ادارہ منہاج القران کے دفتر کے ایک کشادہ کمرے میںشیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری فروکش تھے اوراپنی تحریک قصاص کے خدو خال سے چند صحافیوں کو آگاہ کررہے تھے۔ وہ چھ اگست کو اپنے کارکنوں کی کارکردگی سے مسرور تھے اور بتا رہے تھے کہ بیس اگست کو یہ تحریک اپنے اگلے مرحلے میں داخل ہوجائے گی۔ علماء خواہ سیاستدان ہی کیوں نہ ہوں ، ان کی مجلس میں خاموش بیٹھنا ہی بہتر ہوتا ہے ، اگر کوئی سوال ہو تو وہ طالب علمانہ ہونا چاہیے نہ کہ صحافیانہ۔ میں خاموش ہی بیٹھا رہتا اگر شیخ الاسلام موجودہ حکومت گرادینے کی بات نہ کرتے۔ سوال کیا کہ گویا آپ ملک کے دستوری نظام سے بالا تر کوئی بندوبست چاہتے ہیں جو آپ کے نقطہء نظر سے احتساب کرے ، پھر آپ کی تجویز کردہ اصلاحات نافذ کرے اور اگر ممکن ہو تو انتخابات کا بھی تکلف کرلے؟ انہوں نے ایک لمحے کا توقف کیا اور پھر فرمایا: ''ملک میں جمہوریت، دستور اور قانون کی بالادستی کی حیثیت مذاق سے زیادہ کچھ نہیں، اس وقت دستور کی اگر کوئی حیثیت باقی ہے تو وہ محض ایک معطل دستاویز کے طور پر ہے۔ اگر دستور واقعی ملک کی سپریم اتھارٹی ہوتا تو پھر سانحہء ماڈل ٹاؤن میں چودہ افراد کے قتل کی ایف آئی آر کے لیے ہمیں در در کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑتیں، پھر تفتیش کے لیے دھرنا نہ دینا پڑتا اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود یہ کیس ایک عدالت سے دوسری عدالت تک نہ گھسٹتا رہتا‘‘۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اور سلسلہء کلام جاری رکھا، '' آپ جس دستور کی حاکمیت کی بات کرتے ہیں اس بارے میں ایک اور دلیل سن لیجیے اور وہ یہ کہ دنیا کے ہر دستور کی وجہ وجود عوام کو انصاف کی فراہمی
ہے، اگر کوئی دستور انصاف ہی فراہم نہ کرسکے تو پھر یہ رہے، نہ رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ ملک میں انصاف کے حصول کے لیے پہلا قدم 'آلِ شریف‘ کی حکومت کا خاتمہ ہے جو اپنے خاندان کے افراد کے سوا کسی کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتی‘‘۔ اپنی بات کی وضاحت میں جو واقعہ ڈاکٹر صاحب نے سنایا وہ دلچسپ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر وہ دھرنا دیے ہوئے تھے تو اسحٰق ڈار ان کے پاس آئے اور کہا: ''پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف آپ کی بتائی ہوئی جگہ پر قرآن اٹھا کر اپنی بے گناہی کا ثبوت دیں گے جبکہ نواز شریف میرے (اسحٰق ڈارکے) سامنے اپنی بے گناہی کا حلف اٹھائیں گے اور پھر میں آپ کے سامنے قرآن پر وہی حلف دہرا دوں گا، آپ اپنی ایف آئی آر میں سے ان دونوں کے نام نکلوادیں اور باقی جس کا چاہیں ڈلوا دیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کے پاس دوہزار چودہ کے دھرنے کے واقعات کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ اپنی ناکامی سے سیکھے ہوئے کئی سبق بھی موجود ہیں۔ان میں سے ایک سبق یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہی ان کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ رہے گا اور اس طرف ہونے والی کسی بھی پیشرفت کا نتیجہ موجود ہ حکومت کے سقوط کی صورت میں نکلے گا۔ اس نکتے کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے اپنی حکمت عملی یوں ترتیب دے رکھی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے پیروکار حکومت کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکل کا باعث بنتے چلے جائیں گے۔ انہیں تجربہ ہوچکا ہے کہ اپنی ساری قوت ایک جگہ مجتمع کرکے وہ زیادہ سے زیادہ ایک شہر کو جام کرسکتے ہیں لیکن دودو چار چار ہزار کی ٹولیاں منظم انداز میں چاہیں تو ملک کے تمام بڑے شہروں کو جزوی یا کلی طور پر جام کرسکتی ہیں، اس کا پہلا مظاہرہ وہ بیس اگست کو کرکے دکھائیں گے اور اس کے بعد بھی حالات نے ان کی مرضی کے مطابق پلٹا نہ کھایا تو وہ ایک قدم آگے بڑھ کر دوبارہ دھرنے کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ بہت جلد ملک میں ضربِ عضب کی طرح ایک ضربِ عدل آپریشن ہوگا اورماڈل ٹاؤن کے چودہ مقتولوں کا قصاص انہیں آئندہ دوماہ کے اندر اندر مل جائے گا۔ عرض کیا: اگر ایسا نہ ہوسکا اور دوہزار سترہ آگیا تو پھر کیا ہوگا۔ انہوں نے ایک گہری سانس لی ، حاضرین پر ایک نگاہ ڈالی اور مجھ پر نظر جما کر بولے، ''پھر پاکستان اور اس کے عوام پر خیرکا دروازہ بند ہوجائے گا، حکمران طیب اردوان بن کر اپنے حریفوں پر پل پڑیں گے اور پورے ملک میں پنجاب پولیس کا راج ہوگا‘‘۔
اگر ڈاکٹر قادری کو ان کا مطلوبہ انصاف مل جاتا ہے اور حکومت گرجاتی ہے تو کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب آج بھی وہی ہے جو دوہزار چودہ میں دنیا ٹی وی پر کامران شاہد کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کی زبان سے پھسل گیا تھا ، یعنی ایک ٹیکنو کریٹ حکومت جو کچھ عرصے تک ضرب ِ عدل کے ذریعے احتساب فرمائے گی اور پھر الیکشن ہوں گے۔ یہ وہ منزل ہے جہاں آکر طاہرالقادری اور عمران خان کے بظاہر الگ الگ نظر آنے والے راستے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قانونی طور پر نواز شریف یا شہباز شریف کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث کرنا ایک لاحاصل کوشش ہے ، اسی طرح خان صاحب جانتے ہیں کہ پاناما پیپرز پر بننے والے عدالتی کمیشن کی چھلنی جتنی بھی باریک کرلی جائے‘ نواز شریف با آسانی اس میں سے گزر جائیں گے اس لیے وہ اس معاملے کو بند کمروں میں طے کرنے کی بجائے سڑکوں پر اچھالنا چاہتے ہیں۔ان حالات میںانصاف اور احتساب کے نام پر خان و قادری کی الگ الگ نظر آنے والی دونوں تحریکیں اگست کے بعد اتنی قریب آجائیں گی کہ ایک طرف کے نعروں کا جواب دوسری طرف سے آیا کرے گا۔ آنے والے دو ماہ میں ضربِ عدل، قصاص، انصاف اور احتساب کا شور اتنا بڑھ جائے گا کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے گی۔
اتنے شور کا خوف ہی حکومت کے اوسان خطا کیے دے رہا ہے۔ اپنی گھبراہٹ کا ایک ثبوت تو اس نے پشاور میں امیر مقام کے ذریعے جلسہ کرکے دیا ہے جبکہ دوسرا ثبوت راولپنڈی میں حنیف عباسی کے ذریعے جلسہ کرکے دے گی‘ حالانکہ حکومت کے پاس خود کو اور اس نظام کو بچانے کے لیے مناسب عوامی حمایت کے علاوہ آصف علی زرداری کی طاقت بھی موجود ہے۔ ان کے ملک سے باہر قیام کو جو لوگ خوف کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں وہ انہیں جانتے ہی نہیں۔ سینوں میں چھپی باتیں جب تاریخ کے صفحات پر آئیں گی تو معلوم ہوگا کہ سابق صدر نے کس طرح دور بیٹھ کر ملک کے جمہوری نظام پر ہونے والے حملوں کو ناکام بنایا ہے۔اس نظام کی بقا کا چراغ ہاتھ میں لیے تیز ہواؤں میں وہ ایک ایسی تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں جسے ان کے مخالفین مسلسل کاٹنے کی کوشش میں ہیں لیکن وہ نظریں اپنے مقصد پر جمائے قدم قدم آگے بڑھ رہے ہیں ۔وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جلسے جلوسوں سے حکومتیں گرتو سکتی ہیں بچائی نہیں جاسکتیں۔انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اکتیس اگست دوہزار چودہ کو جب قصاص والے اور احتساب والے ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم اور پارلیمان پرچڑھ دوڑے تھے تو ایک ٹیلیفون کال کے ذریعے کی گئی ''درخواست ‘‘ نے اس چڑھے ہوئے طوفان کے راستے میں بند باندھ دیا تھا۔اور اب کی بار خطرہ صرف یہ ہے کہ حالات اسی نہج پر پہنچے تو اس طرح کی کوئی کال نہیں آئے گی اور آ بھی گئی تو کوئی بند نہیں باندھ سکے گی۔