کسی دوست نے ایک ویڈیو بھیجی ہے جس میں فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک شخص کو دکھایا گیا ہے جس نے اپنے پاس پڑے گتے پر لکھ رکھاہے: '' میں اندھا ہوں، میری مدد کرو‘‘۔ آتے جاتے لوگوں میں سے اکا دکا اس کے سامنے پھیلے کپڑے پر کوئی سکہ پھینک جاتا ہے۔ پھر دکھایا گیا کہ ایک خاتون اس کے قریب آکر پاس پڑے گتے کی تحریر کاٹ کر دوسری جانب کچھ لکھتی ہے اور اس کے سامنے رکھ کر چلی جاتی ہے۔ اب صورتحال یک لخت بدل جاتی ہے۔ ہر گزرنے والا وہ تحریر دیکھ کر نابینا کے سامنے سکے ڈال کر جاتا ہے۔ تھوڑی دیر میں ہی اس کے سامنے سکوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے ۔ پھر خاتون کی لکھی ہوئی تحریر سامنے آتی ہے جو کچھ اس طرح ہے: '' آج کا دن کتنا خوبصورت ہے ، لیکن میں اسے دیکھ نہیں سکتا‘‘۔ اس چھوٹی سی تصویری کہانی کا سبق یہ ہے کہ اپنی دنیا تبدیل کرنا چاہتے ہو تو الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرو۔ میرا بس چلتا تو میں یہ ویڈیو عمران خان کو بھیجتا ، اسے دیکھ کر شاید وہ سمجھ جاتے کہ سیاست کے میدان میںخود ان کے اپنے الفاظ ان کے راستے کے پتھر بنتے جارہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر وہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ ہم الیکشن کمیشن کا ہر فیصلہ قبول کریں گے توکافی ہوتا۔ لیکن انہوں نے چیلنج کے انداز میں دوبارہ انتخابات کا کہہ کر اپنے لیے ایسی مشکلات کھڑی کرلی ہیں جو انہیں آئندہ تین سال تک اپنے زیر نگیں صوبے سے باہر نہیں نکلنے دیں
گی۔ اپنی طرف سے انہوں نے جو چیلنج کیا ہے اسے ان کے سیاسی مخالفین نے ایک اعتراف ِ جرم کے طور پر لیا ہے ۔ جیسے ہی خان صاحب کا چیلنج سامنے آیا ، دوسری طرف سے فوری طور پر ذمہ داران کے تعین، چار کے ٹولے کی سازش اور نہ جانے کیاکیا مطالبات سامنے آگئے۔ وہ سارا استدلال جو خان صاحب نے گزشتہ دوسال کے دوران قومی الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے ترتیب دیا تھا کمزور چھت کی طرح خود ان پر آرہا۔انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے کہنے پر ہی نئے الیکشن کرانے ہیں تو نئے الیکشن کے بعد ان جماعتوں نے پھر دھاندلی کا شور مچایا تو کیا سہ بارہ الیکشن کروائے جائیں گے؟خان صاحب کے اس ''اعتراف ‘‘ کے بعد صوبے میںاے این پی، جمعیت علماء اسلام اور پیپلزپارٹی جو بلدیاتی الیکشن میں اپنی کارکردگی پر مطمئن ہوکر بیٹھ رہے تھے ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور صوبائی حکومت کی برخاستگی کا مطالبہ لے کر سامنے آگئے۔ بدترین حالات میں بھی مسکرا کر بات کرنے والے اے این پی کے میاں افتخار سے فون پر بات ہوئی توسخت لہجے میں کہنے لگے: ''ہم نے تو دوسال سے ان کا مینڈیٹ تسلیم کر رکھا تھالیکن اب یہ لوگ (تحریک انصاف) اپنا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں‘ اس لیے اب ہم انہیں صوبے میں حکومت نہیں کرنے دیں گے‘‘۔ سیاسیات کے ایک طالبعلم کے طور پر مجھے ایک ہزار فیصد یقین ہے کہ اے این پی، جمعیت علما ء اسلام یا پیپلزپارٹی کا ہدف تحریک انصاف کی حکومت گرانانہیں بلکہ اگلے تین سال کے لیے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر چھوڑدینا ہے تاکہ آئندہ الیکشن تک اسے کارکردگی دکھانے کا موقع نہ ملے۔ اس کوشش میں انہیں پہلی کامیابی ضلع مردان کی نظامت کی صورت میں ملی ہے۔
ضلع مردان میں تحریک انصاف حکومت میں ہونے کے باوجود اتنا بھی نہیں کرسکی کہ آزاد منتخب ہونے والے کونسلروں کو ساتھ ملا کر کم ازکم ضلع ناظم اپنا منتخب کرالیتی ۔ دھاندلی کے شور اور پھر خان صاحب کے دوبارہ الیکشن کے اعلان نے خود تحریک
انصاف کے منتخب ہونے والے کونسلروں کو اتنا حواس باختہ کردیا کہ وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہ رہے۔ ان دو دنوں کے اندر اندر عوامی نیشنل پارٹی نے دن رات ایک کرکے بغیر کوئی شور مچائے جماعت اسلامی ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو ساتھ ملا کر ضلع مردان کی نظامت اپنے نام کرلی، دو تحصیلوں کی نظامت جماعت اسلامی کو دی، ایک کی جمعیت علماء اسلام کواور ضلعی نائب ناظم کا دفتر پیپلز پارٹی کے حوالے کردیا۔ اس سارے کھیل میں تحریک انصاف کو ہوش اس وقت آیا جب ان جماعتوں کی مرکزی قیادت نے اس معاہدے کی توثیق کردی۔ اس دھچکے کے بعد تحریک انصاف کے کونسلروں نے خان صاحب کے بیانات کا دفاع کرنے کے بجائے اپنے وزیراعلیٰ کی قیادت میں سیاست کے عملی تقاضوں پر لبیک کہتے ہوئے ضلع ہنگومیں نظامت کے لیے اے این پی سے مذاکرات شروع کردیے۔ کچھ ایسی ہی صورت مالاکنڈ میں نظر آرہی ہے جہاں تحریک انصاف جماعت اسلامی کے خلاف جمعیت علماء اسلام اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اتحاد بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ کوہاٹ میں تحریک انصاف مسلم لیگ ن کے ساتھ راز ونیاز کررہی ہے تاکہ ضلعے میں اپنا ناظم لا سکے۔
خیبر پختونخوا کی تحریک انصاف بے شک عمران خان سے الگ نہیں ہے لیکن اتنا فرق ضرور ہے کہ وہاں ان کے کارکن اپنے سیاسی اہداف کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ خان صاحب کے برعکس پرویز خٹک صوبے کی تما م سیاسی جماعتوں کے ساتھ بنا کر رکھنے کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ آفتاب شیرپاؤ سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک ہر سیاسی راہنما کے ساتھ ان کی صاحب سلامت ہے۔ جب عمران خان ان لیڈروں کے خلاف بولتے ہوئے اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں تو یہ پرویز خٹک اور ان کے دوست جہانگیر ترین ہی ہیں جو معاملات ہا تھ سے نکلنے نہیں دیتے۔گزشتہ دو سال میں دھرنے اور اپنے بیانات کے ذریعے صوبے میں سیاسی کشیدگی کو بڑھاتے ہوئے خان صاحب ایک ایسی جگہ آ پہنچے ہیں جہاں خود ان کی جماعت کے اندر بے چینی پھیلنے لگی ہے۔ یہ کتنی ہے ، اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ نئے بلدیاتی الیکشن کے خلاف مزاحمت کے لیے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے کم ازکم ایک سو کونسلر اور دس اراکین صوبائی اسمبلی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اس ماحول کی وجہ سے ہی خان صاحب آئندہ دو چار دن میں نئے انتخابات کی پیشکش پر خاموشی اختیار کرلیں گے۔ لیکن ان کے مخالفین اب انہیں کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی صوبائی حکومت کو گرانا سہ فریقی اتحاد کے بس کی بات نہیں کیونکہ مسلم لیگ ن نے اسے سہارا دے رکھا ہے‘ لیکن اب انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سیاست کے مہیب سمندر میں جسم سے نکلنے والا ایک قطرۂ خون بھی خونخوار شارک مچھلیوںکو شکار کا پتا دے دیتا ہے۔ اب خان صاحب کو ان شارکوں سے بچنا ہے۔