نتھیا گلی کی خنک فضا ہے‘ گاہ بادل‘ گاہ بارش ‘ گاہ دھوپ جو گوارا ہے۔ اس ماحول میں کہ آسمان کو چھوتے ہوئے چیڑ کے درخت‘ جگہ جگہ کھلتے گلاب‘ بادل جو چہرے کو چھو کر گزرجاتے ہیں‘ سیاست کی بات سوچنا بھی گناہ لگتا ہے۔ یوں بھی سیاست میں کیا رکھا ہے‘ ایک وزیراعظم جو مخالفوں پر برستے ہوئے سوچتا نہیں اور وہ حزب اختلاف جو دوبارہ حکومت میں آنے کیلئے ہر حد سے گزر جانا چاہتی ہے۔ یہ کھیل چلتا رہا ہے ‘ چلتا رہے گا۔ کردار وہی رہیں گے بس نام بدلتے جائیں گے۔ اس پر بات بھی ہوتی رہے گی ‘مگر نتھیا گلی آنا کب روز روز نصیب ہوتا ہے۔ یہاں کی فضا میں تو سیاست کی بات یوں لگتی ہے ‘جیسے موسیقی کی محفل میں کسی نے ٹرک سٹارٹ کرکے کھڑا کردیا ہو۔ یہاں پورے ملک سے آئے لوگوں کو دیکھنا بذاتِ خود بڑا خوشگوار تجربہ ہے۔ کہیں خاندان گھاس کے تختے پر دسترخوان بچھائے کھانے میں مصروف ہیں‘ کہیں نوجوان دوستوں کی ٹولیاں ہنستی کھیلتی گاتی چلی جاتی ہیں۔یہاںسے چند کلومیٹر دور ایک چھوٹی سے آبجو ہے ‘جو ایک بڑے پہاڑ سے بہہ کر ایک چھوٹے پہاڑ کے قدموں میں قربان ہوجاتی ہے۔ کچھ اونچائی سے آتے ہوئے تھوڑے سے پانی کو پیار سے آبشار کہتے ہیں۔ اس آبشار کے راستے میں کسی صاحب ِعقل نے کرسیاں بچھا دی ہیں۔ لوگ آتے ہیں ‘ یہاں بیٹھتے ہیں اورپانی ان کے پاؤں کے تلوے دھوتا گزرجاتا ہے۔ اس آبشارکا ظاہری حسن تو متاثر کن نہیں‘ مگر یہاں جو لوگ بیٹھے ان کے چہروں کی رونق بتا رہی تھی ‘وہ یہاں آکر بشاش ہوگئے ہیں۔ خیال آیا بالکل اسی موسم میں جب میرے بچے مجھے کھینچ کر یہاں لے آئے ہیں‘ بالکل انہی دنوں میں میرے کچھ متموّل دوست یورپ کا رخ کرتے ہیں‘ جہاں کا موسم نتھیا گلی جیسا خوبصورت نہیں‘ جہاں جانے کے لیے روپے ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ضروری ہیںاور جہاں جانے کے لیے وقت بھی کافی درکار ہے‘ مگر لوگ ہیں کہ ان کی سیر یورپ سے ادھر مکمل ہی نہیں ہوتی‘ آخرکیوں؟
اس کیوں کا جواب ہر گرمیوں میں انگلستان جانے والے دوست نے دیا۔''آبشار‘‘ کے پاس کھڑے ہوکر اسے فون کیا اور پوچھا کہ بھائی تم ہر سال ہزاروں ڈالر تبدیلی ٔ آب و ہوا کے لیے خرچ کر ڈالتے ہو‘ نتھیا گلی یا پاکستان میں ہی کسی مقام کو رونق کیوں نہیں بخشتے؟ اس نے پوچھا تم وہاں ہو‘ یہ بتاؤ کہ گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ملی؟جس ہوٹل میں ٹھہرے ہو وہاں ڈھنگ سے کسی نے سروس دی؟ اگر تمہارے پاس اپنی گاڑی نہیں تو کیا بال بچوں کے ساتھ یہاں تک پہنچنے کے لیے کوئی ڈھنگ کی سواری تمہیں میسر ہے؟ کہیں کوئی بیٹھنے کی جگہ جہاں تم بے فکری سے دوستوں یا خاندان کے ساتھ بیٹھے رہو؟ظاہر ہے ان تمام سوالوں کے جواب نفی میں ہیں۔ باوجود اپنے دل کش موسم کے نتھیا گلی ہو یا پاکستان کا کوئی بھی سیاحتی مقام اس طرح کی کسی بھی سہولت سے محروم ہیں۔ موجودہ سرکار کی سیاحت کے فروغ کے لیے گرم جوشی اپنی جگہ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے ضروری کام کبھی نہیں ہوا۔ یادش بخیر نواز شریف نے اپنی وزارت ِعظمیٰ کے دور میں ان علاقوں میں سڑکوں کا نظام بہتر بنانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن ان کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ بس گھٹیا قسم کی ایک تجارت رہ گئی‘ جسے ہم سیاحت کہتے ہیں۔ ہوٹل یا رہائش یہاں آنے والوں کی پہلی ضرورت ہے۔ عالم یہ ہے کہ باہر سے خوبصورت عمارتیں تو کئی ہیں‘ لیکن اندر کام کرنے والوں کو ڈھنگ سے میزپوش بھی بچھانا نہیں آتا۔ کھانے کی ضرورت پیش آجائے تو پکانے والے کی مبلغ مہارت برائلر مرغی میں بہت سے ٹماٹر اور کچھ پانی ڈال کر ابال دینے تک محدود ہے۔ سرد موسم میں چائے پینے کو دل چاہتا ہے تو ایک ایسا محلول پیش کردیا جاتا ہے‘ جس پر صرف چائے کی پھبتی کسی جاسکتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر چیز کی قیمتیں اتنی بلندہو چکی ہیں کہ ادائیگی کرتے ہوئے حسب ِجیب تکلیف ہوتی ہے۔
گلیات‘ یعنی مری سے لے کر ایبٹ آباد تک کے پہاڑی علاقے میں لاکھوں لوگ گرمیوں کے چند دن گزارنے آتے ہیں۔ ظاہر ہے لوگ صحت مند حالت میں ہی سفر کرنا پسند کرتے ہیں‘ لیکن کسی کو ناگزیر حالت میں کسی دوا کی ضرورت پڑ جائے تو راولپنڈی یا ایبٹ آباد سے پہلے نہیں ملے گی۔ میرے ساتھ آئے دوست کو ایک معمولی دوا کی ضرورت پڑی تو انکشاف ہوا کہ نتھیا گلی میں صرف ایک میڈیکل سٹور ہے ‘جس میں ضروری ادویات بھی میسر نہیں۔ چلئے دوائی تو شاید یہاں ایک عیاشی قرار دی جاسکتی ہے‘ لیکن گاڑی کی پارکنگ تو زمرۂ عیاشی سے باہر ہے‘ وہ بھی دستیاب نہیں۔ اگر‘ آپ ہوٹل کا کمرہ لے لیں تو پارکنگ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ‘ورنہ آپ کے پاس ایسا جادو ہونا ضروری ہے‘ جس کے زور پر گاڑی کو ماچس کی ڈبیہ میں بند کرکے جیب میں رکھا جاسکے۔ یہاں کی چڑھائی اور اترائی پر چلنے کا مقدور ہر شخص کو نہیں‘ لیکن مجال ہے کہ آپ کو کوئی شٹل سروس مل جائے۔ مری اور نتھیا گلی میں تو کئی گھاٹیاں ایسی ہیں کہ جہاں بجلی سے چلنے والی سیڑھیاں باآسانی لگ سکتی ہیں اور ہر شخص ان سیڑھیوں کے استعمال کے مناسب پیسے بھی دے سکتا ہے ‘مگر یہ ہمارا پیار ملک ہے‘ یہاں کام نہیں ہوتے صرف گلے پھاڑ کر دعوے ہوتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت کو‘ چونکہ عوام کے اخلاق کی بڑی فکر رہتی ہے‘ اس لیے پوری جمہوریہ کے ہر علاقے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی عوام کے اخلاق کو درست کرنے پرجتے رہتے ہیں۔ ذرا سا کسی نے انفرادی آزادی کا مظاہرہ کیا‘ وہیں اسے قانون نے دبا لیا۔ چلئے اپنے عوام کی حد تک مان لیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر اخلاقی بلندیوں تک لے جانے کیلئے ان کا کوئی کردار ہوگا‘ مگر بیرونِ ملک سے آنے والوں پر یہ پابندیاں چہ معنی دارد؟ برطانیہ‘فرانس ‘دبئی‘ ابو ظہبی‘ ترکی جو ہر سال اربو ںڈالر صرف سیاحت سے کماتے ہیں‘ صرف یہ کرتے ہیں کہ اپنے مہمانوں کو ان کے حال میں مگن رہنے دیتے ہیں۔ اگر‘ کوئی موسیقی کا دلدادہ ہے تو اسے اپنی من پسند جگہ مل جاتی ہے۔کسی کو اس جہانِ رنگ و بو کی کوئی اور چیز لبھاتی ہے تو اسے پالیتا ہے۔ یہ آزادی اتنی اہم ہے کہ بے شمار پاکستانی صرف چند دن اس کا مزا چکھنے کیلئے تھائی لینڈ اور سری لنکا کے سڑے ہوئے موسم کی اذیت سہنے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں۔آخر یہ سب کچھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پاکستانیوں کو اپنے ہی ملک میں کیوں نہیں مل جاتااور ان آزادیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ساحلوں کی چمک‘ وادیوں کی دھنک اور باغوں کی مہک بھی ماند پڑی رہتی ہے۔ دنیا میں جن ملکوں نے سیاحت میں نام بنایا ہے‘ وہاں یہ آزادیاں کامیابی کی پہلی شرط کے طور پر دی جاتی ہیں۔ اس نکتے کو نواز شریف کے پچھلے دورِ حکومت میں فروغ سیاحت کی وفاقی کارپوریشن نے بھی خوب سمجھا اور باقاعدہ لکھ کر حکومت سے ان آزادیوں کی ہر جگہ نہیں تو کچھ جگہوں پر فراہمی کی درخواست کردی۔ ظاہر ہے یہ درخواستوں کے انبار میں کہیں دب گئی۔
ہمارے پہاڑ‘ ہمارے ساحل‘ ہمارے دریا‘ ہمارے تاریخی ورثے پاکستان کا وہ حسن ہے جس سے ابھی تک دنیا واقف ہی نہیں‘ کیونکہ پاکستان میں سیاحت کو آج تک اہمیت ہی نہیں ملی ‘بلکہ وقتاً فوقتاً اس کی مخالفت ہی ہوتی رہی ہے۔ دوہزار دو میں جب متحدہ مجلسِ عمل نے خیبرپختونخوا کی حکومت سنبھالی تو اس کے کچھ ذمہ داروں نے معاشی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے بھی مشورہ کیا کہ صوبے کے لوگوں کو روزگا ر فراہم کرنے کیلئے کیا کیا جائے؟ میں بھی اس وقت معاشی رپورٹر تھااس لیے اس مجلس میں شامل تھا۔ سب نے بالاتفاق کہا‘ سیاحت۔ آج شروع کریں کل سے روزگار ملنے لگے گا۔ علما کی حکومت نے یہ مشورہ رد کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا۔ آج کی حکومت کی نعرہ ہی سیاحت کا فروغ ہے ۔ یہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ اس شعبے سے وابستہ لوگوں کی تھوڑی سی تربیت اور تھوڑی سی آزادی سے یہ شعبہ دنوں میں آگے جاسکتا ہے‘ لیکن ہم کچھ نہیں کریں گے‘ کیونکہ ہم دعوے کرتے ہیں کام نہیں۔