بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مصیبت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عوام کو جو خواب دکھا کر اقتدار حاصل کیا تھا، ان میں سے ایک بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ ان کو ووٹ دیتے ہوئے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ 1991ء کے بعد سے ملک میں ہونے والی معاشی ترقی کے ثمرات نیچے تک پہنچانے کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو بڑے کاروباری طبقے اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر کوئی پُل بنا سکے۔ یہ خلیج اتنی گہری اور وسیع ہے کہ عوامی مزاحمت کی وجہ سے نئے کارخانوںکے لیے زمین کا حصول بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے، اس لیے بھارت کی کارپوریشنز بھی کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں تھیں جو غریب، متوسط اور دولت مند طبقات کے درمیان مفاہمت کی علامت بن سکے۔ نریندر مودی ان صفات پر سو فیصد پورا اترتے تھے۔ بطور وزیراعلیٰ انہوں نے گجرات میں کاروبار دوست پالیسیوں کے ذریعے جو کارنامہ سرانجام دیا‘ اسے پوری دنیا تحسین کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ ان کی کامیابی اتنی بڑی تھی کہ جب بھارت میں ترقی کی شرح پانچ فیصد تھی تو گجرات میں یہ شرح دس فیصد تھی ۔ بطور وزیراعلیٰ ان کی کارکردگی دیکھ کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو مودی کی وزارتِ عظمیٰ پر قائل کرنے کے لیے بھارتی کارپوریشنز نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے اور ان سے نکلنے والے روپے نے ہر اس رہنما کا منہ بند کردیا جسے مودی پر معمولی سا بھی اعتراض تھا۔ لال کرشن ایڈوانی نے مودی کے راستے میں آنے کی کوشش کی تو ساری کی ساری بی جے پی ان کے لتے لینے لگی چنانچہ انہیں بھی گوشہ نشین ہونا پڑا۔ بھارت جیسے بڑے ملک کی وزارت عظمیٰ غالباً مودی کی آخری کامیابی ہے کیونکہ اس کے بعد ان کی
ناکامیوں کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ معاشی میدان میں کچھ کرنے کی بجائے کبھی وہ جھاڑو لیے صفائی کرتے نظر آئے تو کبھی گیروی پگڑی پہن کر سیاسی دعوے کرتے دکھائی دیے۔ اقتدار کے پہلے سال ہی دلّی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے دارالحکومت ان سے چھین لیا، مقبوضہ کشمیر میں ان کے منصوبے ناکام ہوگئے حتیٰ کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں بی جے پی کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ مودی جس تیزی سے بھارت کے سیاسی افق پر ابھرے تھے اسی تیزی کے ساتھ غروب ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارتی مڈل کلاس کی یہ توقع کہ نریندر مودی سوشل سیکٹر میں اصلاحات کریں گے، ملیا میٹ ہوچکی ہے جبکہ بڑے کاروباری طبقے کی یہ امید کہ صنعتی ترقی کے خلاف بڑھتی ہوئی سیاسی تحریکیں مودی کی وجہ سے ختم ہوجائیں گی، دم توڑ چکی ہے۔ ایک سال میں ہی یہ مفروضہ غلط ثابت ہوگیا کہ ایک صوبے کی معاشیات درست کر لینے والا شخص وزیراعظم بن کر سارے ملک کے لیے قابل قبول معاشی پالیسی وضع کرسکتا ہے۔ اب نریندر مودی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ بھارت میں جنگی جنون پیدا کرکے اپنی سیاسی پوزیشن بچانے کی کوشش کریں ، سو پاکستان کے خلاف پے درپے بیانات دے کر وہ یہی کررہے ہیں۔
نریندر مودی پاکستان کے خلاف مہم چلا کر وہ اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کے ساتھ ساتھ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک ) کو بھی نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ سی پیک بن جانے کے بعد جنوبی ایشیا میں اس کی پوزیشن وہ نہیں رہے گی جو آج ہے۔ آئندہ تین سال میں اگر چین سے گوادر تک کا یہ راستہ بن جاتا ہے تو پاکستان اس خطے کا اہم ترین ملک بن جائے گا جس کے پاس وسطی ایشیا ، چین اور مشرق وسطیٰ کو آپس میں ملانے والے راستوں کا کنٹرول ہوگا۔ ایسی صورت میں اگر بھارت اس علاقے میں کوئی جارحانہ حکمت عملی اختیار کرتا ہے تو اس کا جواب دینے کے لیے پاکستان تنہا نہیں ہوگا بلکہ اس کی پشت پر چین سمیت کئی ممالک آن کھڑے ہوں گے۔ پاکستان کی مضبوط ہوتی ہوئی پوزیشن اور اس سے وابستہ خطرات کا ادراک کرتے ہوئے بھارتی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ ایک منصوبے کے تحت تلخ بیانات کے ذریعے پاکستان کو ردعمل پر اکسا رہی ہیں تاکہ علاقے میں تناؤ کا ماحول پیدا ہو اور چین دوسرے ملکوں کے معاملات میں الجھنے سے گریز کی اپنی پالیسی کے تحت اس منصوبے سے ہاتھ اٹھا لے۔ بھارتی شورشرابے کی وجہ سے پاکستان میں حکومت پر دباؤ آیا کہ وہ بھی ترکی بہ ترکی بیانات جاری کرکے بھارت کو جواب دے لیکن پاکستان نے اس جال میں پھنس کر چینی دوستوں کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے بھارتی رویے پر افسوس اوراپنے ترقیاتی منصوبوں کو ہر قیمت پر پورا کرنے کے ارادے کا اظہار کرکے پختہ کاری کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان کو انگیخت کرنے کی بے وقوفانہ کوششوں میں بھارتی وزیراعظم اور وزرا اتنے آگے چلے گئے کہ دہشت گردی کو سپانسر کرنے کا اعتراف کر بیٹھے، اگرچہ نریندر مودی نے اپنے وزرا کو پاکستان کے بارے میں مزید بیانات دینے سے روک دیا ہے لیکن بہت سے تیر کمانوں سے نکل چکے ہیں۔ اب یہ کام ہماری حکومت کا ہے کہ وہ بھارت کی اس بے وقوفی کا عالمی سطح پر فائدہ اٹھائے ورنہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے سفارتکاروں کو واپس بلا کر بھاڑ جھونکنے پر لگادے۔
پاکستان کے خلاف سفارتی محاذ گرم کرکے نریندر مودی نے بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کو تو ایک بار پھر اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے لیکن اپنے لیے ایک بڑی مصیبت بھی کھڑی کرلی ہے اور وہ ہیں بھارتی کارپوریشنز۔ بھارت کا کاروباری طبقہ کسی بھی صورت میں پاکستان کے ساتھ کسی جنگ میں نہیں الجھنا چاہتا، اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تو بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بھارت میں ہر سال اربوں ڈالر بیرونی سرمایہ کاری کی صورت میں آتے ہیں۔ پچھلے پچیس برسوں میں جب جب پاک بھارت کشیدگی بڑھی ہے اس کا نتیجہ بھارت میں ڈالروں کی آمد میں کمی کی صورت میں نکلا ہے جبکہ پاکستان کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ نریندر مودی جو بھارتی بگ بزنس کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں ، پاکستان دشمنی میں ان حدود سے باہر نکل گئے ہیں جو انہوں نے الیکشن سے پہلے اپنے سپانسرز کے ساتھ طے کی تھیں۔ اپنے سرمایہ کاروں کے اطمینان کے لیے مودی کو اب چند قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں وہ شاخ زیتون پاکستان کی طرف بڑھاتے نظر آئیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت سی پیک کے خلاف سازشوں سے باز آجائے گا۔ وہ اپنی سازشیں جاری رکھے گااور ہم ان کا توڑ بھی کرتے رہیں گے لیکن گوادر پورٹ سے پہلے چینی کنٹینر کی روانگی تک ہمیں صبر کرنا ہے کیونکہ اب کشیدگی کی صورت میں ہمارا بھی نقصان ہو جائے گا۔ ہمارے چینی دوست ہمیں یہی سمجھا رہے ہیں اور بار بار سمجھا رہے ہیں کہ ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے ہم اپنی نظریں اس زمین پر گاڑے رکھیں جہاں سی پیک بننا ہے۔ ابھی اگلے روز چینی سفیر نے لاہور میں ہی ایک تقریب میں کہا تھا کہ تصاد م سے گریز کا رویہ ہی اس عظیم منصوبے کا اہم ترین جزو ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم حالات کو سمجھیں اور اپنے کام پر توجہ دیں۔ تند و تیز بیانات جاری کرکے ہم اپنا فائدہ کرنے کی بجائے اپنے دشمنوں کا کام ہی آسان کریں گے۔