہ کا تختہ تو الٹ دیا تھا لیکن اسے ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں ابومسلم اس کی نو زائیدہ سلطنت پر قبضے کی نہ ٹھان لے۔ ہر باغی کا سر کچلنے کے لیے ابو مسلم کا ایک وار کافی رہتا تھا لیکن اسی نے بغاوت کردی تو اس کا علاج کون کرے گا، یہ فکربنوعباس کے بڑوں کو کھائے جارہی تھی۔ ابوالعباس کو مزید پریشان کرنے میں اس کے بھائی اور ولی عہدابوجعفر منصور کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ منصور اسے ابومسلم کی بڑھتی ہوئی قوت کے مضمرات سے ڈراتا رہتا اور ہمیشہ اس کے قتل کی رائے دیتا۔ابوالعباس جیسا خونخوار شخص نہ جانے کیوں ابومسلم کے خلاف یہ سب سن کر خاموش تو رہتا لیکن اس کے قتل کا حکم جاری نہ کرتا۔ ابوالعباس کی موت کے بعد جب منصور خلیفہ بنا تو سمجھنے والوں نے جان لیا کہ اب کوئی دن جاتا ہے کہ ابومسلم بغاوت کا اعلان کردے گا یا منصور اسے قتل کرادے گا۔ دوسری طرف منصور پر خلافت کا بار پڑا تو اسے معلوم ہوا کہ ابومسلم کو قتل کرانا اتنا آسان نہیں۔ اس لیے خاموش ہوکر بیٹھ گیا لیکن اس کی طرف سے کسی غلطی کا انتظار کرتا رہا۔ دوسری طرف ابومسلم نے بھی انتہائی محتاط رویہ اختیار کرلیا کہ شاید اس کا معقول طرز عمل خلیفہ کا دل اس کی طرف سے صاف کردے۔ ابومسلم کی خاموشی اور فرمانبرداری نے کسی حد تک اثر بھی کیا اور منصور اس کے قتل کے بارے میں یکسو نہ رہا تھا۔ اسی تذبذب کے زمانے میں ایک روز منصور نے اپنے ایک معتمد امیر کو تنہائی میں بلا کر پوچھا کہ’ ابومسلم کا علاج کیا تجویزکرتے ہو؟’قتل‘ امیر نے فوری جواب دیا۔ یہ سن کر منصور غصے میں آگیا اور امیر کو دھکے دے کرمحل سے نکلوادیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھاکہ منصور نے ابومسلم کو قتل کروا ڈالا اور اسی امیر کو اپنی بارگاہ میں بلوا لیا۔ رنجیدہ امیر نے حوصلہ کرکے کہہ دیا کہ ’ امیرالمومنین نے کیا تو وہی جو میرا مشورہ تھا‘۔ یہ سن کر منصور نے ہنس کرکہا: ’بے شک تیرامشورہ ٹھیک تھا، لیکن مشورہ ہی تھا اس پر عمل اورپھر نتائج کا ذمہ مجھ پر ہی تھا۔میری حکمت کا تقاضا تھا کہ تجھ پر بھی تیرے مشورے کی اہمیت آشکار نہ ہو اور ابومسلم کو یہ معلوم نہ ہوسکے کہ میں اس کے قتل کی تجویز کیے بیٹھا ہوں‘۔ آج سے بارہ سو اٹھاون سال قبل ابوجعفر عبداللہ المنصور نے مشاورت اور حکمت عملی کے جس راستے کا تعین کیا تھا اس کے ایک ہزار سال بعد امریکی صدر ابراہام لنکن بھی اسی پر چلا۔ اس نے ایک تجویز پر اپنی کابینہ کی رائے لینا چاہی تو سات کے سات وزرا نے اتفاق رائے سے یہ تجویز مسترد کردی۔ ابراہام لنکن نے اپنے وزرا کا اتفاق رائے نظر انداز کرکے وہی راستہ اختیار کیا جس کا فیصلہ وہ پہلے سے کرچکا تھا۔ جس طرح ابوجعفر المنصور نے تیزی سے فیصلہ کر لینے کی اس صلاحیت کے بل پر بنوامیہ کے خوف سے لرزہ براندام عباسی خلافت کو اتنا مضبوط بنا دیاکہ صدیوں بعد بھی اس کے نقوش مٹ نہیں سکے ،اسی طرح ابراہام لنکن نے نہایت دلیری سے اپنے ہی ملک کی سرحدوں کے اندر ایک جنگ چھیڑی، لڑی اور جیتی۔ ابو جعفر المنصور ہو یا ابراہام لنکن ، کوئی بادشاہ ہو یا جمہوری رہنما دنیا نے صرف انہیں ہی یاد رکھا ہے جنہوں نے بروقت فیصلے کیے اور یکسوئی سے ان پر عمل کیا۔ اتفاق رائے پیدا کرنے والے، وسیع و عریض مشاورت کے خوگر اور مخالفت کی بنیاد پر اپنے ہی فیصلوں سے پھر جانے والے حکمران صرف انہی قوموں کو ملے، زوال جن کی تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ بحرانوں سے نکلنے کے لیے مشاورت کبھی مشعل راہ نہیں بنی بس ایک یکسوئی ہے جو کسی رہنما کے ذہن سے آفتاب کی مانند جنم لیتی ہے اور پھر اس کی روشنی پوری قوم کو راستہ دکھاتی چلی جاتی ہے۔ یقین محکم، عمل پیہم کا مطلب اس کے سوا کیا ہے؟ بنیادی اصول و مقاصد پریکسوئی اور یک جہتی کی کمی اتفاق رائے، وسیع تر مشاورت اور اعتماد میں لینے جیسی اصطلاحات کو جنم دیتی ہے۔پاکستان کی مصیبتوں میں ایک تازہ وارد مصیبت مشاورت بھی ہے جس نے پورے نظام حکومت کو عملی طور پر معطل کررکھا ہے۔ ہمارے دستور اور قانون میں مشورے کی غیر حقیقی تعبیر نے گزشتہ کئی سالوں سے حکومت کو اپاہج بنا رکھا ہے۔ مشاورت کے ساتھ بامعنی کا لفظ لگا نے سے مشورہ دینے والے چھوٹے فریق کو اتنا طاقتور بنا دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے توکئی جگہ پر حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دے ۔ ہمارے نظام میں اس مشاورت کی پخ نے کتنا بڑا تضاد پیدا کردیا ہے اس کا اندازاہ یوں لگائیے کہ وزیراعظم کے انتخاب میں تو قومی اسمبلی کے اراکین اس کے خلاف ووٹ ڈال سکتے ہیں، لیکن احتساب بیورو کے چیئرمین کے تقرر میں جیتا ہوا وزیراعظم ہارجانے والی حزب اختلاف کے مشورے کا پابند ہوجاتا ہے۔ گویا وزیر اعظم کے اہم ترین عہدے پر فائز کرنے کے لیے ہم متنازعہ شخصیت کو گوارا کرسکتے ہیں لیکن احتساب بیورو کے سربراہ، چیف الیکشن کمشنر اور نگران وزیراعظم کے عہدوں پر ’اتفاق رائے‘ پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا اس طرح یہ پیغام دیا جانا مقصود ہے کہ پاکستانی سیاست کے سارے کردار متنازعہ ہیں اس لیے غیر سیاسی افراد ہی ملک چلانے کے اہل ہیں؟ مشاورت کا لفظ انیس سو تہتر کے دستور میں سولہ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ ہر اس جگہ جہاں وزیر اعظم کا صدر سے یا وزیراعلیٰ کا گورنر سے مشورے کا ذکر ہے وہاں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ صدر اور گورنر کو دیے گئے مشورے کی پابندی لازمی ہے۔ گویا دستور سازوں نے عملی تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے اختیارات کا جھکاؤ انتظامیہ کی طرف رکھا ہے۔ مشورے کے بارے میں جو طرز عمل ہمارے دستور سازوں نے اختیار کیا بالکل وہی ہے جو ساری دنیا کے جمہوری ملکوں میں رائج ہے یعنی چیف ایگزیکٹو کو دیا جانے والا مشورہ مانا بھی جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے۔ آزادیٔ کار کے تابوت میں آخری کیل خود سیاستدانوں نے اٹھارویںترمیم کے ذریعے یوں ٹھونکی کہ جگہ جگہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ’بامعنی ‘ مشاورت کی شرط لگا کر حکومت کو تقریباً بے معنی کردیا۔ کہنے کوتو اٹھارویں ترمیم نے انیس سو تہتر کے دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کردیا لیکن عملی طور پر اب دستور میں مشاورت کے زور پرقائد حزب اختلاف بااختیار ہے۔ اگر کچھ باقی رہ گیا تھا تو وہ الیکشن کے نام پر الیکشن کمیشن کو منتقل ہوگیا۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے مشاورت کو دستور ی شکل دینے پر مسلم لیگ ن نے اس سے زیادہ کچھ نہیں سوچا کہ حزب اختلاف میں رہ کر بھی انہیں حکومت میں حصہ مل رہا ہے، یہ نہیں سوچا کہ کل جب انہیں حکومت ملے گی تو یہی استحقاق کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔اسی وجہ سے میاں نواز شریف ایک طاقتور وزیر اعظم ہونے کے باوجود قائد حزب اختلاف کے دست نگر محسوس ہوتے ہیں۔ احتساب اس لیے ممکن نہیں کہ قائد حزب اختلاف سے ’بامعنی مشاورت‘ نہیں ہوپارہی۔ کام اس لیے نہیں ہو سکتاکہ شفافیت کے آسمانی تقاضے پورے کرنا اہل زمین کے حکمرانوں کے لیے تو ممکن نہیں۔ لہٰذا بہتر ہے اور کچھ نہیں تو مشاورت ہی کیے جائیں۔