نواز شریف پاکستان کے پاور سٹرکچر کے خلاف جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ درست بھی مان لیا جائے تو بھی یہ حقیقت نہیں چھپ سکتی کہ وہ خود بھی کل تک طاقت کی تقسیم کے اسی نظام کا حصہ تھے۔ حصّہ کیا تھے ‘ خود اس کے طفیل اقتدار میں آئے‘ ان بن ہوئی تو نکل گئے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ وہ پاکستانی تایخ کے واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے مقتدرہ کو موجودہ شکل دینے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے فو ج کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی جو رسم شروع کی تھی‘ نواز شریف نے اسے ایک تاریخی عمل بنا ڈالا۔ جنرل غلام جیلانی خان مرحوم کے ذریعے وہ طاقت کے مرکز میں ایک تابعدار کے طور پر متعارف ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ خود ایک فریق کے طور پر ابھر آئے۔ان کے نظریات بھی عین مین اسی طرح بدلے جیسے خود ہماری ہیئت مقتدرہ میں بدلے۔ جب تک ریاستی اداروں نے دائیں بازو کے نظریات اپنائے رکھے‘ نواز شریف دائیں بازوکے اتنے بڑے حامی رہے کہ ملک میں اپنی تشریحات پر مبنی ایک اسلامی نظام بھی متعارف کرانے سے نہیں چوکے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نظریاتی اعتدال پیدا ہوا تو نواز شریف بھی ایک معتدل رہنما کے طور پر ابھرنے لگے۔ وہ اتنے آزمودہ تھے کہ محمد خان جونیجو سے لے کر آصف علی زرداری تک پاکستان کے سبھی منتخب حکمرانوں کے خلاف اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانے کے لیے عدالتوں کو آلودہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ‘مگر طاقت کی مساوات میں اپنی حیثیت قائم رکھنے کے لیے انیس سو ننانوے کے مارشل لاء سے پہلے جنرل پرویز مشرف سے اپنے والد مرحوم کے ذریعے معاملات درست کرنے میں بھی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ تاریخ کی تلخ سچائی ہے کہ خالص آمریت کے خمیر سے ان کی سیاسی تشکیل ہوئی اور ذاتی نقصانات نے انہیں جمہوریت کے راستے پر ڈال دیا۔ خالص جمہوریت نواز شریف کی ضرورت کبھی نہیں رہی‘ البتہ ایک حربے کے طور پر انہوں نے اسے وقتاً فوقتاً استعمال ضرور کیا۔انہیں اچھی طرح علم ہے کہ ان کا ماضی اور ان کی اداروں کی سیاست میں مداخلت پر گفتگو کے درمیان کوئی منطقی ربط قائم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے وہ نظریاتی سطح پر کچھ کہنے کی بجائے افراد کے بارے میں بات کرنے لگے ہیں۔تین بار وزیر اعظم رہنے کی وجہ سے انہیں اچھی طرح علم ہے کہ جب سیاسی تقریروں میں حساس عہدیداروں کے نام لیے جائیں گے تو اداروں کی صلاحیت متاثر ہوگی۔ ان کے نئے بیانیے کی بنیاد پر مستقبل کا اندازہ لگایا جائے تو ایک خوفناک تصویر بنتی ہے۔ اس تصویر کی سب سے خطرناک صورت یہ ہے کہ ہم اپنے پیشہ ورانہ اداروں کے سربراہوں کے خلاف عوام کو میدان میں لے آئیں۔ ایک بار ایسا ہوگیا تو پھر مکمل تباہی کے سوا کیا رہ جائے گا؟
عمران خان پاکستان کی سیاسی حقیقت ہیں۔ ان پر کوئی پھبتی کسی جائے‘ چاہے ان کے انتخاب پر سوال اٹھایا جائے لیکن ان کے وجود سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ ملک میں بامعنی تبدیلی کے نقارے پر چوٹ لگانے والے دوسرے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لیے عوامی سطح پر جدوجہد کے ساتھ وہ سہارے بھی تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی جو ان کے مدمقابل تمام سیاسی قوتوں کو حاصل تھے۔ اس کے باوجود یہ طے ہے کہ انہیں عوامی پذیرائی پہلے ملی اور سہارے بعد میں۔ ان کی یہی خصوصیت انہیں اپنے حریف نواز شریف پر ایک برتری دیتی ہے‘ کیونکہ نواز شریف کو حکومت پہلے ملی اور سیاسی پذیرائی بعد میں۔ اسی لیے عمران خان کی خود اعتمادی اکثر اوقات رعونت کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے یہ طرز ِعمل ان کی طاقت تھا‘ لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان کے راستے کا پتھر بن چکا ہے۔ ایک حکمران کے طور پر انہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا‘ وہ ایسا کر پارہے ہیں نہ ایسا کرنا ان کی ترجیحات میں نظر آتا ہے۔ بات یہاں رکتی نہیں بلکہ وہ اپنے ماتحت اداروں کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اب تو یہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ انہوں نے اپنے دہنِ مبارک سے سیاسی حریفوں کو مقدمات میں پھنسانے کا حکم دیا۔ کسی کو معاف نہ کرنے کی اس عادت نے ان کی ذات تو کیا ان کی نجی زندگی کو بھی سیاست کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مخالفین کے بارے میں ان کی سخت زبان اور رویے نے ان کے وزرا کو بھی اتنا زبان دراز کردیا ہے کہ وہ ماحول میں تلخی گھولنے کے ہر موقعے سے فائدہ اٹھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو برداشت نہ کرنے کا طرزِ عمل انہیں یہاں تک لے آیا ہے کہ ان کے لیے قومی اسمبلی میں تقریر کرنا بھی نا ممکن ہوچکا ہے۔ بے شک آج بھی وزیراعظم عمران خان کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت موجود ہے لیکن سیاسی اعتبار سے اپوزیشن سخت حالات کے باوجود حکومت کو ریاست کے اس اعلیٰ ترین ایوان میں چاروں شانے چت کرچکی ہے ۔ سیاسی مخالفت کو نفرت کی شکل عمران خان نے خود ہی دی‘ اب یہ ذمہ داری بھی انہی کی ہے کہ بڑے بنیں اور نظام میں پیدا ہونے والی نفرتیں کم کریں۔ وہ ایسا نہ کرپائے تو پھر کیا ہوگا‘ یہ سمجھنے کے لیے بقراط ہونے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں مقتدرہ کا مخصوص کردار ہر دور میں رہا ہے۔ اور پاکستان میں ہی کیوں‘ دنیا کے ہر ملک میں ریاستی ادارے کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ امریکا جیسے ملک میں بھی جمہوری طور پر منتخب صدور اس کردارپر انگلیاں اٹھاتے رہتے ہیں‘ لیکن اس کو سیاسی بحث کا موضوع نہیں بنایا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات جمہوری حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کی اسیر ہوکر دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کر پاتیں۔ یہ ادارے سیاسی حکومتوں کی لامحدود خواہشات کو حیلے بہانے سے ریاستی مفادات کے دائرے سے باہر نکلنے سے روکے رکھتے ہیں۔ جدید سیاسیات میں اب یہ تقریباًایک طے شدہ مسئلہ ہے کہ اداروں میں افراد کا تقرر تو سیاستدانوں کا ہی کام ہے‘ لیکن ریاستی ادارے پالیسی کی تشکیل میں سیاستدانوں جتنے اہم ضرور ہیں۔ مہذب دنیا میں ریاستی ادارے اور سیاستدانوں کے درمیان کھٹی میٹھی کشمکش چلتی رہتی ہے ‘لیکن پاکستان میں یہ کھینچا تانی غداری اور حب الوطنی کے عنوان کے تحت ہوتی ہے۔ ادارہ جاتی رائے اور سیاستدان کی رائے میں عام طور پر انیس بیس کا فرق ہوتا ہے ‘ مگر ہماری قومی نالائقی اور صرف خود کو ٹھیک سمجھنے کی عادت یہ معمولی فرق بھی ختم نہیں کرپاتی۔ سیاستدان اس درجہ خود پسند ہیں کہ حکومت میں آکر اختلاف کی جسارت کرنے والے کو ہی قابلِ گردن زدنی سمجھنے لگتے ہیں ۔ ہیئت مقتدرہ کے مستقل فریقوں میں بھی یہ رجحان بدرجہ اولیٰ پایا جاتا ہے کہ وہ ملکی مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو اور محافظ فقط خود کو سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایمان کی حد تک یقین بھی ہے کہ ہمارے پاس ملکی مسائل کا حل ہے جو واحد بھی ہے‘ قابل عمل بھی ہے اور درست بھی۔ دوسروں کا احتساب ہو تو وہ عین انصاف ہے لیکن کسی اور کی جائیدادیں محض اس کی وضاحت پر قبول کی جاسکتی ہیں۔ یہ رویہ کوئی بھی ادارہ یا بااختیار شخص بائیس کروڑ لوگوں کے ملک میں نہیں اپنا سکتا۔ بہت سے مسائل جنہیں ہم قومی سلامتی کے امورکے طور پر دیکھتے ہیں ‘ دراصل اسی رویے کی پیداوار ہیں۔یہ رویہ کسی کا بھی ہو تباہی کی یقینی ترکیب ہے ۔
محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف‘ عمران خان اور مقتدرہ تینوں اپنے اپنے تصورات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ان کو سمجھنا ہوگا کہ ملک چلانے کی ذمہ داری گھوم پھر کر انہی پر آنی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی مکمل طور پر غلط ہے نہ مکمل طور پر صحیح۔ رائے کا معمولی اختلاف ہے جو نظام کے تضادات کی صورت میں نمایاں ہورہا ہے۔ اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو ہمیں برباد ہوجانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ البتہ سبھی فریق ایک ایک قدم پیچھے کی طرف اٹھا لیں تو آگے بڑھنے کی صورت نکل آئے گی۔