"HAC" (space) message & send to 7575

بالادستی یا توازن

نواز شریف دنیا کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو تین بار منتخب ہوئے اور تینوں بار اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی ہٹا دیے گئے۔ دلچسپ بات ہے کہ نواز شریف ان تینوں طریقوں سے ہٹائے گئے جو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اب تک دریافت ہوئے ہیں۔ پہلی بار انہیں صدر مملکت نے اسمبلی توڑنے کا اختیار استعمال کرتے ہوئے برطرف کیا اور یہ وہی طریقہ تھا جس کے ذریعے گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت، اسکندر مرزا نے کئی حکومتیں اور غلام اسحٰق خان نے دو حکومتیں ختم کی تھیں۔ دوسری بار ایک فوجی آمر نے بندوق کے زور پر ان کا تختہ الٹا اور اس طریقے کے تحت جنرل ایوب خان نے فیروز خان نون اور جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے چلتا کیا تھا۔ آخری بار ان کی سبکدوشی عدالت کی طرف سے نااہلی کی صورت میں ہوئی اور یہ طریقہ ان سے پہلے صرف یوسف رضاگیلانی پر آزمایا گیا۔ ان کے اور یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں فرق بس اتنا ہے کہ گیلانی کی نااہلی ختم ہونے والی ہے جبکہ نواز شریف تاحیات نااہل قرار پائے ہیں۔ 
اسے ستم ظریفی کہیے یا کچھ اور کہ پاکستان کے ہر دستور میں وزیراعظم کو اس کی مرضی کے بغیر عہدے سے ہٹانے کا صرف ایک ہی طریقہ درج رہا ہے اور وہ ہے عدم اعتماد، لیکن کوئی ایک وزیراعظم بھی اس طریقے سے اپنے عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکا۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی قوتوں نے وزرائے اعظم کو ہٹانے لگانے کا جونظام بنایا تھا وہ اتنا کارگر رہا کہ بعد میں آنے والوں کو اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ جنرل ضیاء الحق نے اس مؤثر طریق
کار کو اٹھاون ٹو بی کی صورت میں دستور کا حصہ بنا دیا تھا جس کے ذریعے صدر کو یہ اختیار حاصل ہوگیا تھا کہ وہ جب چاہے قومی اسمبلی توڑ دے۔ نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں دستور کی یہ شق ختم کردی اور اس کے بعد انہیں ہٹانے کے لیے آمریت کا راستہ اپنایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے عدالتی نظرثانی کی شرط کے ساتھ ایک بار پھر اسمبلی توڑنے کی شق دستور میں شامل کی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے نواز شریف کی مدد سے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے یہ شق دوبارہ ختم کردی۔ یہ ترمیم آٹھ اپریل دوہزار دس کو منظور ہوئی تو وزیراعظم کو نکالنے کے لیے دستور کے اندر سے ہی نااہلی کا راستہ دریافت ہوا اور اٹھارویں ترمیم کے ٹھیک دو سال اٹھارہ دن بعد یعنی چھبیس اپریل دوہزار بارہ کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت میں تیس سیکنڈ کی سزا پاکر نااہل ہوگئے۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اس وقت کی حکومت اور پارلیمنٹ نے تھوڑا بہت شور مچا کر قبول کرلی مگر نواز شریف کی نااہلی سے پیدا ہونے والی سیاسی بے چینی کم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اگرچہ یہ فیصلہ بھی حکمران جماعت نے مان لیا ہے اور نواز شریف کی جگہ شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ بھی سنبھال لی ہے لیکن اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے راہنماؤں کے لہجے کی تلخی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ تلخی اور اس فیصلے کے بعد نواز شریف کا دوبارہ عوام میں جانے کا قصد یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ان کی نااہلی کو اہلیت میں بدلنے کا کوئی راستہ عدالت میں نظرثانی کی درخواست سے نہ نکلا تو آئندہ الیکشن سے پہلے نیب قوانین میں تبدیلی کرکے عدالتی حکم پر دائر ہونے والے ریفرنسز کا راستہ روکا جائے گا اور الیکشن کے فوری بعد پارلیمنٹ دستور میں ترمیم کرکے بھی نواز شریف کی نااہلی کو اہلیت میں بدل ڈالے گی۔
نیب کے قانون اور دستور میں ترمیم کا ماحول بنانے کے لیے نواز شریف کے ساتھی کھلے دل سے ''منتخب قیادت کی بالا دستی‘‘ اور''جوڈیشل مارشل لائ‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اصطلاحیں شاید اس لیے استعمال کی جا رہی ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی کو قانونی معاملہ قرار دینے کی بجائے سول ملٹری تعلقات کی پیچیدگیوں سے جوڑا جا سکے۔ یہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کا اثر ہے یا کوئی سوچ سمجھی حکمت عملی کہ نواز شریف بھی دبے لفظوں میں یہی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک عدالتی معاملے کو سول ملٹری معاملات سے جوڑ دینا بظاہر بے محل معلوم ہوتا ہے لیکن حکمران جماعت کی طرف سے یہ بات بار بار دہرائی جائے گی تو اس بات میں وزن بھی پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ معلوم نہیں اس کا سیاسی فائدہ نواز شریف کو کتنا پہنچے گا مگر یہ طے ہے کہ اس کا نتیجہ عدلیہ، فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان کشیدگی کی صورت میں سب کو نظر آئے گا۔ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے پھر یہ کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہوگا کہ ملک کے یہ تینوں ادارے آنے والے دنوں میں کسی ایسی صورتحال میں الجھ جائیں جس سے نکلنا کسی کے لیے بھی آسان نہ رہے۔ نواز شریف نے اپنی نااہلی کے سخت ترین فیصلے کے بعد خود پر قابو رکھتے ہوئے جس انداز میں اپنی جگہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنا کرملکی نظام کو ہموار رکھا ہے، اس سے ان کے سیاسی قدوقامت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اپنے اس قدوقامت کے ساتھ جب وہ کوئی بات کریں گے تو اس کے اثرات بھی ہمہ گیر ہوں گے۔ اس لیے اپنی آئندہ کی حکمت عملی بناتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کے ہر سیاسی اقدام کا موجودہ جمہوری نظام پر مثبت یا منفی اثر بھی ہوگا۔ ان کے اردگرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو انہیں اپنی مقبولیت کے ذریعے نظام پر دباؤ ڈالنے کا مشورہ دیں گے، یہ لوگ اپنے خیالات کو مزاحمت، تحریک اور آدرش جیسے خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر انہیں فوج اور عدلیہ سے تصادم کے راستے پر لے جانا چاہیں گے۔ خدانخواستہ نواز شریف نے یہ راستہ اختیار کر لیا تو سول بالادستی کا خواب تو کیا پورا ہوگا خود دستور کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ 
نواز شریف کے سامنے دوسرا راستہ اعتدال کا ہے۔ اگر وہ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو پھر انہیں بالا دستی نہیں توازن کی بات کرنا ہوگی۔ جمہوری نظام میں کسی بھی ادارے کی بالادستی ایک سراب ہے اور اداروں کے درمیان توازن ایک حقیقت۔ بالادستی انفرادی شان و شوکت کا نام ہے اور توازن افہام و تفہیم کا۔ منتخب انتظامیہ کی عدلیہ اور فوج پر بالا دستی ایک کتابی بات ہے، دنیا بھر کی جمہوریتیں اب توازن کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ریاست کے مختلف بازوؤں کے درمیان توازن اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے اور یہ توازن دستور کی کسی شق سے نہیں بلکہ ریاستی عہدیداروں کی تجربہ کاری سے پیدا ہوتا ہے۔ نواز شریف نے اپنے سابقہ ادوارِ حکومت کے برعکس حالیہ چار سال کے اقتدار میں ریاست کے تمام اداروں میں بڑی حد تک وہ توازن قائم کردیا تھا جس کے تلاش میں ہم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سرگرداں ہیں۔ نواز شریف نے دو ہزار تیرہ کے الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے ملک میں ایک ایسے مکالمے کی ضرورت پر زور دیا تھا جس میں فوج، عدلیہ، سیاستدان، میڈیا اور سول سوسائٹی شامل ہوں۔ اس مکالمے کے ذریعے پاکستان کے سیاسی نظام کو رواں دواں رکھنے کے لیے سو چ بچا کرکے مستقل راستے کا تعین کیا جائے۔ وزیراعظم رہتے ہوئے تو وہ اس مکالمے کی ابتدا نہیں کر پائے، اب پھر وہ اس مکالمے کی اہمیت اپنے ملنے جلنے والوں پر اجاگر کرنے لگے ہیں۔ بے شک یہ مکالمہ ہونا چاہیے اور نواز شریف کو ہی اس کی ابتدا کرنی چاہیے لیکن اس طرح کے مکالمے کا ماحول پیدا کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ للکارتے، پکارتے ساتھیوں اور تلخ لہجے میں کی جانے والی تقریروں سے وہ یہ مقصد کبھی حاصل نہیں کرپائیں گے۔ نواز شریف کو یاد رکھنا ہوگا کہ دستور ی نظام کو چلتا رکھنے کی ذمہ داری نااہل ہو جانے کے بعد بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ نااہلی کی وجہ سے وہ بڑے لیڈر بن کر ابھرے ہیں اپوزیشن لیڈر نہیں کہ جس اس کی دل میں جو آئے کرتا یا کہتا چلا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں