"HAC" (space) message & send to 7575

عمران خان کے جلسے میں

گزشتہ اتوار شام کے پانچ بجے تھے اور مینار پاکستان میں تحریک انصاف کے جلسے کے لیے سجائے گئے سٹیج کے ساتھ ہی دو کنٹینر ملا کر میڈیا کے لیے بنائے گئے پلیٹ فارم پر کھڑا دنیا ٹی وی کا اینکر عبیداللہ صدیقی بار بار پوچھ رہا تھا کہ جلسے میں لوگ 2011ء کے مقابلے میں لوگ کتنے ہیں، لاہور کے ہیں یا باہر سے لائے گئے ہیں، پنڈال میں نابالغ بچوں کی اکثریت ہے یا سنجیدہ ووٹروں کی ۔ مجھے بھی اس پلیٹ فارم پر اس لیے کھڑا کیا گیا تھا کہ عبیداللہ جو سوال اٹھائے میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں۔ میں اس کے ہر سوال کا جواب دینے کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش بھی کر رہا تھا کہ عمران خان اب اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے جلسے کا حجم اہم نہیں ، یہ 2011ء سے چھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور کچھ بڑا بھی‘ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آج عمران خان کی تقریر کیا ہو گی۔ پاکستانی سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر میں سمجھ رہا تھا کہ اس جلسے کو عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز قرار دیا ہے اس لیے اس میں کرسیاں اور لوگ گننے کی بجائے‘ اسے عمران خان کے دعووں اور وعدوں کی روشنی میں پرکھنا چاہیے۔ مینار پاکستان کے سامنے کیے گئے ان کے وعدے ہی آئندہ انتخابی مہم کا دیباچہ ہیں اور ووٹر ان وعدوں کو خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومتی کارکردگی کے پیمانے پر پرکھ کر اپنا فیصلہ کر لے گا۔ اس جلسے میں عمران خان کو بتانا تھا کہ آئندہ عام انتخابات میں وہ پہلے کی طرح ابے تبے کرتے ہوئے نواز شریف اور زرداری پر حملے کرتے ہوئے اتریں گے یا خود کو مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر پیش کریں گے۔
صحافیوں کے لیے بنائے گئے مخصوص پلیٹ فارم سے اتر کر میں پنڈال میں گیا تو تحریک انصاف کے نوجوان کارکنوں نے گھیر لیا۔ سب نے امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ایک ہی سوال کیا کہ کیا آج کے جلسے میں چودھری نثار علی خان تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں؟ میں صاف انکار کر کے ان کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اڑتالیس گھنٹے پہلے گوجرانوالہ سے مسلم لیگ ن کے ایک رکن قومی اسمبلی اپنے طور پر چودھری نثار سے جا کر مل چکے ہیں۔ ان صاحب نے چودھری نثار علی خان سے صاف لفظوں میں پوچھا تھا کہ '' کیا آپ نے پارٹی چھوڑنی ہے‘‘ تو چودھری نثار علی خان نے اتنے ہی صاف لفظوں میں کہا تھا، ''ہرگز نہیں‘‘۔ جب نوجوانوں کا اصرار بڑھا تو میں نے بتا دیا کہ ایسا کچھ نہیں تو ان کے چہرے اتر گئے۔ بچے ایسے ہی ہوتے ہیں ایک کھلونا مل گیا تو خوش، ایک چھن گیا تو اداس۔ ان کی اداسی دور کرنے کے لیے میں نے انہیں بتایا کہ اگر تحریک انصاف اس وقت چودھری نثار علی خان کو اپنے ساتھ ملا لیتی ہے تو یہ اس کا نواز شریف پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ سب چونک گئے اور مجھ سے تفصیل پوچھنے لگے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ اگر اپنے سب سے بڑے مخالف کے کندھوں سے چودھری نثار کا بوجھ ہٹا کر تحریک انصاف والے اس کی مشکل آسان کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ ورنہ چودھری نثار علی خان اور نواز شریف کے درمیان اختلافات ہی مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ ظاہر ہے مسلم لیگ ن جتنی کمزور ہو گی اس کا فائدہ براہ راست تحریک انصاف کو ہوگا۔ یہ نکتہ نوجوانوں کی سمجھ میں آ گیا تو ان کے چہرے ایک بار پھر کھل اٹھے اور وہ جوش و خروش سے 'آئی آئی ، پی ٹی آئی‘ کے نعرے لگانے لگے۔ 
جلسہ گاہ ابھی بھری نہیں تھی۔ خالی جگہیں اور خالی کرسیاں دیکھ دیکھ کر منتظمین کو ہول اٹھ رہے تھے لیکن لوگوں کی مسلسل آمد سے کچھ تسلی بھی ہو رہی تھی۔ غالباً کسی سیانے کے مشورے پر جلسے میں میڈیا کے لیے ایک ہی جگہ متعین کرکے انتظام کر لیا گیا تھا کہ رپورٹر اور کیمرا مین اِدھر اُدھر پھر کر خالی کرسیاں نہ دکھاتے پھریں۔ آزاد میڈیا کے کیمروں کو بڑی حد تک محدود کرنے کے بعد دوسرا انتظام یہ تھا کہ جو کچھ اس دن ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا وہ خود تحریک انصاف کی فراہم کردہ فوٹیج تھی لہٰذا کوئی خالی جگہ ٹی وی پر نظر آ ہی نہیں سکتی تھی۔ خیر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جلسے کی آزادانہ رپورٹنگ میں کوئی رکاوٹ تھی، مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ عمران خان کی تقریر کے دوران جو مناظر ٹی وی کے ناظرین دیکھتے رہے ان میں سے اکثر تحریک انصاف کے اپنے کیمروں سے دکھائے جا رہے تھے۔ 
جب عمران خان تقریر کے لیے آئے تو پنڈال میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ جب انہوں نے تقریر شروع کی تو خاموشی ہونے لگی اور چند فقروں کے بعد پنڈال میں جھنڈوں کی پھڑپھڑاہٹ کی آواز تو آ رہی تھی مگر مجمع خاموش تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہر شخص صرف یہ سننے آیا ہے کہ آج عمران خان کہا کہتے ہیں۔ ماضی سے گزرتے، اپنی جدوجہد کا حال سناتے جب وہ مستقبل کی نقشہ گری تک پہنچے تو ان کی گفتگو میں حکومت اور نواز شریف کے چند حوالے تو موجود تھے مگر کسی کو انہوں نے گالی نہیں دی تھی، کوئی سخت بات نہیں کی تھی۔ عمران خان ، اتنے دھیمے سُر اور خوب سوچی سمجھی باتیں؛ یہ سب کچھ نیا تھا۔ اس کا احساس پنڈال میں موجود ہر شخص کو تو ہو ہی رہا تھا ، جنہوں نے ٹی وی پر یہ تقریر سنی وہ بھی یہی کہتے پائے گئے کہ عمران خان کا یہ لہجہ کہیں زیادہ مؤثر اور دل نشیں ہے۔ ان کے پیش کردہ گیارہ نکات میں کوئی خاص بات نہیں لیکن جس سادگی ، خلوص اور یقین سے یہ پیش کیے گئے ہیں ان کی داد نہ دینا زیادتی ہے۔ ان کی درد مندی اور مستقبل کے بارے میں منصوبے سن کر پہلی بار یہ لگ رہا تھا کہ وہ ملک کی وزارت عظمیٰ کے حصول میں سنجیدہ ہیں، اس نظام کی خرابیاں اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ انہیں اصلاح کا آغاز کہاں سے کرنا ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہر وقت غصے میں رہنے والے جس عمران خان کو ہم جانتے ہیں وہ کہیں کھو گیا ہے ، ہمارے سامنے ایک نیا عمران خان تھا جو کوئی جھوٹی امید نہیں دلا رہا بلکہ جچے تلے انداز میں منزل کو جانے والا نیا راستہ دکھا رہا ہے۔ 
پرانے عمران خان نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھ کر ان پر لفظی گولہ باری ایک لمحے کے لیے بھی نہیں روکی تھی۔ اس حکمت عملی نے جہاں حریفوں کو دم نہیں لینے دیا وہاں اس اندازِ سیاست کے ناقدین ان کی اپنی صفوں میں ہی پیدا ہو گئے۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے نتائج کے خلاف دھرنے سے لے کر پاناما کیس میں نواز شریف کی نااہلی تک انہوں نے اپنے مخالفین کو بے پناہ نقصان پہنچایا مگر اس کھیل میں ان کے ہاتھ بھی کچھ نہ لگا۔ سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دے دے کر ان کا تاثر ایک ایسے شخص کا سا بن گیا جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہے اور ہر مسئلہ اسی سے حل کرنا چاہتا ہے۔ ہتھوڑا بدست پرانا عمران خان اگر آئندہ عام انتخاب میں اترتا تو شاید یہ دنیا کی المناک ترین سیاسی خود کُشی ہوتی۔ انتیس اپریل کو ہم سب نے ایک نیا عمران خان دیکھا ، جو واقعی نیا پاکستان بنانے کا اہل معلوم ہوتا ہے۔

پرانے عمران خان نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھ کر ان پر لفظی گولہ باری ایک لمحے کے لیے بھی نہیں روکی تھی۔ اس حکمت عملی نے جہاں حریفوں کو دم نہیں لینے دیا وہاں اس اندازِ سیاست کے ناقدین ان کی اپنی صفوں میں ہی پیدا ہو گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں