''سر‘ ‘میں (قدرت اللہ شہاب) نے کہا۔ ''آپ نے صاف گوئی کا حکم دیا ہے، اس لیے میں جو کچھ کہوں گا ،بلاکم و کاست عرض کروں گا‘‘۔
''ہاں ہاں، بولو بولو‘ ‘یحییٰ خان نے گھڑی دیکھ کر مزید جھنجھلاہٹ سے کہا۔''جناب‘‘... میں نے گزارش کی۔ ''پچھلے دس برس میں یہ دوسری بار مارشل لاء نافذ ہوا ہے۔ یہ بیچارہ ملک بار بار مارشل لاء کی تاب نہیں لاسکتا۔ اس لیے ...‘‘اگلی صف میں پہلے کھسر پھسر ہوئی۔ پھر 'اس لیے کیا؟‘ 'اس لیے کیا؟‘ کی چند طنزیہ سول اور ملٹری آوازیں بلند ہوئیں۔
''اس لیے جناب!...‘ ‘میں نے کہا، ''جس کام کا بیڑا اٹھا کر آپ تشریف لائے ہیں، اسے جلد از جلد شروع کرکے...‘‘
اگلی صف سے پھر انواع و اقسام کے آوازے بلند ہوئے۔
''یہ کیا بات ہوئی جی؟‘‘
''سب کام ہورہے ہیں۔‘‘
''سب کچھ شروع ہے جیـ ۔‘‘
ان آوازوں کے حق میں یحییٰ خان نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور مجھے ڈانٹ کر پوچھا ''کیا تم صبح اٹھ کر اخبار نہیں پڑھتے؟‘‘
''جی ہاں‘‘ میں نے جواب دیا۔ ''آج کل خاص طور پر ضرور پڑھتا ہوں کیونکہ اپنی حکومت کے ساتھ آج کل ہمارا یہی واحد رابطہ ہے‘‘۔
''کیا پڑھتے ہو؟‘ ‘یحییٰ خان نے جھلّا کر کہا۔ ' 'یہ پڑھتے ہو کہ ہم بیکار بیٹھے ہیں؟ ہم کچھ کام نہیں کررہے؟‘‘
''جناب!‘ ‘...میں نے کہا، ''سڑکیں صاف ہورہی ہے، نالیوں میں فینائل چھڑکی جارہی ہے، دکانوں میں جالیاں اور دفتروں میں حاضریاں لگ رہی ہیں اور...‘‘''اور، اور کیا؟‘‘ یحییٰ خان نے مجھے غصے سے ٹوکا۔ ''کیا یہ ضروری کام نہیں ہیں؟‘‘''سر‘‘ میں نے جواب دیا، ''یہ کام ضروری تو ہیں لیکن ان کے لیے مارشل لاء ضروری نہیں۔ آپ کے اپنے اعلان کے مطابق مارشل لاء کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ...‘‘ ایک بار پھر اگلی صف میں شور برپا ہوگیا۔
قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت 'شہاب نامہ‘ میں درج پینتالیس سال پہلے کا یہ مکالمہ درحقیقت ہماری ہیئت مقتدرہ کا عکاس ہے۔ پاکستان کے حکمران خواہ فوجی ہو ں یا سیاستدان، ان کے پاس اپنے اپنے 'ضروری کاموں ‘ کی ایک فہرست ہوتی ہے جنہیں پورا کرنے کے لیے وہ سارے کے سارے ریاستی وسائل بھی جھونکنے سے گریز نہیں کرتے اور وہ کام جو عوام یا ملک کے لیے ضروری ہوتے ہیں عام طور پر خیالات کے اظہار سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ فکر کا یہ انداز صرف حکمرانوں تک ہی محدود نہیں ، الا ما شااللہ پاکستان کے کئی اچھے خاصے سلجھے ہوئے خواتین و حضرات بھی اپنی اپنی جیبوں میں کچھ ایسے ضروری کاموں کی فہرست لیے پھرتے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے فقط اقتدار کی ضرورت ہے، لیکن وہ یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ حکومت میں آنے کے لیے الیکشن وغیرہ کا کوئی تکلف کیا جائے، بس انہیں کسی بھی طرح اقتدار مل جائے تو قوم گویا ان کے طفیل بیک جنبش قدم اقوام عالم میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوجائے گی۔ اپنے اقتدار کے ساتھ مشروط ضروری کاموں کا یہ مرض کتنا گہرا ہے ،اس بارے میں ایک بار قاضی حسین احمد مرحوم نے بتایا کہ وہ پاکستان کے ایک محترم بزرگ کی تکریم کے لیے ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ میزبان موصوف نے ملک و قوم کے لیے اپنی خدمات اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے قومی مسائل کے حل کا ایک نسخہ بھی پیش کردیا اور فرمایا کہ بس اب انتظار ہے کہ وزارت عظمٰی مل جائے تاکہ قوم کی بگڑی بنا کر وہ اطمینان سے گوشہ نشین ہوسکیں۔ قاضی صاحب یہ سن کر سناٹے میں آگئے اور ان سے پوچھا کہ جناب کی شخصیت کے لیے وزارت عظمٰی بڑا حقیر سا عہدہ ہے لیکن اس کے لیے تو الیکشن وغیرہ کا جھنجھٹ پالنا پڑتا ہے تو اس پر انہوں نے ایک آہ بھری اور ملک کے انتخابی نظام کو درست کرنا بھی اپنے ضروری کاموں میں شامل کرلیا۔
شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹرطاہر القادری کی مثال لے لیجیے۔ آپ قبلہ نے جب 2013ء کے الیکشن سے کچھ عرصہ قبل پاکستان ورود فرمایااور قوم کے دلدر دور کرنے کے لیے اپنے ذاتی انقلابیوں کو اسلام آباد لے جانے کا مصمم ارادہ کرلیا تو اس تاریخی سفر پر روانگی سے چند دن پہلے کچھ صحافیوں کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔آپ قبلہ ملک کو درپیش مسائل کا احاطہ فرما کر حل تجویز کررہے تھے کہ میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھے ایک صحافی دوست نے سوال داغ دیا کہ ''کیا آپ جن کاموں کو ملک و قوم کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں ، ان کی انجام دہی کے لیے نگران وزیراعظم کا عہدہ قبول فرمائیں گے؟‘‘تو بغیر کسی تامل کے آپ قبلہ نے جواب دیا ''بالکل، کیونکہ ہم ذمہ داریوں سے بھاگنے والے نہیں‘‘۔دہنِ مبارک سے بات نکلی اور ٹی وی کے کوٹھوں پر چڑھ گئی۔ نادانوں نے بات کا بتنگڑ بنا لیا اور آپ قبلہ کی طرف سے اس بیان کی تردید و وضاحت کردی گئی لیکن مصیبت یہ تھی کہ کیمرے نے صحافی کا سوال اور آپ قبلہ کا جواب دونوں ریکارڈ کررکھے تھے۔
شیخ الاسلام قبلہ نے کینیڈا کی صحت افزا آب و ہوا میں طویل غور وفکر کے بعد پاکستان کی فلاح کا جو منصوبہ تیار کیا ہے اور وہ اس کے نفاذ کے لیے جمہوریت یا الیکشن نہیں صرف حکومت چاہتے ہیں۔ غیر ثقہ عوامی سیاست سے بچنے کے لیے آپ قبلہ نے اپنے
منصوبے کو انقلاب کا نام دیا ہے۔ماضی کے کئی انقلابوں کا حصہ رہنے والے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے کینیڈا سے وارد ہونے والے اس انقلاب پر بھی سب سے پہلے لبیک کہہ کر جو فضیلت و مرتبہ حاصل کرلیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ یہ آپ قبلہ کے قدموں کی برکت ہے کہ چشم ِ فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ لندن میں قبلہ کے پہلو میں بیٹھ کر چودھری شجاعت حسین نے صحافیوں کو کہا کہ ملکی نظام میں جو اصلاحات برپا کرنے کی بات قبلہ کررہے ہیں انہیں صرف اصلاحات نہیں بلکہ انقلابی اصلاحات لکھا، بولا اور پڑھا جائے۔جو چودھری صاحب کو جانتے ہیں انہیں یہ معلوم ہے کہ ان کے منہ سے لفظ انقلاب نکلوا لینا بلا مبالغہ کسی کرامت سے کم نہیں۔بے شک آپ قبلہ نے پاکستان کے انتخابی نظام، بلدیاتی نظام، تعلیمی نظام اور سیاسی نظام کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس سے چودھری برادران تو کیا پاکستان کا کوئی بھی ذی شعور شخص اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ذی شعوروں کی اکثریت ان تمام انقلابی اصلاحات کو ضروری تو سمجھتی ہے، لیکن اس کے لیے آپ قبلہ اور چودھری برادران کے مشترکہ انقلاب کو ضروری نہیں سمجھتی۔ حتیٰ کہ عمران خان بھی آپ قبلہ کی نوید انقلاب سن کر لندن میں اپنی موجودگی کی صفائیاں دیتے پائے گئے ہیں۔
افسوس چودھری برادران کے جذبہ انقلاب کی پذیرائی کے لیے آپ قبلہ کو بلا وجہ جون جولائی کا گرم موسم لاہور میں گزارنا ہوگا۔ چودھری برادران کے ہر ممدوح کا انجام گرم موسم ہی ہوتا ہے۔