نواز شریف تیسری بار وزیراعظم تھے تو ایک دن پاکستان کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا ''مسائل اتنے زیادہ اور اتنے بڑے ہیں کہ پانچ سالہ حکومتی مدت میں ختم نہیں ہوسکتے‘ ان کو حل کرنے کیلئے کم ازکم دس برس دن رات کام کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کی بات سن کرسامعین کی اکثریت خاموش رہی اور صحافی مسکرا دیے۔ ظاہر ہے جو سیاستدان بھی حکومت میں ہوتے ہوئے یہ کہے گا تواس بات کو شوق ِ اقتدار کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں اقتدار سے وابستہ پیچیدگیوں میں کسی حکومت کا پانچ سال پورے کرجانا ہی معجزہ ہے چہ جائیکہ دس سال کی بات کی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج کے حکمرانوں تک کسی کو بھی دیکھ لیجیے ‘ہر کسی کا یہی خیال تھا کہ اب وہ ہمیشہ کیلئے اقتدار میں آگیا ہے ۔ معلوم نہیں حکومتی کرسیوں میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ ان پر بیٹھتے ہی انسان ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق رہتا ہے نہ عوام سے۔ 2002 ء میں جب چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوئے تو ایک مجلس میں کہا ''میں نے اپنے افسروں کو صرف ایسے منصوبے تیار کرنے کیلئے کہا ہے جو تین سال میں ختم ہوجائیں کیونکہ پاکستان میں حکومت کی عمر صرف تین سال ہے‘ اس کے بعد کیا ہوجائے ‘ پتا بھی نہیں چلتا‘‘۔ اس وقت ان کی بات سن کر مجھے لگا کہ چودھری صاحب کو پاکستان کی سیاست کا خوب اندازہ ہے‘ لیکن میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ اپنی حکومت کے چوتھے سال فرمایا ''ہم جنرل مشرف کو وردی سمیت ایک نہیں دس بارمنتخب کروائیں گے‘‘۔ اس کے بعد چراغ رہے نہ روشنی‘ وردی رہی نہ مشرف‘ حکومت رہی نہ چودھری۔ خیر‘ دس سالہ حکومت کے خواہاں نواز شریف کے ساتھ صرف چار برسوں میں وہی ہوا جو ہمارے پیارے ملک میں کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ چلے گئے اور عمران خان آگئے۔ ان کی حکومت بنی تو کئی وزیروں نے مجھے بڑے اعتماد سے بتایا ''ہم دس سال کیلئے آئے ہیں‘ ہم نے بہت کچھ بدلنا ہے‘ نیا پاکستان بنانا ہے‘‘۔ ان کی باتیں سن کر بھی صحافی مسکرانے کے سواکیا کرسکتا تھا۔
جس ملک میں پانچ سال کی حکومت مشکل سے ملے وہاں دس سال کا سوچنا بھی ہمت کی بات ہے۔ اور پھر حکومت ملنے کے بعد وقت ضائع کرنا تومہلک ترین غلطی ہے۔ خدا گواہ ہے سبھی حکمران وقت ضائع کرتے ہیں لیکن تحریکِ انصاف نے جیسے مٹھیاں بھر بھر ضائع کیا ہے تاریخ میں ایسا کسی نے نہیں کیا ہوگا۔موجودہ حکومت کا ''دس سالہ ‘‘ اقتدار شروع ہوئے دو مہینے ہو چکے تھے کہ اسلام آباد میں ایک بیوروکریٹ سے نئی حکومت کا احوال پوچھا‘ کہنے لگے''بغیرتیاری کے آگئے ہیں‘ اللہ خیر کرے‘‘۔ اس کے بعد جوں جوں دن گزرے میں اس بیورکریٹ کی گہری نظر کی داد ہی دیتا رہا۔ جو کام دنوں میں ٹھیک ہوسکتا تھا ‘ اس حکومت نے اسے ایسے برباد کیا کہ اب عشروں میں درست ہوگا۔ جس معیشت کو ہلکی پھلکی اصلاح کی ضرورت تھی‘ اسے اپنی بے ہنری کے بھینٹ چڑھا دیا۔اور اب روپے کی گرتی ہوئی قدر کے بارے میں کوئی پوچھے تو بے جگری سے طلب و رسد کا پاٹھ پڑھانے لگتے ہیں۔ کسی نے مہنگائی کا رونا رویا تو پچھلی حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔ قرضے لینے پر خود کُشی کو ترجیح دینے والے ہمارے وزیراعظم بنفس نفیس ایسی تقریب میں شرکت کرتے پائے جاتے ہیں جہاں قرضوں کی دستاویزات پر دستخط ہوتے ہیں۔پھر بھی ان کے ترجمان حکومت کے دوسال بعد بھی سینے پر ہاتھ مار کراسے پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا قرار دے دیتے ہیں۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کا دعویٰ یوں مذاق بنا کہ خود حکومت بمعہ اہل و عیال پہلے سال عالمی سطح پر مانگنے نکلی اور پھر ٹی وی پر بیٹھ کر عطیات کا مطالبہ کرنے لگی۔ گڈ گورننس کے غبارے سے یوں ہوا نکلی کہ دوسال بعد کبھی اٹھارہویں ترمیم کو روتے ہیں تو کبھی نیشنل فنانس کمیشن پر غصہ ہوتے ہیں۔اپنی تباہ کن معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی ہوئی تو پردہ ڈالنے کے لیے کبھی چینی والوں کو مافیا کہہ کر ان پڑ چڑھ دوڑے‘ کبھی آٹے والوں کو پیچھے پڑ گئے۔ کبھی پٹرو ل والوں کو مافیا کہہ کر غصہ نکالا تو کبھی کسی کو۔خود سوچئے کہ جو حکومت اپنے ملک کی صنعتوں کو ضابطے میں لانے کی بجائے انہیں مافیا کہنا‘ پکارنا اور لکھنا شروع کردے تو اس سے کسی ڈھنگ کے کام کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟
بے چاری تحریک انصاف کو تو یہ علم بھی نہیں کہ پاکستان میں حکومت کی مدت اور معاشیات میں گہرا تعلق ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔کبھی بظاہر یوں لگتا ہے کہ حکومت گرنے یا گرائے جانے کی وجہ کچھ اور ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف کی آخری حکومت تک دیکھ لیں‘ معیشت کی خرابی جب حد سے بڑھنے لگی‘ حکومت گر گئی۔ بھٹو نے صنعتیں سرکاری تحویل میں لے کر اقتصادی ڈھانچہ برباد کیا تو باقی نہ رہے‘ بے نظیر بھٹو کوئی نئی راہ نہ سجھا پائیں تو جاناپڑا۔ پرویز مشرف جب معاشی طور پر ناکام ہونے لگے تو نکال دیے گئے۔ نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں تجارتی خسارہ خطرناک حدوں کو چھونے لگا تو حالات نے پلٹا کھا لیا۔ عمران خان کے دور حکومت میں تو معیشت قومی سلامتی کا مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ سنگین خارجی مسائل کی موجودگی میں بھی دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ ہونا تو شاید بڑا مسئلہ نہ ہوتا لیکن روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے دفاعی بجٹ دراصل پچھلے سالوں کی نسبت درحقیقت کم ہورہا ہے۔ مسلسل کم ہوتی ہوئی ملکی پیداوارکو دیکھا جائے تو اس کے نتیجے میں ہونے والی بے روزگاری اور کساد بازاری اندرونی خطرات کو بھی جنم دے گی۔ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضا باقر تو حالات خراب ہونے پر پہلی دستیاب پرواز پر بیرون ملک روانہ ہوجائیں گے‘ لیکن تحریک انصاف کو یہ سب کچھ بھگتنا پڑے گا۔
سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اب زیادہ وقت نہیں بچا۔اب کسی مافیاکے خلاف کمیشن کی رپورٹ ہو یا کسی کا احتساب‘ سب کچھ فقط فائلوں میں ہوگا۔ مقتدرہ کو اچھی طرح علم ہوچکا ہے کہ گھمنڈی اور نالائق لڑکوں کا یہ گروہ سب کچھ تباہ کرڈالے گا۔ جو پہلے ان کے بارے میں کوئی منفی بات بھی نہیں سنتے تھے ‘ اب تلخ لہجوں میں خود اپنے خواب ٹوٹنے کا دکھ بتانے لگے ہیں۔ان کے نزدیک موجودہ حکومت بحران کے خاتمے کی نوید نہیں بلکہ خود بحران بن چکی ہے جسے زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں پرانے پاکستان کے کرداربھی یاد آرہے ہیں اور کچھ نئے لوگ بھی پاکستان کوترقی یافتہ بنانے کے تیر بہدف نسخے لے کر میدان میں آگئے ہیں۔یوں بھی حکومت کی نااہلی کا بوجھ کوئی کتنی دیر تک اٹھا سکتا ہے اور اگر اب دوست ہی اس حکومت سے جان چھڑا ئیں گے تو خود ان کی مسلسل گرتی ساکھ کو بھی سہارا مل جائے گا۔ اب معجزہ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت تیزی سے کام کرنے لگے۔
کام اس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک عمران خان صاحب اپنی پارٹی کو معاونین خصوصی اور بنی گالہ کے نرغے سے نہیں نکالتے اور پارٹی میں جاری دھینگا مشتی ختم نہیں کراتے۔ اسد عمر اور جہانگیر ترین کی لڑائی میں سوائے عمران خان صاحب کے کسی کا نقصان نہیں ہوا۔ ان دونوں کے اختلافات ختم کرا کے آج بھی بہت کچھ بچایا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک فیصلے نے انہیں موقع بھی دے دیا ہے کہ ایک آدھ معاون کو فارغ کریں‘ تاکہ جہانگیر ترین کو بھی عزت کی بحالی کا احساس ہو۔ اگر پارٹی میں جاری دھینگا مشتی ختم ہو جائے تو پارٹی میں وہی توانائی واپس آسکتی ہے ‘ جس کے ساتھ اس نے الیکشن جیتا تھا۔پھر شاید حکومت بھی بچ جائے۔ اگر کام نہیں کرنا تو دن گنتے رہیے‘ کوئی عملیات ہیں تو اپنے موکلوں کو امداد کیلئے بلا لیجئے ‘ اور کچھ نہ سہی مشکل وقت میں چائے پانی ہی پوچھ لیا کریں گے۔