مظفر آباد میں آزاد جموں وکشمیر اسمبلی کے سامنے والے چوک میں دنیا ٹی وی کے الیکشن کارواں کی گاڑیوں کے گردمختلف سیاسی جماعتوں کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور میں مائیک ہاتھ میں لیے آزاد کشمیر کے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں اور سیاسی کارکنوں سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کررہا تھا۔ سیاسی کارکنوں کا جمگھٹا ہو اور نعرے نہ لگیں یہ ممکن نہیں۔سو ہر پارٹی کے کارکن اپنے لیڈر کے کسی جملے کی داد دینے کے لیے نعرے لگاتے ، لیڈر فاتحانہ نظروں سے ایک بار مجھے اور پھر کیمرے کو دیکھ کر دوبار گفتگو کرنے لگتے۔ ایک طرف سے الزام لگتا تو دوسری طرف سے صفائی کے ساتھ ایک نیا الزام بھی لگا دیا جاتا۔ سیاسی کارکنوں کے درمیان عام لوگ بھی کھڑے تھے جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے اور میں جس کی طرف مائیک کا رخ کرتا وہ اپنے سامنے کھڑے امیدواروں کے سامنے مظفرآباد شہر کا کوئی مسئلہ رکھ کر جواب کا تقاضا کرتا۔ تقریبا ًایک گھنٹے کے پروگرام میں شہرمیں صفائی سے لے کر بجلی تک ہر معاملے پر گفتگو ہوچکی تو خیال آیا کہ اب تک کسی نے تحریک ِ آزادی ٔکشمیر پر کچھ نہیں کہا۔ ایک سیاسی کارکن سے پوچھا کہ اتنے اہم مسئلے کو الیکشن میں نظر انداز کیوں کیا جارہا ہے تو اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا''اس مسئلے پر تو پاکستانی حکومت ہی بات کر سکتی ہے، الیکشن میں ترقی کے وعدے اور دعوے ہی لوگ غور سے سنتے ہیں‘‘۔
مظفرآباد سے سری نگر جانے والی سڑک پر واقع ہٹیاں بالا شہر پہنچے اور پیر سکندر شاہ ؒ کے مزار کے احاطے میں سیاسی میلہ لگ گیا۔ یہاں بھی ایک دوسرے پر الزام تراشی ہوئی، ترقی کے وعدے کیے گئے، کارکردگی کے دعوے ہوئے لیکن آزادیٔ کشمیر کا ذکر نہیں ہوا۔ پروگرام ختم ہوا تو مسلم لیگ ''ن‘‘، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے چند سیاسی کارکنوں کے ساتھ دریائے جہلم کے کنارے ایک ریستوران میں آ بیٹھے۔ میں نے مظفر آباد اور ہٹیاں میں لوگوں کی گفتگو سے جو تاثر لیا تھا وہ سوال کی صورت میں ان کے سامنے رکھ دیا۔ بغیر کسی ردوقدح کے ان مختلف الخیال کارکنوں نے میرے اس تاثر کی متفقہ طور پر تائید کی اور اسے آج کی سیاسی حقیقت قراردے کر بات ختم کردی۔
بات ختم ہوگئی مگر سوال قائم تھا ۔ ہٹیاں بالا سے واپس مظفرآباد آئے اوراگلی صبح وادی ٔ نیلم کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ٹیٹوال کے مقام پر دریائے نیلم کے دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کی آبادی پر نظر پڑی جہاں ویرانی چھائی ہوئی تھی جبکہ ہماری طرف سڑک پر گاڑیاں بمپر سے بمپر جوڑے چل رہی تھیں۔ یہ وہی سڑک ہے جو 2003ء تک بھارتی فوج کی وحشیانہ فائرنگ کا نشانہ بنی رہی ہے۔ اس کا شاید ہی کوئی مقام ایسا ہو جہاں گولیوں کے نشان نظر نہ آئیں۔ مگر لائن آف کنٹرول پر جنرل مشرف نے 2003ء میں بھارت کے ساتھ فائر بندی کا جو معاہد ہ کیا تھا اس کے نتیجے میں اس علاقے میں سکون آیا اور اس قدر آیا کہ اب گرمیوں کے موسم میں پاکستان بھر کے سیاح یہاں سے گزر کر وادی ٔنیلم کی جادوئی خوبصورتی سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ اَٹھ مقام میں بھی شور مچاتے دریائے نیلم کے کنارے مقامی سیاسی کارکنوں سے بات ہوئی تو میں نے اپنا سوال ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ ان سب نے مختلف الفاظ میں جواب ایک ہی دیا جس کا
خلاصہ یہ تھا کہ زندگی کے تلخ حقائق یہ ہیں کہ یہ علاقہ جنگ کی وجہ سے خالی ہوچکا تھا اب بیس سال بعد دوبارہ آباد ہورہا ہے ، سیاحوں کی آمد سے انہیں روزگار مل رہا ہے،نئے نئے ہوٹل بن رہے ہیںاور یہ سب کچھ امن کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے، وہ امن جو فائر بندی کے معاہدے کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے۔مجلس میں موجود ایک پروفیسر صاحب نے ایک پہاڑی چوٹی کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہاں سے سرنگ نکل جائے تو اَٹھ مقام اور گلگت کے درمیان براہ راست سڑک بن سکتی ہے جو گلگت سے راولپنڈی تک کی مسافت کو چھ سات گھنٹے کم کر دے گی۔ ایک صاحب تو اتنے جذباتی ہوئے کہ کہنے لگے ، '' ہم نے پندرہ سال بھارتی بندوقوں سے نکلنے والی آگ اپنے سینوں پر برداشت کی ہے، ہمیں معلوم ہے کہ جنگ کیا ہوتی ہے، یہ ہم جانتے ہیں کہ سڑک بند ہوجانے پر زندگی کیسے رک جاتی ہے، ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم سیز فائر کے معاہدے کے نگران ہیں اور کسی کو اس کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے‘‘۔
اٹھ مقام سے نکلے اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم کے گاؤں دھیر کوٹ سے ہوتے ہوئے باغ جا پہنچے۔ باغ میں بھی سیاحت، ترقی ، سکول اور سڑکوں پر وہی تقریریں سنیں جو مظفرآباد، ہٹیاں اور نیلم میں سنی تھیں۔ یہاں سے فارورڈ کہوٹہ کاقصد کیا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک پرسات گھنٹے سفر کر کے پہلے پلنگی اور پھر فارورڈ کہوٹہ پہنچے تو دونوں جگہ ایک ہی بات سنی۔ یہاں کا ہر باسی لَس ڈنہ اور تولی پیر کے خوبصورت پہاڑوں کی طرف اشارہ کرکے کہتا، ''ہم چاہتے ہیں یہاں سیاح آئیں، یہاں ہوٹل بنیں، لوگوں کا روزگار کھلے ، ہم تو اسی کو ووٹ دیں گے جو باغ سے یہاں تک پکی سڑک بنائے گا، برسات میں بے قابو ہوجانے والے ندی نالوں پر پل بنائے گا، جب آزاد کشمیر میں امن ہوگا، روزگار ہوگا تو مقبوضہ کشمیر کے لوگ خودبخود ہم سے آ ملیں گے‘‘۔
آزاد کشمیر کے چھ شہروں میں لوگوں کے خیالات سنے تو پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت یاد آئے ۔ اپنے دورِ سپہ سالاری میں انہوں نے کراچی میں کہا تھا کہ قومی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے جنوبی اور شمالی علاقوں کے لوگوں کے خیالات الگ الگ ہو چکے ہیں۔ان کی رائے کی اصابت اس وقت سامنے آئی جب کئی سال بعد نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان میں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں آگ لگ گئی جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ان دونوں واقعات نے صرف بے چینی ہی پیدا کی۔ اب ان دونوں واقعات کے کئی سال بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ قومی سلامتی کے بارے میں ملک کے جنوبی علاقے ہی مختلف انداز میں نہیں سوچتے بلکہ سوچ کی یہ تبدیلی اب ملک کے شمال میں بھی رونما ہورہی ہے۔ لوگ باہر کے مسائل سے پہلے اندر کے مسائل حل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں،وہ خیالات و نظریات جن کی بنیاد پر ہم نے اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں استوار کررکھی ہیں، عوام ان سے لا تعلقی اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔دانشوروں سے چھپ کر عوام نے قومی سلامتی کے بارے میں ایک خالصتًا دیسی قسم کا بیانیہ ترتیب دے لیا ہے جو اس بیانیے سے بالکل مختلف ہے جس کی تبلیغ حکومتی و ریاستی ادارے آج تک کرتے رہے ہیں۔
خیر ، دنیا نیوز کا الیکشن کاررواں پیر پنجال کی ترائیوں سے راولا کوٹ آ پہنچا۔ یہاں دیکھا کہ آزادیٔ کشمیر اور جہادِ کشمیر کی سب سے بڑی مؤید جماعت ِاسلامی کے ذمہ داران و کارکنان بھی سڑکوں، پلوں اور سیاحتی سہولیات کے بارے میں وہی باتیں کررہے تھے جو وادیٔ نیلم اور فارورڈ کہوٹہ کے دور افتادہ علاقوں میں بیٹھے لوگ کر رہے تھے۔ جموں کشمیر پیپلزپارٹی کے لوگ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے، مسلم لیگ ''ن‘‘ کے کارکن ان ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بتا رہے تھے جو ان کے قائد نے آزادکشمیر کے لیے سوچ رکھے ہیںاور تحریک انصاف کے نوجوان بھی راولا کوٹ کوسیاحوں کے لیے مزید پرکشش بنانے کے لیے اپنی رائے دے رہے تھے۔ یہا ںبھی رات کو صحافی اور سیاستدان مل بیٹھے ، میں نے پھر تحریک آزادیٔ کشمیر کی بات چھیڑی۔ جماعت اسلامی والوں نے سر جھکا لیا، تحریک انصاف والوں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا، پیپلز پارٹی والوں نے بات کا رخ بدلا اور مسلم لیگ ''ن‘‘ والوں نے اس مجوزہ سڑک کا ذکر شروع کردیا جو راولا کوٹ راولپنڈی کے درمیان سفر آدھا کردے گی۔