سرگودھا کے چک نمبر 36 جنوبی کے حاجی غلام نبی نوجوانی میں کبڈی کے غیر معمولی کھلاڑی تھے۔ چھریرابدن اور غیر معمولی پھرتی سے وہ انتہائی تیزی سے اپنی مخالف ٹیم کے کسی کھلاڑی کو ہاتھ لگا کر واپس اپنی ٹیم میں آجاتے اور کوئی انہیں چھو نہ سکتا۔ اردگردکے تمام دیہات میں غلام نبی کی تیزی، مہارت اور طاقت کے چرچے تھے۔ کبڈی کے شوق میں کئی بارانہیں اپنے والد اور بڑے بھائی کی ڈانٹ پھٹکار بھی سننا پڑتی ، وہ عہد بھی کر لیتے کہ آئندہ کبڈی کھیلنے کے بجائے وہ اپنے خاندان کے دیگر مردوں کی طرح لوہے یا لکڑی کے کام پر وقت لگائیں گے لیکن جیسے ہی اردگرد کے گاؤں میں کہیں کبڈی کے میچ کی خبر سنتے بے اختیار وہاں پہنچ کرکسی نہ کسی ٹیم کا حصہ بن کر کھیل میں شامل ہوجاتے۔ تماشائیوں کی داد و تحسین کے سامنے انہیں دنیا کا ہرکام ہیچ لگتا۔ کبڈی میں ان کی غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر ان کے والدا ور بڑے بھائی نے کچھ نرمی اختیار کی کہ چلو کچھ عرصہ کھیل کود کے بعد آخر کام پر ہی آنا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان غلام نبی میں کوئی اور بری عادت بھی نہیں تھی، اس لیے گھروالے اگر کبھی سختی پر بھی اتر آتے تو گاؤں کے بزرگوں کی سفارش پر انہیں گاؤں کی ٹیم میں شامل ہو کر کھیلنے کی اجازت مل ہی جاتی ۔کبڈی کے اس جنون کو دیکھتے ہوئے گاؤں کے ہر شخص کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ نوجوان ضلعے کی ٹیم میں شامل ہوکر پنجاب بھر میں اپنے گاؤں کا نام روشن کرے گا۔ شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن اس سے پہلے ہی 26 فروری 1940ء کا دن آگیا ۔ یہ وہ دن تھا جب حاجی مرزا غلام نبی نے آخری بار اپنے گاؤں میں ہی کبڈی کے آخری میچ میں حصہ لیا لیکن کھیل شروع ہونے کے چند منٹ بعد ہی وہ میدان سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔
قصہ کچھ یوں ہواکہ نمبردار اور ایک دوسرے بڑے زمیندارکے بیٹوں نے گاؤں کے نوجوانوں کو اکٹھا کرکے دو ٹیمیں بناکرکبڈی کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ حسبِ پروگرام 26 فروری کو گاؤں سے باہر ایک میدان میں دونوں ٹیمیں پہنچ گئیں اور ان کے ساتھ ہی گاؤں کی ساری مردآبادی بھی کھیل دیکھنے کے لیے جمع ہوگئی ۔ غلام نبی صاحب نمبردارزادے کی مخالف ٹیم میں شامل تھے ، جب اپنی باری پر وہ کبڈی کبڈی کہتے ہوئے دوسری ٹیم پر حملہ آور ہوئے تو اتفاق سے نمبردار کا بیٹا ان کے سامنے آگیا، انہوں نے پھرتی سے اسے ہاتھ لگایا اور میدان کے اس حصے میں پہنچ گئے جہاں ان کی ٹیم کھڑی تھی۔ نمبردار کے بیٹے نے ہاتھ اٹھا کر میچ روکنے کے لیے کہا اور حکم جاری کیا کہ کوئی بے زمین دستکار زمینداروں کے لڑکوںکو ہاتھ نہیں لگائے گا کیونکہ ' کمیوں ‘ کے ہاتھ لگانے سے زمینداروں کی بے عزتی ہوتی ہے۔ نمبردار کے بیٹے کی یہ دلیل اتنی زوردار تھی کہ گاؤں بھرکے زمینداروں نے اسے خوشدلی سے قبول کرلیا۔ گاؤں کی مسجد کے امام صاحب نے کمزور آواز میں کہا کہ یہ مسلمانوں کا گاؤں ہے اس لیے یہاں چھوت
چھات اور برادری کا نظام چلانا مناسب نہیں ہوگا۔ مولوی صاحب کو نمبردار نے گہری نظروں سے دیکھا اور سمجھانے کے انداز میں کہا ' مولوی صاحب یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں، عزت کا مسئلہ ہے اس لیے آپ اس میں نہ ہی پڑیں‘۔ دیہہ خدا کا سمجھانا بڑا مؤثر ثابت ہوا اور مولوی صاحب نے چپ سادھ لی۔ جب کھیل کے اصول بدل دیے گئے تو غلام نبی نے خاموشی سے گھرکی راہ لی اور اپنے بڑے بھائی کے ساتھ لکڑی کے آرے پر دلجمعی سے کام کرنا شروع کردیا۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے کبڈی کھیلنا تو دورکی بات کبڈی پر بات بھی کبھی نہیں کی۔ دل لگا کرکام کرنے کا انعام انہیں خوشحالی کی صورت میں ملا ، انہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی اورگاؤں چھوڑکر شہر منتقل ہوگئے۔ ان کا خیال تھا کہ دیہات میں زمیندار اور غیر زمیندارکی طبقاتی تفریق پاکستان بننے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی، شہر میں کم ازکم یہ تو ہوگا کہ کوئی انہیں کمتر سمجھ کر کسی میدان سے باہر نکلنے کو نہیں کہے گا۔ ان کی اپنی حد تک یہ بات درست بھی ثابت ہوئی کہ سرگودھاشہر میں کسی نے انہیں کمتر نہیں جانا، اس کی ایک وجہ شاید حاجی صاحب کی خوشحالی بھی تھی۔ شہر میں بظاہر برابری کا ماحول انہیں بہت پسند تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وصیت کررکھی تھی کہ انتقال کے بعد ان کی میت گاؤں کی بجائے شہر میں ہی دفن کی جائے تاکہ انہیں مرنے کے بعد بھی کہیں گاؤں میں امتیازی سلوک نہ برداشت کرنا پڑے۔ ان کی وصیت کے عین مطابق ان کے انتقال کے بعد انہیں شہر میں ہی دفنایا گیا ۔ حاجی صاحب کا خیال تھا کہ کہنے کو پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے لیکن اسلام کی مساوات شہروں کی حد تک ہی محدود ہے، دیہات میں آج بھی ہندوانہ انداز میں معاشرہ طبقات میں تقسیم ہے۔ حاجی صاحب کے اس مشاہدے سے میں دودن پہلے تک سو فیصد متفق تھا کیونکہ دودن پہلے تک مجھ پر اس شہری مساوات کی قلعی نہیں کھلی تھی۔
یہ واقعہ بھی سن لیجیے، ہوا کچھ اس طرح کہ لاہور کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں چند دن پہلے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کا اعلان ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے ضروری اہلیت یہ تھی کہ کھلاڑی اسی سوسائٹی میں رہائش رکھتے ہوں۔ اس معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے سوسائٹی میں رہنے والے چار نوجوانوں نے اپنی اپنی کپتانی میں چار ٹیمیں تشکیل دے لیں۔ پروگرام کے مطابق جب ٹورنامنٹ کا پہلا میچ شروع ہو اور پہلا بلے باز وکٹ پر آکر کھڑا ہوا تو ٹورنامنٹ کی انتظامی کمیٹی نے کھیل روک دیا اور وکٹ پر کھڑے بلے بازکوگراؤنڈ سے باہر نکلنے کا حکم دیا ۔ ٹیم کے کپتان نے جب استفسارکیا کہ آخر کیوں اسے کھیلنے سے روکا گیا ہے تو جواب میں جو دلیل دی گئی وہ بالکل وہی تھی جو1940ء میں سرگودھا کے چک نمبر 36 جنوبی کے نمبردار کے بیٹے نے غلام نبی کو کھیل سے باہر نکالنے کے لیے دی تھی۔ انتظامی کمیٹی کے سربراہ نے کپتان کو بتایا کہ یہ بلے باز یہاںکا رہائشی نہیں بلکہ ایک رہائشی کا ملازم ہے، اس لیے ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے بچے گیند پھینکیں اور یہ اپنی بلے بازی کے جوہر دکھائے۔کپتان نے منمناتی آواز میںکہا کہ یہ ایک سال سے اسی سوسائٹی میں رہ رہا ہے اور رہائشی کی تعریف پر پورا اترتا ہے، پھر یہ جس گھر میں کام کرتا ہے اس کے مالک کو بھی اپنی طرف سے اس کی نمائندگی پرکوئی اعتراض نہیں۔ نوجوان کپتان کی یہ دلیل انتظامی کمیٹی کے شہری بزرگوں نے متفقہ طور پر ردکردی اور فیصلہ سنا دیا کہ بس یہ طے ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ملازم کے ساتھ کھیلتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔
سرگودھا کے چک نمبر 36 میں 74 سال پہلے پیش آنے والے واقعے اور لاہور میں 26 اپریل کے اس واقعے کی جزیات میں اتنا فرق ضرور ہے کہ 74 سال پہلے گاؤں کی مسجد کے پیش نماز نے اسلامی مساوات کی دہائی دی تھی، مگر لاہور کے میدان سے باہر نکالے جانے والے کھلاڑی کے لیے موقعے پر موجود مولوی صاحب نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔