کچھ دن پہلے جب عمران خان حکومت کے دو سال مکمل ہونے والے تھے تو اس حکومت کی کارکردگی پر لوگوں کی رائے لینے میں اپنی ٹیم کے ساتھ مائیک اور کیمرہ لے کر چل پڑا۔ لاہور سے آغاز کیا اور حکومتی کارکردگی کے بارے تو پوچھا ہی ساتھ یہ سوال بھی رکھ دیا کہ 'اگر آج الیکشن ہوجائے تو کسے ووٹ دیں گے؟‘ ظاہر ہے کچھ نے کہا‘ تحریک انصاف اور کچھ بولے‘ مسلم لیگ نون۔ بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے کسی اور جماعت کا نام لیا‘ لیکن ایک بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی تھے جو موجودہ سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف سے بیزار تھے اور کسی نئی پارٹی کے منتظر تھے۔ لاہور کے لوگوں سے ایسی بات سنی تو اچنبھا ہوا۔ یہی سوال لے کر فیصل آباد پہنچے تو وہاں بھی لوگ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون میں بٹے تھے مگر ان لوگوں کی تعداد بڑھ گئی جو موجودہ سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹ کا حقدار ہی نہیں سمجھتے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی ووٹروں کے ایک چوتھائی نے یہی جواب دیا تو میں نے آئی پورIPOR) ( کے طارق جنید سے رابطہ کیا۔ طارق جنید کا پیشہ ہی رائے عامہ کی پیمائش کرنا ہے۔ انہیں اپنی معلومات دیے بغیر درخواست کی کہ وہ بھی اگر سروے کریں تو یہ عام آدمی کی دلچسپی کی چیز ہوگا، ساتھ ہی وہ سوال بھی پوچھ لیں جو میں کرتا پھر رہا ہوں۔ انہوں نے ہفتہ بھر کی محنت سے ملک بھر میں لوگوں کے ایک بڑے سیمپل سے یہی سوال پوچھا توانہیں بھی ہر پانچویں شخص نے یہی کہا کہ وہ ان میں سے کسی جماعت کو سرے سے ووٹ ہی نہیں دے گا۔ ابھی یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ لوگوں کی اکثریت بڑی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ چکی ہے لیکن یہ طے ہوگیا کہ بہت سے لوگ ایک نئے لیڈر اور نئی سیاسی جماعت کی تلاش میں ہیں۔
عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک نیا چہرہ ہیں۔ تاریخ میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نئی سیاسی جماعت بنائیں، نیا منشور دیں، گریں، سنبھلیں اور الیکشن جیت کر حکومت بنا لیں۔ عمران خان نے بلاشبہ تاریخ بنائی ہے۔ ان کے مسائل حکومت میں آنے کے بعد شروع ہوئے۔ انہوں نے جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا، اسے پورا کرنے کے لیے انہیں باصلاحیت ٹیم نہیں مل سکی۔ ان کی ٹیم کی حقیقت اسی دن عیاں ہوگئی جب وہ حلف لینے کیلئے ایوانِ صدر پہنچے تھے۔ جس نامناسب انداز میں قمیص کی جیب سے چشمہ نکالا اور اٹک اٹک کرحلف پڑھا، یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھاکہ ان کے ساتھیوں میں باریک بینی کی شدید کمی ہے۔ اس کے بعد پہلی اجتماعی حماقت وہ ضمنی بجٹ تھا جو ستمبر دوہزار اٹھارہ میں تحریک انصاف نے پیش کیا۔ اس بجٹ نے واضح کردیا کہ ان کے پاس کوئی ایک شخص بھی نہیں جسے ملک تو دور کی بات‘ کوئی چھوٹی سی دکان بھی چلانا آتی ہو۔ انجام یہ کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور رضا باقر جیسے دساوری دانشوروں کے ہاتھ معیشت کی لگام دی گئی تو انہوں نے سبھی کچھ روک دیا۔ ظاہر ہے کچھ حرکت میں ہی نہیں ہوگا تو کیا گھاٹااور کیا نقصان، اس جمود کو وہ استحکام کا نام دے کر تحریک انصاف سے بغلیں بجوا رہے ہیں۔ معاشیات کے علاوہ ادارہ جاتی اصلاحات، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کا نصف بھی اگلے تین برسوں میں کسی معجزے کے بغیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ دو سالہ حکومت کے بعد بھی اپنی حرکتوں کا بوجھ پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کی روش نے تحریک انصاف کی اجتماعی دانش کو اتنا متاثرکردیا ہے کہ شبلی فراز صاحب فرماتے ہیں کہ ''بجلی مہنگی ہوئی، ہورہی ہے یا ہوگی تو اس کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہیں‘‘ یعنی مستقبل کی نالائقیوں کی ذمہ داری بھی پچھلوں پر ڈال دی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ یکسوئی کی کمی، آگے کی طرف دیکھنے کی بجائے پیچھے دیکھتے رہنا اور معیشت کے بجائے احتساب کا راگ الاپتے رہنے کا نتیجہ سوائے اس کے کیا ہو کہ لوگ تحریک انصاف سے بھی مایوس ہوجائیں۔
مسلم لیگ نون 1990 کی دہائی میں تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔ نواز شریف نے پہلی بار وزارت عظمیٰ سنبھالی تو ملکی معیشت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کیا۔ مسلسل خسارے میں جانے والے سرکاری کارخانوں سے جان چھڑائی، سرمایہ کاری کو آسان بنایا، سڑکیں اور موٹروے بنا کرپاکستان میں ایک نیا پن پیدا کردیا۔ اپنے فیصلوں پر ڈٹ جانے کی صلاحیت ان کے اندر موجود تھی اور چند چیزوں پر بلاوجہ اٹک جانے کا رجحان بھی۔ یہی وجہ تھی کہ مقتدرہ سے اچھی واقفیت رکھنے کے باوجود وہ ٹھوکر کھاگئے۔ دوسری بار وزارت عظمیٰ انہیں ملی تو اس کا انجام مارشل لاء تھا۔ تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد بجلی تو ان کا بڑا چیلنج تھا ہی لیکن اس سے بھی زیادہ بڑا کام اداروں کی اصلاح تھا۔ انہوں نے یہ کام کرنے کے بجائے اپنی سیاسی توانائی کے زور پر تباہ شدہ اداروں سے کچھ نہ کچھ کام لے لیا مگر ان کی بنیادی کمزوریاں دور کرنے کے لیے وہ کچھ نہ کرسکے۔ انہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا لیکن انہوں نے تیسری بار بھی وہیں ٹھوکر کھائی جہاں پہلے دو بار گرچکے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کے بجائے توجہ خاندان میں سیاسی وراثت کی تقسیم کی طرف دی تو ان کی پارٹی میں ایسے اختلافات پیدا ہوگئے جو چودھری نثار علی خان جیسے آزمودہ کار کو ان سے دور لے گئے۔ تیسری بار اقتدار سے نکل کر انہوں نے فوج اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کو اپنی سیاست کی بنیاد بنا لیا۔ ان کی اس حکمت عملی کو اپنی جماعت میں پذیرائی مل سکی نہ عوام نے تصادم کی اس راہ پر چلنے کو پسند کیا۔ نواز شریف کو یہ گلہ رہا ہے کہ جب لڑائی کا وقت تھا کوئی ان کے ساتھ نہیں چلا۔ اس شکوے کی بنیاد یہی ہے کہ کسی کو ملنے والا ووٹ کارکردگی کے لیے ہوتا ہے، لڑائی کے لیے نہیں۔ جب سے نواز شریف اپنے ووٹ بینک کو لڑائی کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں، ان کی مایوسی بڑھنے لگی ہے۔
پیپلزپارٹی اور ترقی ایک دوسرے کی ضد سمجھے جاتے ہیں۔ یہ اس قدر بدنام ہوچکی ہے کہ اس پر لگنے والا بدعنوانی کا ہر الزام لوگوں کو سچ معلوم ہوتا ہے۔ پارٹی کی تباہی میں جو تھوڑی بہت کسررہ گئی تھی وہ سندھ حکومت ناقص کارکردگی کے ذریعے پوری کررہی ہے۔ ذرا تصور کیجیے جو پارٹی وفاق کی علامت تھی اندرون سندھ اور کراچی کے جھگڑے میں پڑ کر اپنا سب کچھ گنوا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کو نیا صوبہ بنانے کا شوشا چھوڑتی ہے اور پوری پیپلزپارٹی 'مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘ کے نعرے لگانے لگتی ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں سندھ تک محدود ہو جانے والی اس جماعت کو چاہیے یہ تھاکہ سندھ کو ایک نمونہ بنا کر ملک کے سامنے پیش کرتی لیکن ہوا یہ کہ صوبہ بدعنوانی اور پسماندگی کی مثال بنتا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی میں اتنی سکت اور وسعت بھی نہیں رہی کہ ایم کیو ایم کواس کے بانی کی وجہ سے جو سیاسی جھٹکا لگا، اس کا فائدہ ہی اٹھا سکتی۔ الٹا اپنی پالیسیوں کی وجہ سے لیاری کی نشست سے بھی اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہروا بیٹھی۔ یہ سب دیکھ کرسندھ سے باہر کون ہے جو پیپلزپارٹی کو اپنی انتخابی ترجیح میں کوئی جگہ دے گا؟
سیاستدانوں کی فطرت ہے کہ خود کو ملنے والے ووٹ کی اپنی مرضی سے تشریح کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب کہتے ہیں انہیں ووٹ احتساب کے لیے ملا، نواز شریف نے کہا تھا کہ انہیں ووٹ بھارت سے بہتر تعلقات کے لیے ملا، پیپلزپارٹی کہتی ہے اسے ووٹ بھٹو کی وجہ سے ملا۔ عام آدمی ایسا نہیں سوچتا۔ اس کا ووٹ کسی تصادم کو ہوا دینے کے لیے نہیں ہوتا، فقط کارکردگی کے لیے ہوتا ہے۔ لڑائی احتساب کے نام پر ہو یا جمہوریت کے نام پر، لوگ اس کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر ان سیاسی جماعتوں نے ٹھوس کارکردگی نہیں دکھانی تو عوام عمران خان، نواز شریف یا بھٹو کی طرح ایک نیا تجربہ کرلیں گے۔