"HAC" (space) message & send to 7575

یہ نیا پاکستان ہے!

ریاست کی طاقت بحران میں ظاہر ہوتی ہے۔ بھارتی جارحیت سے پیدا ہونے والے بحران میں پاکستان کے طرز عمل نے واضح کر دیا ہے کہ ہم ایک ایسی ریاست بن چکے ہیں جو واقعات پر بغیر ہیجان کا شکار ہوئے سوچا سمجھا اور بر وقت ردّ عمل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کی اس صلاحیت کا پہلا امتحان چودہ فروری کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر خود کُش حملے سے شروع ہوا۔ حسبِ معمول اور حسبِ توقع بھارت نے اپنے فوجیوں کی ہلاکت میں پاکستان کا ہاتھ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پر میں نے پہلی بار دیکھا کہ پاکستان کی جانب سے فوری طور پر الزامات کا جواب دینے کی بجائے ریاستی نظام کو متحرک کیا گیا۔ وزیر اعظم، چیف آف آرمی سٹاف سے ملے، کابینہ کا اجلاس ہوا، طویل صلاح مشورہ ہوا اور یہ سارے مراحل تیزی سے طے ہوئے۔ اس کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے اپنا انتہائی محتاط لفظوں پر مشتمل ریکارڈ شدہ بیان سرکاری ٹی وی کے ذریعے جاری کر دیا۔ اس بیان میں صاف لفظوں میں دو باتیں کی گئیں کہ بھارت کے پاس اگر کوئی معلومات پاکستان یا کسی پاکستانی کے خلاف ہیں تو ہم تحقیقات کے لیے تیار ہیں‘ اور دوسر ے یہ کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کا سوچا تو اس کا منہ توڑ جواب نقد دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کی تقریر کے ساتھ ہی وزیر خارجہ متحرک ہوئے، دفتر خارجہ کو بھی متحرک کیا‘ اور ان لوگوں سے بھی قابل قدر کام لے لیا۔ وزیر خارجہ نے دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان کے ہاتھ صاف ہیں‘ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ہاں الیکشن جیتنے کے لیے سازش تیار کر رہے ہیں۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کا احتساب کرنے کی بجائے عالمی برادری میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو خالصتاً بھارت کی اندرونی سیاست کے تناظر میں دیکھا جانے لگا۔ پاکستان اس امتحان میں کامیاب ہوا‘ کامران ٹھہرا۔ 
امتحان کا دوسرا حصہ چھبیس فروری کو شروع ہوا‘ جب رات کے اندھیرے میں بھارتی طیارے پاکستان کے علاقے میں بم گرا کر چلے گئے۔ بے شک ہماری فضائیہ نے ان کا جواب دیا‘ اور بھارتی بموں سے کسی پاکستانی شخص یا جگہ کا کوئی نقصان نہیں ہوا‘ لیکن جیسے جیسے چھبیس فروری کا دن گزرتا گیا ہمارے نظام کا دباؤ حکومت اور دوسرے اداروں پر بڑھتا چلا گیا۔ شام تک یہ دباؤ اتنا بڑھ چکا تھا کہ اگر ہمارا ریاستی نظام درست طریقے سے کام نہ کر رہا ہوتا‘ تو شاید کوئی اندرونی بحران جنم لے لیتا۔ اس دباؤ میں بھی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس ہوا، اپوزیشن سے رابطہ کرنے کے لیے سینئر وزیروں پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس بلا لیا گیا‘ اور ساتھ ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا اعلان بھی ہو گیا۔ یہ دن بہت بھاری تھا، اس کی رات بہت تاریک‘ لیکن اس کے بعد کی صبح بہت روشن تھی۔ ہمیں جواب دینا تھا اور منہ توڑ دینا تھا۔ ہمارے سپاہیوں کی منصوبہ بندی اور پھر اس پر عمل درآمد پر پاکستان کی عزت کا مدار تھا۔ اس دباؤ میں بھی سپاہیوں نے ہمت نہیں ہاری، منصوبہ بنایا، ایک ایک شخص کا کردار طے ہوا، ایک ایک لمحے کا حساب رکھا گیا اور انسانی محنت کا نتیجہ ہم نے دیکھ لیا کہ صرف تیس گھنٹے کے اندر اندر ہم نے دو بھارتی طیارے گرا کر اور ایک بھارتی پائلٹ گرفتار کر کے دنیا پر واضح کر دیا کہ ہم خود پر ہونے والے حملے کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ پائلٹ کی گرفتاری نے نریندر مودی کی سازش کا تانا بانا بکھیر کر رکھ دیا۔ اس کے بعد نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس ہوا، اپوزیشن سے رابطے ہوئے، دوست ملکوں کو اعتماد میں لیا گیا اور وزیر اعظم نے مختصر دورانیے کی ریکارڈ شدہ تقریر کے ذریعے ایک بار پھر امن کا پیغام دے دیا، بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی اور جنگ کے ممکنہ نتائج بھی بتا دیے گئے۔ 
حکومت سے باہر بیٹھی اپوزیشن اتنی ذمہ دار ہو سکتی ہے‘ اس کا اندازہ شاید پاکستان میں کسی کو بھی نہیں تھا۔ پلوامہ کے واقعات کے بعد سے وہ تمام سیاسی رہنما جنہیں حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اپنے لہجوں میں اتنی نرمی لے آئے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فرق ہی مشکل ہو گیا تھا۔ چھبیس فروری کے بھارتی حملے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے جس طرح حکومت کے کندھے کے ساتھ کندھا ملایا، وہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ حیرت انگیز بات تھی کہ احسن اقبال ٹی وی پر آ کر شاہ محمود قریشی کی غیر مشروط تائید کر رہے تھے۔ حنا ربانی کھر برسرِ عام وزیر خارجہ کو مشورے دے رہی تھیں۔ آصف علی زرداری اگر ایک طرف سے بھارت کا للکار رہے تھے تو شہباز شریف دوسری طرف سے جواب دیتے ہوئے سامنے آ رہے تھے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے یہ ثابت کر دیا کہ جب بات ملکی سالمیت کی ہو گی تو پھر من و تُو کی کوئی تفریق نہیں رہے گی۔ یہ دونوں جماعتیں جس طرح حکومت کی پشتیبان بنیں، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہو گی۔ 
امتحان میں کامیابی کا ایک پہلو میڈیا کا کردار ہے۔ بھارتی میڈیا چودہ فروری سے مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔ پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے عوام اور حکومت کو اکسا رہا تھا۔ بھارت کے بڑے بڑے جید صحافی خود کو بھارتی سینا کے سپاہی بتانے لگے تھے۔ ان کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا نے ایک لمحہ بھی توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ عام حالات میں حکومت اور کئی ریاستی اداروں سے خفا رہنے والا میڈیا پاکستان کی طے کردہ پالیسی کو لے کر آگے بڑھا۔ شدید انگیخت کے باوجود کسی ایک ذمہ دار صحافی نے بھی جنگ آزمائی کی بات نہیں کی۔ بہت سے سوالات جو چھبیس جنوری کو اٹھائے جا سکتے تھے‘ انہیں اٹھانے سے گریز کیا۔ بھارت کے حملے کے جواب میں امن کی بات کی لیکن خوفزدہ ہونے سے انکار کر دیا۔ اشتعال سے گریز کرنے کی تلقین کی، لیکن جواب دینے پر اصرار کیا۔ بریگیڈیر (ر) غضنفر علی اور میں دنیا ٹی وی کی ٹرانسمیشن میں اکٹھے تھے۔ جب ٹرانسمیشن ختم ہوئی تو حیرت زدہ تھے‘ مجھے کہنے لگے ''میرا دل چاہتا ہے پاکستان کے صحافیوں، تجزیہ کاروں اور پروگرام کرنے والوں کو سلیوٹ کروں کہ ان کی معلومات، دنیا بھر کے معاملات سے ان کی واقفیت اور بات کی تہہ تک پہنچے کی ان کی صلاحیت قابل رشک ہے‘‘۔ ان کی یہ تعریف کسی فرد کی نہیں بلکہ عمومی طور پر تھی۔ انہیں ہماری قدر و قیمت بھی اس بحران میں معلوم ہوئی جب انہوں نے بھارتی میڈیا پر جھوٹی خبریں اور سطحی تجزیے دیکھے، سنے اور پڑھے۔ ہمارے میڈیا نے بھارت کی طرف سے بم گرانے پر کوئی ماتم کیا‘ نہ بھارتی طیاروں کی تباہی پر فتح و نصرت کے شادیانے بجائے۔ امن کی بات کی اور دلائل کی بنیاد پر کی۔
بھارتی جارحیت سے پیدا ہونے والے اس بحران سے پاکستان ایک مضبوط اور پختہ کار ملک بن کر ابھرا ہے‘ جہاں سستی جذباتیت کی فیصلہ سازی میں کوئی جگہ نہیں۔ اداروں اور افراد کے درمیان اختلاف رائے رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ اختلاف رائے کہیں فیصلوں میں کمزوری اور تاخیر کا باعث نہ بنے۔ پاکستان کے سیاستدانوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ بھارتی سیاستدانوں سے کہیں زیادہ سمجھدار ہیں، پاکستان کی فوج نے خود کو بھارتی فوج کے مقابلے میں ہر طرح سے بہتر ثابت کیا ہے اور پاکستانی میڈیا نے ثابت کیا ہے کہ یہ پاکستان کی طاقت ہے، پاکستان کے عوام کی طاقت ہے‘ کسی کے ہاتھ کی چھڑی یا جیب کی گھڑی نہیں۔ اداروں اور افراد کا یہ مثبت تال میل اور باہمی اعتماد ہی پاکستان کی قوت ہے۔ یہی نیا پاکستان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں