نواب عماد الملک مولوی سید حسین بلگرامی حیدرآباد دکن میں وزیر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ کتب خانہء سرکارِ عالی کے بانی و نگران تھے۔ ریاست میں آنے سے پہلے مولوی صاحب لکھنؤ کالج میں پروفیسری کے دوران یہ جان چکے تھے کہ برطانیہ اور یورپ ہندوستان میں پائی جانے والی نایاب کتابوں کو کس قدر بیش قیمت جانتے ہیں۔ مغربی محقق اور اشاعت گھر ان کتابوں کے مستند نسخوں کے لیے منہ مانگے دام دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس طرح سرمائے کے زور پربالعموم مسلمانوں کا سرمایہء علم بہت تیزی سے سات سمندر پار جارہا ہے۔ اگرچہ ایک وقت میں خود مولوی صاحب بھی ہندوستان میں پائی جانے والی نایاب کتابیں انگریزوں کو بیچا کرتے تھے، لیکن جب خود انہیں کتب خانے کے لیے ریاستی وسائل پرکچھ تصرف ملا تو انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں جو کچھ کتابیں ملک میں بچ رہی تھیں ،خریدنا شروع کردیں۔ ہندوستان بھر سے کتاب فروش مصنفوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مسودے اور پرانی کتابیں لے کر حیدرآباد دکن پہنچنے لگے کیونکہ جو قیمت انہیں انگریزخریدار دے سکتے تھے وہی قیمت بہت کم کوشش سے نظام حیدرآباد کا سرکاری کتب خانہ اداکرنے کے لیے تیار تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز کی ریاست حیدرآباد جہاں ہندوستان کے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے لیے وسائل مہیاکرنے کا ایک ذریعہ تھی وہاں ریاستی نظام کی تمام تر آلودگیاں بھی بہ تمام وکمال یہاں کے حکمرانوں میں بھی پائی جاتی تھیں۔ مولوی سید حسین بلگرامی اس ماحول میں رچی ہوئی سازشوں کو خوب سمجھتے تھے اور ان کا توڑ بھی انہیں معلوم تھا۔ایک دفعہ انہوں نے چار نایاب کتابیں آٹھ ہزار روپے کی خریدیں اور ان کی ادائیگی کے لیے خزانے کے حکام کو لکھا۔آج سے تقریباً ایک سو برس پہلے آٹھ ہزار روپے کی قدر کیا تھی اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت جتنا سونا اس رقم سے خریدا جاسکتا تھا آج اتنے ہی سونے کے لیے سات کروڑ روپے درکار ہوں گے ۔ اتنی خطیر رقم صرف کتابوں کے لیے ادا کردینا ریاست کے علم دشمن ماحول میںروپے کو آگ لگانے کے مترادف تھا۔ مولوی صاحب کے حاسدین اس بات کو لے اڑے اور پھیلا دیا کہ پرانی کتابوں کے لیے اتنی رقم کی ادائیگی غیر معمولی ہے۔ یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ کتب خانے کے نگران کو نوکری اور حتیٰ کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ اسی بات کو لے کر وزیر خزانہ نے ادائیگی روک دی اور وضاحت طلب کی۔آخر تنگ آکر اس پر مولوی صاحب نے لکھا کہ آٹھ ہزار روپے کی یہ کتابیں اگر ریاست نہیں خریدنا چاہتی تو وہ خود خرید نے کے لیے تیار ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس سے چار گنا قیمت پر یہ کتابیں برطانوی ناشروں کو بیچی جاسکتی ہیں۔ جب وزیر خزانہ کو ان کتابوں کی ممکنہ قیمت فروخت تحریر ی طور پر موصول ہوگئی تو شاید ایک ’منافع بخش سودا‘ سمجھ کر انہوں نے ادائیگی کی اجازت دے دی۔ مولوی صاحب کی طرف سے کتابوں اور مسو دوں کی خریداری پر لوگ طرح طرح کے اعتراضات اٹھاتے رہے لیکن وہ اپنی دُھن میں لگے رہے۔ انہوں نے نابود ہوتے ہوئے مخطوطات اور کتابیں نقل کرو ا کر اپنے کتب خانے کا حصہ بنا دیں اور اصل مسودات کو محفوظ کرنے کے لیے جو کچھ ہوسکا کیا۔ ان کی کوششوں سے حیدرآباد دکن کا کتب خانہ علم کا ایک ایسا خزانہ بن گیا جس میں موجود بنیادی مآخذ آج بھی اہل علم کو دعوت تحقیق دیتے رہتے ہیں۔ تاریخ کا ایک بنیادی ماخذ سرکاری دستاویزات بھی ہیں۔ تاریخ میں واقعات اور مقاصد کی وضاحت کے لیے ہر مہذب حکومت ریاستی دستاویزات کو سنبھال کر اگلی نسل تک پہنچا دیتی ہے تاکہ آج کے جو معاملات سیاسی نزاکتوں کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہے وہ کم ازکم مستقبل میں لوگوں کے سامنے صحت کے ساتھ موجود ہوں۔ اسی طرح کے سرکاری کاغذات میں وہ حقائق چھپے ہوتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایک وقت میں بظاہر پراسرار نظر آنے والا کوئی فیصلہ کیوں کیا گیا تھا۔ تاریخ میںآج نظر آنے والی غلطی اس وقت کارنامہ سمجھ کر فرمائی گئی تھی یا اس کا سبب کچھ اور تھا۔ تاریخ کے یہ سب راز سرکاری ریکارڈ کے اس سمندر میں ڈوبے رہتے ہیں جنہیں آرکائیو(Archive) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک سمندر پنجاب کا آرکائیو ڈیپارٹمنٹ ہے ، جہاں اٹھارہ سو چار سے لے کر انیس سو سینتالیس تک کا اہم سرکاری ریکارڈ رکھا گیا ہے۔لاہور سیکرٹریٹ کے عوامی بیت الخلاء سے ملحق ایک متروک اصطبل جو سطح زمین سے کئی فیٹ نیچے جا چکا ہے، انار کلی کے مقبرے اور ایک ڈیڑھ سو سال پرانی عمارت کے اندازاً تین مرلوں میں رکھے ہوئے اس ریکارڈ میں سترہویں صدی کی چھپی ہوئی کتابوں سے لے کر متحدہ پنجاب کے اہم دیوانی و فوجداری مقدمات میں پولیس کی تفتیشی فائلیں تک موجود ہیں۔ یہ ریکارڈ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں موجود ہوتا تو اس کی نقلیں تیار کرکے تحقیق کرنے والوں کو فراہم کردی جاتیں لیکن اصل ریکارڈ کو کوئی ہاتھ بھی نہ لگا پاتا۔ اس ریکارڈ کی اہمیت اور فرسودگی سے متاثر ہوکر ایک جرمن خاتون محقق نے یہ پیشکش بھی کی اگر پنجاب حکومت کچھ نہیں کرسکتی تو وہ دنیا کے مختلف اداروں سے ایک عمارت کی تعمیر کے لیے رقم اکٹھی کرسکتی ہے۔ اس پیشکش میں کمیشن ، نئی گاڑیاں اور غیر ملکی دورے شامل نہ ہونے کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی اور وہ خاتون اپنے وطن سدھار گئیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اس ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کی کوشش نہیں کی جارہی، کوشش توہے لیکن اتنی ہی جتنی کوئی سرکاری محکمہ بے دلی سے کرسکتا ہے۔ کچھ کاغذات لیمینشن کے ذریعے محفوظ کیے گئے ہیں،کچھ کی مائیکرو فلم بھی بنی ہے اور کچھ تصاویر بھی فریم میں جڑ دی گئی ہیں لیکن ان سب کو جہاں رکھا گیاہے وہ اتنی بوسیدہ اور غیر محفوظ جگہ ہے جہاں کتے ، بلیاں بھی با آسانی آجا سکتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک سیاہ بلی ایسی الماری میں گھسی اور پھر نکلی جس میں انیس سو گیارہ کا ریکارڈ پڑا تھا۔ میں نے اس عمارت اور پھر اس الماری میں بلی کی موجودگی سے گھبرا کر اسے بھگانے کی اضطراری کوشش کی تو میرے سامنے بیٹھی ایک ریسرچ آفیسر بولی ’آپ پریشان نہ ہوں یہ بلی پرانے کاغذات کو محفوظ رکھنے کی کوششوں کا حصہ ہے‘۔ میں یہ سن کر ششدر رہ گیا ، تفصیل چاہی تو محترم خاتون کہنے لگیں،’ ان کاغذات کو سب سے بڑا خطرہ چوہوں سے لاحق ہوتا ہے جن کو روکنے کے لیے ہم صرف بلیوں کی مدد ہی لے سکتے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس کوئی محفوظ عمارت ہے نہ اتنا بجٹ کہ دستاویزات کو محفوظ کرنے کے جدید طریقے اختیار کرسکیں‘۔ تاریخ کو بلی کے ذریعے محفوظ رکھنے کا یہ مظاہرہ دیکھ کرمیں نے پوچھاکہ آگ اور نمی سے بچانے کا کیا طریقہ ہے توان کے چہرے پر وہ بے چارگی آگئی جو کسی غریب ماں کے چہرے پرعید کے دن اسوقت آتی ہے جب اس کا بچہ پرانے کپڑوں میں ہی عید کی نماز کے لیے چلاجاتا ہے۔ میرا گمان تھا کہ شاید اربو ں روپے کا معاملہ ہے جس کی وجہ سے حکومت اس اہم کام کو نظر انداز کیے ہوئے ہے۔ میں نے معلوم کرنا چاہا کہ آخر کتنے ارب روپے ہیں جو اس کام کے لیے ضروری ہیں تو جو رقم معلوم ہوئی وہ اتنی بھی نہیںتھی کہ جس کے لیے کوئی معزز بدعنوان منصوبہ بندی کرے۔ معاملہ صرف بارہ چودہ کروڑ روپے کا ہے۔ اتنی سی رقم میں یہ سارا تاریخی سرمایہ محفوظ بھی ہوسکتا ہے اور تحقیق کرنے والوں کو کام کرنے کے لیے مناسب جگہ بھی میسر آسکتی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ کارپردازانِ پنجاب حکومت کے پاس اتنی ہی رقم کے دو منصوبے بھیجے گئے تھے، ایک تو یہی کہ آرکائیو کے لیے مناسب عمارت بنائی جائے اور دوسرا یہ کہ پنجاب سیکرٹریٹ میں پرانی کینٹین کی جگہ نئی کینٹین تعمیر کی جائے۔ یہاں پر ہمارے سرکاری افسروں نے بالکل وہی کیا جس کی ان سے توقع رہتی ہے۔ انہوں نے علم پر شکم کو ترجیح دی اور کینٹین کی عمارت کی منظوری دے دی۔ اس وقت سیکرٹریٹ میں کینٹین بن رہی ہے اور تاریخ تباہ ہورہی ہے۔