اورنگزیب عالمگیر نے چالیس سال کی عمر میںاپنے باپ سے حکومت چھینی، اپنے بھائیوں کو تہہ تیغ کیااور اگلے پچاس سال تک ہندوستان کے کونے کونے میں اٹھنے والی بغاوتوں کو کچلتا ہوا حکومت کرتا رہا۔ انگریزوں کو سفارتکاری میںمات دی اور جنگ کے میدان میں بھی خاک چاٹنے پر مجبور کردیا۔ مرہٹوں کے کشیدہ سر خم کیے، سکھوں کا شوق حکومت فرو کیا ، شورش پر آمادہ جاٹوں کو لگام ڈالی اورہندوستان کی سرحد وں کو کابل سے راس کماری تک پھیلا دیا۔اس کی عظمت کا اندازہ یوں لگائیے کہ علامہ اقبال نے اسے یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کہ اورنگزیب اسلام کے مطلوب مردِمسلمان کاایک جدید نمونہ ہے۔ لیکن ہندوستان کا یہ غیرمعمولی ذہین اور جری بادشاہ جب نصف صدی کی حکومت کے بعداگلے جہان سدھارا تواس کی جگہ لینے والا کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو اتنے بڑے ملک کو آگے بڑھانا تو دور کی بات ، صرف متحد ہی رکھ سکے۔ اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے تخت و تاج کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے اور چندروزکے بادشاہ اعظم شاہ کو قتل کرکے بہادر شاہ اول المعروف شاہ عالم ہندوستان کا بادشاہ بن گیا۔ پھر اس عظیم سلطنت کا جو حال ہوا اس کا اندازہ 'سلطنتِ شاہ عالم از دلی تا پالم‘ کے محاورے سے ہوجاتا ہے ، یعنی بادشاہ کا اختیار دلی کے لال قلعے سے لے کر ایک نواحی گاؤں پالم تک محدود ہوگیا۔ اپنی بے پناہ سیاسی بصیرت، اولوالعزمی اور کامیابیوں کے باوجود اگر دیکھا جائے تو اورنگزیب عالمگیر اس حوالے سے ناکام رہا کہ اس کی تعمیر کردہ سلطنت اس کے بعد چند ماہ تک بھی اپنی شان و شوکت برقرار نہ رکھ سکی۔ وجہ اس ناکامی کی یہ رہی کہ بادشاہ سلامت اپنے اجداد کی طرح اس خوف سے کسی کو اپنا جانشین نہیں بنا سکے کہ وہ جلد ازجلد تخت پر بیٹھنے کے لیے انہیں تختے پر کھینچ دے گا۔
اپنے جانشین سے ہی خوف میں مبتلا ہوجانے کی یہ مغلیہ روایت برصغیر پاک وہند میں اتنی پختہ رہی ہے کہ تین سو سال گزرجانے کے بعد بھی اس کے اثرات ہمارے روزمرہ تجربات کا حصہ ہیں۔ کئی اعلیٰ خاندان،بہت سے کاروباری ادارے اور سیاسی جماعتیں محض اس وجہ سے برباد ہوگئے کہ ان کے 'عظیم سربراہان‘ نے مرجانا تو گوارا کرلیا لیکن اپنا متبادل تیار کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ جہاں تک ممکن ہوا اپنی جگہ لینے کے اہل آدمی کی حوصلہ افزائی کی بجائے اپنی توانائی اسے کچلنے میں ہی صرف کردی۔اپنے جانشین سے خوفزدہ ہوجانے کا یہ رجحان سیاست میں تو اتنا طاقتور ہے کہ آج بھی برصغیر کی سیاسی جماعتیں، خواہ وہ حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر، بڑی حد تک کسی ایک فرد کی ملکیتی کمپنی کی طرح کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بھارت کی سیاسی جماعتوں میں تو پھر بھی جمہوری عمل کے تسلسل کی وجہ سے کچھ نہ کچھ بہتری آئی ہے لیکن پاکستان کی جماعتیں ملک میں گنڈے دار جمہوریت کے باعث اب تک مختلف شخصیات کے
پیروکاروں کے اجتماع سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ یہاں پاکستان مسلم لیگ ن کا مطلب ہے ان لوگوں کا گروہ ہے‘ جو اپنے قائد محمد نواز شریف کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنے کو ہی اپنی سیاست کی معراج سمجھتے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کا مطلب ہے ایک ایسا ہجوم جو بھٹو خاندن کے وارثوں کے اشارے پر ووٹ ڈالتا ہے۔ قومی سیاست میں تازہ وارد پاکستان تحریک انصاف ان لوگوں کے مجموعے کا نام ہے جو عمران خان کی ہر بات کو درست مانتے ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ ان لوگوں کی تحریک ہے‘ جو اپنے قائد الطاف حسین کی ہر ہر ادا پر نثار ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی سوال اٹھایا جائے تو ناراض ہونے لگتے ہیں۔
الطاف حسین کو بلا خوف تردید ایک کرشمہ ساز شخصیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ جن فقیرانہ وسائل سے انہوں نے سندھ کے شہری طبقے کو زبان کی بنیاد پر منظم کرکے ایک سیاسی قوت کی شکل دی وہ انہی کا حصہ ہے۔ اپنے پیروکاروں پر ان کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ گزشتہ بائیس سالوں سے وطن سے دور رہنے کے باوجود ان کے چاہنے والے چند روز پہلے ان کی صحت کی خرابی اور ان کو درپیش قانونی مسائل پر تڑپ اٹھے۔ان کی اس تڑپ نے ہی ملک میں اس سوال کو جنم دیا ہے کہ خدانخواستہ الطاف بھائی اپنی صحت یا کسی اور وجہ سے اپنی جماعت کوقیادت مہیا نہیں کرسکے تو کیا ہوگا؟ جب اس کا کوئی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آیا تو یہ سوال پھیل کر اب ان چاروں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی قیادت کے بارے میں پوچھا جارہا ہے ،جو مجموعی طور قومی اسمبلی میں چھیاسی فیصد نشستوں پر قابض ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان چارو ں قائدین کو لمبی زندگی اور تندرستی دے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کمزور ریاستی نظام کے تانے بانے کو یہی لوگ سہارا دیے ہوئے ہیں۔ یہ سہارے کتنے مضبوط ہیں اس کا عملی مظاہرہ ہم نے اس وقت دیکھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے پورے ملک میں آگ لگ گئی تھی،اسی طرح جب عمران خان پچھلے سال الیکشن سے پہلے لفٹر سے گر کر زخمی ہوئے تو ان کی جماعت کی بقاء پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا، اس سے پہلے نواز شریف جب جلا وطن ہوئے تو ان کی جماعت محض ایک نقشِ پا کے طور پر باقی رہ گئی تھی اور اب الطاف حسین تین دن کے لیے منظر سے ہٹے تو کراچی مفلوج ہوگیا تھا۔ وقت کس تیزی سے بدل جاتا ہے ، اس کا تجربہ ہماری سیاسی قیادت کو بخوبی ہے اور الطاف بھائی کی تین دن کی غیر حاضری نے معاملے کی سنگینی کوایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔
انسان نے ہزاروں سال کے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ ریاست و سیاست کے معاملے میں کوئی راہنما تبھی کامیاب کہلائے گا جب اس کے بنائے ہوئے راستے پر اس کے بعد آنے والے بھی چلیں گے۔ ملائشیا کے مہاتیر محمداورجنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا نے ہمارے ہی عہد میں اپنے عروج کے دنوں میں ان لوگوں کا انتخاب کرلیا تھا جو ان کے بعدان کے کام کو آج بھی آگے بڑھاتے نظر آرہے ہیں۔ امریکہ اوریورپ کے اکثر ملکوں میں ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کا اندرونی نظام ایسا بن چکا ہے کہ وہاں قیادت کا بحران مشاورت سے طے کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ان دونوں میں سے کوئی کام بھی اب تک نہیں ہوسکا، یہاں قائدین کی توجہ اپنے نعم البدل کی تیاری پر ہے نہ اپنی جماعتوں اور ریاستی نظام کو بہتر بنانے پر۔ خدا نخواستہ کوئی قدرتی جھٹکا یا حادثہ سہنے کی سکت ہمارے نظام میں کہیں نظر نہیں آتی۔ شاید الطاف بھائی کی سہ روزہ آزمائش ہمارے قائدین کو قائل کرلے کہ وہ اپنی جماعتوں کی طرف توجہ کریں اور انہیں اپنی شخصیت کی توسیع تک محدود کرنے کی بجائے فیصلہ ساز ادارے بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ورنہ وقت بے رحم ہے اور بے رحمی سے اپنا فیصلہ نافذ کر ڈالتا ہے۔