انیس سو چون میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت اگر سیاسی طور پر کمزور نہ ہوگئی ہوتی تو کیا جسٹس منیر ان کی اور اسمبلی کی برطرفی کو قانونی قرار دینے کے لیے نظریہ ضرورت کا سہارا لے سکتے تھے؟ اگر ملک میں مارشل لاء کے خلاف بڑی سیاسی تحریک موجود ہوتی تو اعلیٰ عدلیہ جنرل یحییٰ خان کے خلاف فیصلہ ان کے اقتدار سے باہر جانے کے بعد تک روک سکتی تھی؟ اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی برطرفی کے خلاف کوئی بڑی سیاسی جدوجہد شروع کرسکتے تو کیا عدالت انہیں پھانسی پرچڑھا سکتی تھی؟ انیس سو نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اپنی اپنی اسمبلیوں کی برطرفی کے خلاف کوئی بڑی تحریک برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے تو ان کی اسمبلیاں ٹوٹ سکتی تھیں؟ اگر نواز شریف انیس سو ننانوے میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوجاتے تو کیا عدلیہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو جائز مان کر تین سال کے لیے ہر اختیار سے لیس کر سکتی تھی؟ کیاچیف جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی کالعدم قرار دی جاسکتی تھی اگر چودھری اعتزاز احسن چیف جسٹس کو لے کر سڑکوں پر نہ آجاتے؟ معاف کیجیے گا ، اگر عمران خان دھرنا دے کر نہ بیٹھ جاتے تو کیا عدلیہ ایک کمیشن کی صورت میں دوہزار تیرہ کا الیکشن دوبارہ کھولتی؟ میں پاکستان کے دستور و قانون پر یقین رکھنے والے شہری کی حیثیت سے دست بستہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ اگر اسلام آباد کو بند کرنے کی کوشش نہ کی جاتی تو پاناما پیپرز کیس کی عدالت میں سماعت ممکن تھی؟ سوال پر سوال کرنے پر میں ایک بار پھر معافی چاہتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف پر غیر ملکی فنڈز لینے کے الزام میں حکومت کی بجائے کوئی عام آدمی مدعی ہوتا تو یہ کیس اسی رفتار سے چلتا ؟ پاکستان کی سیاسی و عدالتی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کے بعد ان 9 سوالات کا یک لفظی جوا ب ہے ''نہیں‘‘ ۔ اگر اس یک لفظی جواب کو درست مان لیا جائے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جب عدالتیں سیاستدانوں سے متعلق یا ان کے اٹھائے ہوئے تنازعات پر کوئی فیصلہ صادر کرتی ہیں تو ان کے سامنے وکیلوں کے قانونی دلائل کے علاوہ بعض حقائق بھی ہوتے ہیں ‘ جو اکثر اوقات دلائل پر غالب آجاتے ہیں۔
سیاسی طاقت کے ذریعے عدلیہ کو متاثر کرنے کی کوشش دنیا بھرکے سیاستدانوں کا مستققل وتیرہ ہے، اس کی مثال کے لیے بھارت کو ہی دیکھ لیجیے کہ کس طرح بابری مسجد کا کیس دہائیوں تک سپریم کورٹ میں زیرسماعت رہا مگر انتہا پسند ہندوؤں کی شورہ پشتی کی وجہ سے اس کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ اسی طرح سندھ ہائیکورٹ نے جب بارہ مئی دوہزار سات کو کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی محض انکوائری کرنے کی کوشش کی تو کس طرح ایم کیو ایم نے اپنے ہزاروں کارکنوں کو ''بیان‘‘ ریکارڈ کروانے کے لیے بھیج کر ابتدائی سماعت کو ہی ناممکن بنا دیا۔ نومبر 1997ء کاوہ دن بھی تو نہیں بھلایا جاسکتا ہے جب چیف جسٹس پاکستان سید سجاد علی شاہ اس وقت کے صدر فاروق لغاری کی محبت میں ایک متفقہ دستوری ترمیم منسوخ کرنے کی کوشش میں سپریم کورٹ کو سیاسی کارکنوں کے نشانے پر لے آئے تھے۔ عدلیہ کو منفی طور پر متاثر کرنے کی ان مثالوں کے علاوہ دنیا بھر کے قانونی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ آزاد ترین عدلیہ بھی عوامی رائے سے ہٹ کر فیصلے دینے سے گریزہی کرتی ہے ۔ 2009ء میں دستور اور عدلیہ کے ماہر پروفیسر بیری فریڈ مین نے تو اپنی ایک کتاب میں اعدادوشمار کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے عوامی دلچسپی کے مقدمات پر وہی فیصلے دیے ہیں جو عوام کی توقعات کے عین مطابق تھے۔ اسی طرح پاکستان میں پاناما پیپرز کے معاملے کو ہی دیکھ لیجیے، پچھلے سال جو ن میں گیلپ نے اس مسئلے پر سروے کرایا باسٹھ فیصد لوگوں نے اس معاملے پر نواز شریف کو وزارت عظمٰی سے ہٹانے کے مطالبے کو رد کردیا ۔ اس سروے کے چار مہینے بعد پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی اورجب فیصلہ آیا تو حیرت انگیز طور پر ساٹھ فیصد (پانچ میں سے تین) ججوں نے وزیراعظم کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا لیکن چالیس فیصد (پانچ میں سے دو) نے انہیں ہٹادینے کا فیصلہ دے ڈالا۔ یقینا ، یقینا سپریم کورٹ کے پانچوں جج صاحبان نے اپنے اپنے فیصلے کی قانونی بنیادیں بڑی عالمانہ شان سے قائم کی ہیں مگر عوامی رائے کی پیمائش سے ہم آہنگ فیصلے کا آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ پاناما پیپرز کے کیس قانون کی کسوٹی پر کھرا یا کھوٹا قرار نہیں دیا جاسکتا تھا بلکہ اس کے سیاسی پہلؤوں کو سامنے رکھ کر ہی کسی نتیجے تک پہنچا جاسکتا تھا ۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے عدالتو ں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روایت نئی نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اپنے حریفوں کو سیاسی طور پر زیر نہیں کرسکتی تو''عوامی مفاد‘‘ کے تحفظ کے لیے عدالت پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے سیاستدان اپنی کمزوری عدالت کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا مارشل لاء کے مقابلے میںعوام کو منظم نہ کر سکنے کی شرمندگی میں عدالت کو شامل کرکے اپنے منہ پر لگی کالک دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔پاناما کیس کو ہی دیکھ لیجیے جب تحریک انصاف نے خود کو ن لیگ کی حکومت کے سامنے کمترپایا تو اپنی بندوق عدالت کے کندھے پر رکھ کر چلانے کے لیے سپریم کورٹ جا پہنچی اور وہاں اپنا مقدمہ دلائل سے نہیں بلکہ جلسے جلوسوں کے ذریعے لڑنے کی کوشش کرتی رہی۔ بالکل اسی طرح جب حکومت نے اپنی سیاسی قوت کو عمران خان کے مقابلے کے لیے ناکافی سمجھا تو ان کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ اور اثاثے چھپانے جیسے لایعنی مقدمات عدالت میں لے آئی اور اپنے مقدمے جلسے جلوسوں اور ٹی وی پروگراموں کے زور پر لڑنے میں سرگرم ہے۔ گویا عمرا ن خان نے عدالت کے ذریعے حکومت پر جو وار کیا تھا اب حکومت چاہتی ہے کہ اسی طرح کا وار عدالت عمران خان پر بھی کرے تاکہ ''انصاف کے تقاضے ‘‘ پورے ہوسکیں۔اپنی سیاسی لڑائی میں عدالتوں کو گھسیٹتے ہوئے یہ دونوں جماعتیں بھول رہی ہیں کہ ان کے چکر میں خود عدلیہ کا احترام و وقار بھی خطرے میں پڑتا جارہا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں سامنے کی بات بھی نہیں سمجھ پا رہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت ایک مؤثر سیاسی تحریک کے سامنے نہیں ٹھیر سکتی ہے نہ دنیا کی کوئی عدالت کسی کمزور سیاسی جماعت کو حکومت دلوانے میں کوئی مدد کرسکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی لڑائی عوام کے ووٹوں کے لیے ہوتی ہے اور ووٹوں کے ذریعے ہونے والے فیصلے سے ہی ختم ہوتی ہے۔
چلیے پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر ہم نا پختگی کا حکم لگا کر انہیں کچھ رعایت دے لیتے ہیں لیکن اپنے عدل وانصاف کے اعلیٰ ترین اداروں کے بارے میں ناپختگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔سیاسی جماعتیں تو یہ تاریخی حقیقت سمجھنے کے قابل نہیں کہ مارشل لاؤں اور اسمبلیوں کے توڑنے کے خلاف عدالتیں اس لیے فیصلہ نہیں دے سکیں کہ اکثر اوقات عوام کے نام پردائر ہونے والے ان مقدمات کے مدعی دلیل کے طور ایک رکشے میں پورے آسکنے والے عوام بھی اپنے ساتھ نہیں لاسکے۔ البتہ انصاف کے بلند ترین ایوان میں بیٹھے ہوئے قانون دانوں کی توجہ کے لیے اتنا ضرور عرض کرسکتے ہیں کہ ایسے مقدمات جن میںمدعی اور مدعا علیہ عدالتی فیصلے کے ذریعے قانونی نکات کی تشریح کی بجائے سیاسی نتائج کے خواہش مند ہوں تو عادل ترین منصف بھی خود کومتنازعہ ہونے سے نہیں بچا سکتا لہٰذا ضروری ہے کہ کچھ مقدمات کو ہر گز نہ سنا جائے۔ کیا ہمارے منصفوں کو عجیب نہیں لگتاکہ ماضی میں سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف فوج کو آواز دیا کرتے تھے مگراب پٹیشن لے کر اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں؟