فرض کر لیجیے کہ خاتون کا نام ثنا ہے اور مرد کا نام یاسر۔ ناموں کے سوا کچھ اور فرض نہ کریں‘ کیونکہ اب جو کچھ آپ پڑھیں گے‘ وہ سو فیصد حقیقت ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک دن ثنا نے لاہور کے ایک تھانے میں درخواست دی کہ اسے یاسر نامی شخص کی بلیک میلنگ سے بچایا جائے۔ پولیس نے کچھ سوال جواب کیے تو معلوم ہوا کہ ثنا اور یاسر کئی سال پہلے ایک کیفے میں ملے تھے۔ دونوں میں پہلے دوستی اور پھر محبت ہو گئی۔ محبت کے کئی مراحل اس لیے جلد طے ہو گئے کہ ثنا امریکہ جانا چاہتی تھی‘ جبکہ یاسر اسے امریکہ کا ویزا لگوا کر دینے کا دعوٰی کر رہا تھا۔ ویزا تو نہ لگا‘ لیکن محبت کے کچھ تصویری ثبوت یاسر کے پاس آ گئے‘ جنہیں افشا کرنے کی دھمکی دے کر وہ اسے مالی نقصان اور ذہنی اذیت پہنچاتا رہتا۔ کئی سال بعد آخر وہ دن آ گیا‘ جب یاسر زبردستی اس کے گھر داخل ہوا، اس پر تشدد کیا اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی کوشش کی۔ اسی دن ثنا نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اس کے ہاتھوں مزید ذلیل نہیں ہو گی اور پولیس کی مدد حاصل کرے گی۔ پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے یاسر کو پکڑا اور تھانے لا کر بٹھا لیا۔ یاسر سے پوچھ گچھ شروع کی گئی تو انکشاف ہوا کہ وہ تو ثنا کا شوہر ہے۔ پولیس نے نکاح نامہ طلب کیا تو اس نے سرکاری رجسٹر میں اندراج کے ثبوت کے ساتھ پیش کر دیا۔ ملزم نے اپنی صفائی میں نہ صرف نکاح خواں بلکہ نکاح نامے پر بطور گواہ دستخط کرنے والوں اور ثنا کے کچھ ایسے رشتے داروں کو بھی بلا لیا جو شادی میں شریک تھے۔ ان رشتے داروں نے نہ
صرف شادی کی تصدیق کی بلکہ ثبوت کے طور پر دلہا دلہن کی تصاویر بھی پیش کر دیں۔ پولیس نے امریکہ کے ویزے کے بارے میں جاننا چاہا تو معلوم ہوا کہ دونوں میاں بیوی پنجاب اسمبلی کے دو ارکان کی ہمراہی میں امریکہ کا سفر بھی کر چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے ارکان کے نام آئے تو پولیس نے ان دونوں معزز ارکان سے حقائق جاننے کے لیے رابطہ کر لیا۔ دونوں نے نہ صرف یاسر کی تائید کی بلکہ ایسی تصاویر بھی مہیا کر دیں جن میں ثنا اور یاسر ان کے ساتھ موجود تھے۔ شخصی گواہیوں کے علاوہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ویزا غرض یہ کہ ہر دستاویز پر ثنا کا نام یاسر کی بیوی کے طور پر در ج تھا۔ جب پولیس نے ہر طرف سے اپنا اطمینان کر لیا تو یاسر سے پوچھا گیا کہ آخر ثنا یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے؟ ''وہ مجھے چھوڑ کر طاقت اور دولت کی دنیا میں جانا چاہتی ہے جبکہ میں اسے روکنا چاہتا ہوں، لیکن بات اب گھر سے نکل کر تھانے تک آ گئی ہے تو میں بھی اس کے راستے سے ہٹ جاؤں گا‘‘۔ پولیس نے یاسر کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔
پولیس نے ثنا کو بلا کر بتا دیا کہ اس نے جو درخواست دی تھی اس پر مزید کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بتائے تمام حقائق غلط ہیں۔ وہ یہ سن کر آرام سے اٹھی اور تھانیدار کے کمرے سے باہر نکل کر کسی سے اپنے موبائل پر بات کرنے لگی۔ اس نے فون بند ہی کیا تھا کہ تھانیدار کا فون بج اٹھا۔ اس کے موبائل کی سکرین پر پنجاب کے ایک طاقتور صوبائی وزیر کے دفتر کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ صوبائی وزیر نے اسے حکم دیا کہ ثنا کی درخواست کے مطابق فوری طور پر پرچہ درج کرکے یاسر کو گرفتار کیا جائے۔ تھانیدار نے بے بسی سے ثنا کی طرف دیکھا، سر جھکا کر یاسر کے خلاف پرچہ کاٹا اور ایک سب انسپکٹر کو تفتیشی افسر مقرر کر دیا۔ پرچہ کٹنے کے بعد یاسر کو گرفتار کرنا لازمی تھا‘ لیکن اس نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی‘ اور شامل تفتیش ہو گیا۔ ایک بار پھر نکاح نامے سے لے کر نکاح خواں تک، اور شادی کے شرکا سے لے کر اراکین اسمبلی کے بیانات صفحہ مثل کا حصہ بنے اور حاصلِ تفتیش یہ نکلا
کہ 'پرچہ ہٰذا خارج کیا جائے اور ملزم ہٰذا کو چھوڑ دیا جائے‘۔ خوش
قسمتی سے یاسر کے ہاتھ بھی ایک صوبائی وزیر لگ گیا‘ جو ثنا کے وزیر جتنا طاقتور تو نہیں تھا‘ لیکن پھر بھی اس کی مدد کے لیے کافی تھا۔ اس وزیر نے لاہور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر سے یاسر کی سفارش کی، اعلیٰ افسر نے متعلقہ تھانے سے معلوم کیا۔ جب ملزم کی بے گناہی کا پتا چلا تو پرچہ خارج کرنے کا حکم دے دیا۔ ثنا کو پرچے کے اخراج کا پتا چلا تو ایک بار پھر طاقتور وزیر میدان میں آ گیا اور اس نے پولیس کو حکم دیا کہ ملزم جانے نہ پائے۔ طاقتور وزیر کے سامنے پولیس کے سارے پھنے خان یکے بعد دیگرے کورنش بجا لانے لگے، تفتیش بدلی گئی، ضمنیاں لکھی گئیں، پھر مزید ضمنیاں لکھی گئیں، پچھلی تاریخوں میں احکامات جاری کرکے کیس مزید تفتیش کے لیے خطرناک جرائم کی تفتیش کرنے والے شعبے کو منتقل کیا گیا۔ یاسر کا حمایتی وزیر ہاتھ پاؤں مارتا رہا‘ لیکن ثنا کے طاقتور وزیر کے احکامات کے آگے اس کی تمام سفارشیں رد ہو گئیں۔ اور ہاں، جس تفتیشی افسر نے یاسر کے خلاف ایف آئی آر خارج کرنے کی سفارش کی تھی اسے قرار واقعی سزا بھی دے دی گئی۔
پنجاب کے دو وزیروں کے مقابلے میں ذرا خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور سپیکر کی پولیس میں مداخلت کا حال بھی سن لیجیے۔ ابھی پچھلے سال جب سینیٹ کے الیکشن ہو رہے تھے‘ تو تحریک انصاف کے کچھ اراکین صوبائی اسمبلی بغاوت پر آمادہ ہو گئے اور انہوں نے
پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ ناراض اراکین میں سے ایک کا شکوہ صرف یہ تھا کہ ضلع ہنگو کے ڈی پی او نے اس کے ایک رشتہ دار کے ساتھ ناانصافی کی ہے‘ اس لیے اسے عہدے سے ہٹا دیا جائے تو پارٹی کا پابند رہے گا۔ حالات نازک تھے، ایک ایک ووٹ قیمتی تھا۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور سپیکر اسد قیصر نے مشورے سے آئی جی کو فون کیا کہ ہنگو کے ڈی پی او کو کہیں اور لگا دیا جائے۔ آئی جی نے جواب دیا: ''سر، ڈی پی او کی تبدیلی آپ کے اختیارات میں آتی ہے لیکن اس وقت سیاسی وجوہ کی بنیاد پر ایک ڈی پی او کا تبادلہ صوبے کی پولیس میں سیاسی مداخلت کا دروازہ کھول دے گی، اگر آپ تبادلہ ہی چاہتے ہیں تو پھر سینیٹ کے الیکشن کے بعد آپ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی‘‘۔ وزیر اعلیٰ اور سپیکر نے آئی جی کا مشورہ مان لیا‘ اور اس ناراض رکن کو سیاسی طور پر ہی راضی کر لیا۔
ابھی اگلے روز پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران کے جلو میں بیٹھے صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ کیسے پولیس نے سانگلہ ہل میں ہونٹ سیے جانے اور حافظ آباد میں ہاتھ کاٹے جانے کے واقعات کے اصل محرکات کا سراغ لگا کر انہیں غلط ثابت کیا۔ وزیر موصوف کے دعوے سنتے ہوئے خیال آ رہا تھا کہ جو پولیس وزیروں کے کہنے پر ضمنیا ں لکھ سکتی ہے، صحیح تفتیش کرنے والے کو سزا دے سکتی ہے، عدالتوں کو گمراہ کر سکتی ہے، اس کی تحقیقات کو کون مانے گا؟