"HAC" (space) message & send to 7575

ڈسکہ

ڈسکہ ضمنی الیکشن سے ہفتہ بھر پہلے ایک شام مجھے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن قومی اسمبلی کا فون آیا۔ وہ شاید سفر میں تھے اس لیے فون بار بار کٹ رہا تھا۔ رابطہ ٹوٹ ٹوٹ کر جڑتا‘ کبھی وہ فون کرتے اور کبھی میں۔ کئی کالوں کے بعد مکمل ہونے والی بات یہ تھی کہ وہ ڈسکہ میں تھے اوران کے پاس ایک ویڈیو تھی جس میں پولیس مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار سے بدتمیزی کررہی تھی۔ میں نے ان سے فوری طور پر ویڈیو بھیجنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے واٹس ایپ پر یہ ویڈیو موصول ہوگئی۔ اس میں دکھائی دے رہا تھا کہ پولیس نے ایک گاڑی کو روک رکھاہے اوراس کی تلاشی لینے پر اصرار کررہی ہے۔ گاڑی میں نوشین افتخار بھی موجود تھیں اور چلا چلا کر پولیس کو تلاشی لینے سے رکنے کا کہہ رہی تھیں۔ وہ بار بار گاڑی میں بیٹھے بچوں کے بارے میں بات کررہی تھیں جو ویڈیو میں دکھائی نہیں دیے۔ان کے احتجاج کے باوجود پولیس اہلکار گاڑی کی تلاشی پر اصرار کررہے تھے۔ یہ ویڈیو بس تلاشی لینے اور نہ دینے پر ہونے والی تکرار تھی۔ اگرچہ پولیس عام طور پر جانے پہچانے سیاسی کارکنوں کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آتی لیکن کہیں کہیں ایسا ہو بھی جاتا ہے۔ میں نے اس ویڈیوکو نظرانداز کردیا اور سوچا کہ آخر پولیس کو تلاشی کیوں نہ دی جائے؟ مجھے لگا یہ ویڈیو پولیس کی زیادتی کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ تھوڑی بہت نوشین افتخار کی افتادِ طبع کے بارے میں بتاتی ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ اپوزیشن کے امیدوار جب حکومت کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہوں تو کچھ تلخی ان کے مزاج میں آ ہی جاتی ہے۔
اس ویڈیو کے چار دن بعد یعنی الیکشن سے دو دن پہلے میں ڈسکہ اور وزیرآباد کیلئے نکل پڑا۔ راستے بھر میں مختلف لوگوں سے فون پر بات کرتا رہا کہ مقامی سیاست کو سمجھ سکوں۔ الیکشن لڑنے والوں سے لے کر الیکشن میں دلچسپی رکھنے والوں تک سبھی سے بات کی‘ ہر ایک نے یہی بتایا کہ مسلم لیگ (ن) یہ دونوں ضمنی الیکشن آرام سے جیت لے گی۔ ڈسکہ پہنچ کر شہر بھر میں پھرتا لوگوں سے پوچھتا رہا‘ میرا تاثر یہی تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو جیتنے میں کسی بڑی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ایسی ہی صورت وزیرآباد میں بھی تھی۔ وزیرآباد میں کام ختم کیا تو مجیب الرحمن شامی صاحب کی طرف سے فون پر حکم وصول ہوا کہ ان کے پروگرام 'نقطہ نظر‘ میں الیکشن کے بارے میں بتاؤں۔ چند لمحے بعد وہیں سڑک پر کھڑے کھڑے پروگرام میں شریک ہو گیا۔ شامی صاحب نے ایک سوال زور دے کر پوچھا کہ 'انتظامیہ اور پولیس تو الیکشن میں مداخلت نہیں کررہیں؟‘۔ میرا جواب تھا: 'ہرگز نہیں‘۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وزیر آباد اور ڈسکہ میں کوئی تناؤ دکھائی نہیں دے رہا تھا‘ چھوٹی موٹی ریلیاں نکل رہی تھیں‘ دونوں بڑی پارٹیوں کے جھنڈے‘ پوسٹر بھی اپنی اپنی جگہ قائم تھے۔ مجھے کوئی وجہ نظر نہ آئی کہ میں انتظامی مداخلت کی بات کروں۔ اس پروگرام کے بعد تحریک انصاف کے دوستوں کے شکوے شروع ہوگئے کہ میں نے مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کی پیش گوئی کیوں کی ہے۔ ان دوستانہ شکایتوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوگئی تومجھے لگا کہ تحریک انصاف نے اس الیکشن کو اَنا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ میں نے کچھ دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس ایک نشست کی ہار جیت حکومت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی لیکن مجھے فون کرنے والے بیشتر دوست اپنی جیت پر مُصر تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے جن دوستوں سے بات ہوئی وہ بھی پھولے ہوئے سانسوں کے ساتھ اپنی فتح کی خبر دے رہے تھے۔ وہ تناؤ جو مجھے حلقے کے ووٹروں میں نظر نہیں آیا تھا‘ لیڈروں میں دکھائی دینے لگا۔
جمعے کے روزجب الیکشن شروع ہوا توجلد ہی پتا چل گیا کہ ڈسکہ میں نمائندگی کا فیصلہ ووٹ نہیں طاقت کے ذریعے ہوگا۔ یہ کسے معلوم نہیں کہ اختیارات زیادہ تر انتظامیہ کے پاس ہوتے ہیں۔ اس دن جس طرح ڈسکہ شہر میں پولیس کے سامنے موٹر سائیکل سوار ہوائی فائرنگ کرتے رہے‘ یہ بتانے کیلئے کافی تھا کہ حکومت الیکشن جیت بھی گئی تو بہت کچھ ہار جائے گی۔ کئی پولنگ سٹیشنوں پر بار بار پولنگ رکوانا‘ لڑائی جھگڑے اور دو نوجوانوں کی موت نے اسے الیکشن رہنے ہی نہیں دیا تھا۔ شام تک واضح ہوگیا کہ یہ الیکشن نہیں‘ طاقت کا مظاہرہ ہے۔ میرے جیسے لوگ جو کراچی میں ایم کیو ایم کے عروج کے دنوں میں الیکشن دیکھ چکے ہیں‘ ان کیلئے پنجاب میں یہ سب کچھ دل شکنی کا باعث تھا۔ مجھے 2004ء میں کراچی کے ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی ہلاکتیں یاد آگئیں۔ مجھے وہ دن یاد آیا جب میں 2005 ء میں کراچی کے بلدیاتی الیکشن کور کرنے کیلئے گلستانِ جوہر کے پاس ایک پولنگ سٹیشن گیا تو وہاں دن کے دو بجے جو کچھ دیکھا کچھ ویسی ہی صورتحال اس روز ڈسکہ میں نظر آ رہی تھی۔
پاکستان میں الیکشن دھاندلی ایک مستقل موضوع ہے۔ الیکشن میں ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگا کر اپنی سیاسی بقا کا بندوبست کرتا ہے۔ اگر1970 ء سے آج تک دھاندلی کا باقاعدہ پوسٹ مارٹم کرنا شروع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1970ء کے الیکشن میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں کامیابی کیلئے ہر قسم کی دھاندلی روا رکھی اور پاکستان کی ریاستی مشینری کچھ نہ کرسکی۔ اس کے بعد 1977ء میں پاکستان پیپلزپارٹی نے زور زبردستی کرکے الیکشن جیتا لیکن اس کی قیمت اسے بہت بڑی چکانا پڑی۔ اس کے بعد کراچی میں 1980ء کی دہائی سے دھاندلی کا سلسلہ شروع ہوا جسے روکنے کے بجائے خودبعض اداروں نے اس کی سرپرستی شروع کردی۔ ہم سب کی یادداشتوں میں محفوظ ہے کہ الیکشن کے دوران کراچی کی سڑکوں پر لاشیں پڑی ہوتیں اور نتائج کا اعلان کردیا جاتا تھا۔ کراچی کے علاوہ ملک کے باقی حصوں میں سیاست دان جو کچھ بھی کہتے رہیں 2002 ء کے الیکشن کے سوا الیکشن عمومی طور پر قابل قبول ہی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1977ء کے بعد ملک میں الیکشن دھاندلی کے خلاف کوئی بڑی تحریک نہیں چل سکی۔ پی ڈی ایم کا دعویٰ ہوسکتا ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی لیکن یہ سیاسی دعوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہم عوام نے پچاس برسوں میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ان میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ دھاندلی کا دعویٰ اور دھاندلی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
ڈسکہ میں جو کچھ ہوا‘ دھاندلی کا وہ آزمودہ طریق ہے جو کراچی میں ایم کیوایم ریاستی سرپرستی میں استعمال کرتی تھی اورکامیاب رہا کرتی تھی۔ یعنی مخالفین کو دھمکانے کیلئے الیکشن کے دن صبح سے ہی فضا میں تناؤ پیدا کردینا اور مخالفین کے علاقوں میں اتنا خوف پھیلا دینا کہ ووٹر گھر بیٹھے رہنے میں ہی عافیت جانے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر سندھ کی پولیس اور ضلعی انتظامیہ بالکل ایسے ہی اندھی بہری ہوجایا کرتی تھیں جیسے ڈسکہ کے معاملے پر پنجاب کے کچھ کرتا دھرتا ہو گئے تھے۔ اب فرق صرف یہ پڑا ہے کہ الیکشن کمیشن جو اپاہج ہوکر پڑا رہتا تھا‘ اس نے ہمت دکھائی ہے۔ اصولی طور پر تو تحریک انصاف کی حکومت کو ان چاروں افسروں کو عہدوں سے ہٹا کر کوئی بات کرنی چاہیے تھی لیکن جس طرح ان افسروں کا دفاع کیا جارہا ہے وہ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ حکومت کے ارادے نیک نہیں۔ اب یہ امتحان الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ دستور و قانون کی پاسداری میں اپنے پاؤں پر کھڑا رہتا ہے یا نہیں۔ مجھے ذاتی طور پر پاکستان کے ریاستی نظام سے کوئی زیادہ خوش گمانی تو نہیں مگر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے دوبارہ امید کی شمع جلا دی ہے۔ ان کاامتحان صرف یہ ہے کہ ڈسکہ میں جو کچھ ہوا ہے اسے انتخاب تسلیم کرنا ہے یا نہیں۔ اور تحریک انصاف کو یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ واقعی ایک قومی سیاسی جماعت ہے اور ویسی جماعت نہیں‘ جسے خان صاحب دہشت گرد تنظیم کہا کرتے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں