"HAC" (space) message & send to 7575

چودھری نثار اور مریم نواز

یہ پچھلے مہینے کی سات تاریخ کا ذکر ہے کہ نواز شریف نے کچھ صحافیوں کو اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں مدعو کر رکھا تھا۔ اصل میں تو وہ سپریم کورٹ سے اپنی نااہلی کے فیصلے پر گفتگو کر رہے تھے مگر بات گھومتی گھامتی لاہور کے حلقہ این اے ایک سو بیس تک پہنچ گئی جو ان کی نااہلی کے بعد خالی ہو گیا تھا۔ وہ لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے اس حلقے کے ووٹر کے رجحانات کے بارے میں چھوٹے چھوٹے سوال کر رہے تھے۔ اچانک انہوں نے سوال کیا ''آپ سب کے خیال میں این اے ایک سو بیس کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کا امیدوار کسے ہونا چاہیے‘‘۔ ان کا سوال کسی ایک شخص سے نہیں بلکہ کمرے میں بیٹھے پندرہ صحافیوں سے تھا۔ اس سوال کے جواب میں ہم سب نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر نواز شریف کی طرف دیکھا اور خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ چند لمحے خاموشی کے گزرے تو اسلام آباد کی ایک خاتون صحافی نے مریم نواز کا نام لیا‘ اور کہا کہ مریم گزشتہ چار برسوں سے آپ کی معاون کے طور پر کام کر رہی ہیں‘ اس لیے انہیں انتخابات کے میدان میں اتارنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ مریم نواز نے، جو اسی کمرے کے ایک گوشے میں پرویز رشید کے ساتھ بیٹھی تھیں، اس خاتون صحافی کی تجویز سن کر خلا میں تکنا شروع کر دیا۔ ہم سب نواز شریف کو دیکھ رہے تھے جنہوں نے اس تجویز پر ہونٹ بھینچ لیے اور کوئی ردعمل دینے سے گریز کیا۔ کسی نے کلثوم نواز کا نام لیا تو ان کے چہرے کے عضلات کچھ ڈھیلے ہوئے مگر کوئی جواب پھر بھی ان کی طرف سے نہیں آیا۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد سوال ہوا کہ 'کیا کلثوم نواز کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے‘ تو انہوں نے کوئی واضح جواب دینے کی بجائے صرف یہ کہا، ''ابھی اس پر مشاورت ہو رہی ہے‘‘۔ جب یہ مجلس اختتام کو پہنچی تو باہر نکلتے ہوئے مجھے سو فیصد یقین تھا کہ این اے ایک سو بیس سے کلثوم نواز الیکشن لڑیں گے‘ اور گمان یہ تھا کہ مریم نواز آئندہ کچھ عرصے کے لیے پس منظر میں رہیں گی۔ اس گمان کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ میں مریم نواز کی بے تحاشا مخالفت کی جاتی ہے‘ اور نواز شریف فی الحال جلتی پر تیل چھڑکنے سے گریز کریں گے۔ کچھ وقت گزرا تو یقین درست ثابت ہو گیا اور گمان غلط۔ نواز شریف نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا، مریم نواز بھرپور طریقے سے اپنی والدہ کی الیکشن مہم چلانے کے لیے میدان میں اتر آئیں اور یوں اتریں کہ چودھری نثار علی خان کھل کر ان کے خلاف بول اٹھے۔ 
چودھری نثار علی خان کا مریم نواز کے سیاسی کردار پر اعتراض کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان اعتراضات کا اظہار وہ گزشہ تین سال سے کر رہے ہیں۔ پہلے پہلے یہ اعتراض انہیں ایوان وزیر اعظم میں قائم ہونے والے میڈیا سیل کے حوالے سے ہوا‘ اور جب نواز شریف بغرض علاج لندن گئے تو ان کی غیر حاضری میں مریم نواز نے جس انداز میں ذمہ داریاں نبھائیں اس سے اعتراضات میں بھی شدت آتی چلی گئی۔ ظاہر ہے اس طرح کی باتیں کسی نہ کسی طرح اقتدار کے محلات سے باہر آ ہی جاتی ہیں، سو یہ بھی آ گئیں اور یوں مریم نواز کا سیاسی کردار میڈیا کا موضوع بن گیا۔ جب ڈان لیکس سے پاناما لیکس تک میں مریم کا نام سامنے آیا تو چودھری نثار اور ان کے دوستوں کا خیال تھا کہ نواز شریف انہیں کوئی بڑا کردار دینے سے خود ہی گریز کریں گے۔ پاناما کیس کے فیصلے میں نواز شریف نااہل ہوئے تو مشاورت کی ایک مجلس میں کچھ لوگوں نے کھل کر مریم نواز کو قصوروار ٹھہرایا اور دلیل دی کہ ان کے میڈیا سیل کی وجہ سے پاکستان کی مقتدر قوتیں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف ہو گئیں اور نتیجے کے طور پر نواز شریف ایک بار پھر سڑک پر آ گئے ہیں۔ یہ لوگ پارٹی کے اندر اتنے طاقتور ضرور تھے کہ انہوں نے نواز شریف کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی بیٹی کو پس منظر میں لے جانے کا تاثر دیں۔ مریم نواز کو این ایک سو بیس کے ضمنی انتخاب میںکھڑا نہ کرنے کے فیصلے کی تہہ میں یہی سب کچھ کارفرما تھا‘ جسے نواز شریف بمشکل برداشت کر رہے تھے۔ جب کلثوم نواز کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ ہوگیا تو پارٹی کے اندر کچھ لوگوں نے اسے اپنی فتح گردان کر یہ مطالبہ بھی داغ دیا کہ مریم نواز اس حلقے میں انتخابی مہم بھی نہیں چلائیں گی۔ ایک موقع ایسا آیا کہ مطالبہ کرنے والے یہ سمجھنے لگے کہ ان کی بات مان لی گئی ہے۔ شاید یہ بات مان بھی لی جاتی اگر نواز شریف کو یہ یقین نہ ہوتا کہ ان کو عہدے سے ہٹانے والی قوتیں صرف انہیں ہی نہیں بلکہ ان کی بیٹی کو بھی سیاسی طور پر ٹھکانے لگانا چاہتی ہیں۔ سب کچھ سننے کے بعد انہوں نے بغیر کوئی اعلان کیے این ایک سو بیس کی انتخابی مہم مریم بی بی کے سپرد کی اور خود اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے باہر چلے گئے۔ ان کے علاوہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی ملک میں نہیں تھے‘ لہٰذا چند دن کے لیے ہی سہی مسلم لیگ ن مکمل طور پر مریم نواز کے دائرہ اختیار میں آ گئی۔ لاہور میں انہی دنوں پارٹی کے پروفیشنل ونگ کا کنونشن اسی اختیار کا مظہر تھا‘ جہاں مریم نواز زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جا رہے تھے۔ 
پرانے زمانے میں بادشاہ اپنے ولی عہد کو نوعمری میں ہی جنگوں میں جھونک دیا کرتے تھے کہ اگر فاتح رہیں تو تخت تک پہنچ جائیں گے، شکست کھائیں تو حق حکمرانی کھو دیں گے اور مارے جائیں تو قصہ ہی ختم ہو جائے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر ولی عہد کو تخت تک پہنچنے کے لیے آگ اور خون کا دریا پار کرنا پڑتا ہے، جو صرف اپنی ولدیت کی وجہ سے تخت تک پہنچا اسے حالات نے اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ این اے ایک سو بیس کا ضمنی انتخاب مریم نواز کے لیے اسی طرح کی ایک جنگ ہے۔ عام حالات میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کا جیت جانا معمول کی بات تھی مگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خود ہی اس حلقے کے انتخاب کو ''قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی فتح‘‘ کے فیصلے سے جوڑ کر اہم بنا دیا ہے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن ووٹ کا دفاع اور عوام کے حق حکمرانی کی بات کرتے ہوئے اس ضمنی انتخاب کو دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کا دیباچہ قرار دے رہی ہے۔ گویا سیاسی اعتبار سے اس حلقے کے نتائج غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ مریم نواز کو نہ صرف اس حلقے کی جنگ جیتنی ہے بلکہ بڑے فرق سے جیتنی ہے۔ اگر وہ اپنی پارٹی کے لیے مطلوبہ نتائج لے آتی ہیں تو ان کا سیاسی مستقبل بھی روشن ہو جائے گا‘ ورنہ ان کے راستے میں بہت سے کانٹے بکھر جائیں گے، جنہیں شاید نواز شریف بھی نہ چن سکیں۔ 
چودھری نثار علی خان اپنے مزاج کے اعتبا ر سے ایک انگلش نائٹ (knight) ہیں جسے اپنی صلاحیتوں کے مکمل اظہار کے لیے اپنے من پسند بادشاہ کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو افسانوی قسم کی مہمات اس کے سپرد کرتا رہے۔ نواز شریف دراصل چودھری نثار علی خان کے من پسند بادشاہ تھے جنہوں نے ان کے سپرد وزارت داخلہ کی مہم کی اور وہ نکھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے دہشت گردی کے عفریت کو زنجیریں پہنائیں، اندرونی سلامتی کے نظام کو بہتر بنایا اور بڑی حد تک دنیا کو یقین دلایا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے‘ جو اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی سکت بھی رکھتی ہے۔ شاید اپنی کامیابیوں کی وجہ سے یا اپنے دوستوں کے کہنے میں آ کر چودھری صاحب یہ نکتہ فراموش کر گئے کہ نائٹ کبھی بادشاہ نہیں بنا کرتے۔ ایک اچھا نائٹ آخر تک اپنے نائٹ ہونے میں ہی فخر محسوس کرتا ہے، جب اس کا بادشاہ نہ رہے تو وہ اگلے بادشاہ سے رہِ رسم بنانے کی کوشش کرتا ہے ورنہ گوشہ نشین ہو جاتا ہے، خود بادشاہ بننے کی کوشش نہیں کرتا۔ بادشاہی چودھری نثار کے بس کا کھیل ہے نہ ان کا مزاج۔ یوں بھی تخت بھلا شکوے شکایتوں سے ملا کرتے ہیں؟ صدیوں پہلے تخت تک پہنچنے کا راستہ تلوار کی دھار سے ہو کر گزرتا تھا، آج یہ ووٹ کے دریا سے گزرتا ہے جسے پار کرتے ہوئے بڑے بڑے لوگ ڈوب گئے ہیں۔ مریم نواز اس دریا میں اتر چکی ہیں، چودھری نثار بھی اتر کر دیکھ لیں۔ شکوے شکایتیں معزز نائٹ کا شیوہ نہیں ہوا کرتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں