ذرا چشم تصور سے کام لیجیے اورصرف دو دن بعد کا نظارہ دیکھیے۔ یوسف رضا گیلانی یا صادق سنجرانی میں سے کوئی ایک سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے کرسی پر بیٹھ جائے گا۔ سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی ایک دنیا بھر کے پارلیمانی وفود سے ملے گا، پاکستان کے سینیٹرز پر مشتمل وفود کا سربراہ ہوگا۔ دستورکے مطابق اگر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پاکستان سے باہر جائیں یا کسی بھی وجہ سے اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر ہوں گے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک صدر بن کر عارضی طور پر مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوگا۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک سینیٹ کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھ کر اجلاس کی صدارت بھی کیا کرے گا۔ پھر ہم اخبار نویسوں کے منہ چیئرمین سینیٹ چیئرمین سینیٹ لکھتے بولتے سوکھا کریں گے۔ ہم سب یہ بھول چکے ہوں گے کہ سید یوسف رضا گیلانی علی الاعلان اراکین قومی اسمبلی کی وفاداریاں خرید کر اس کرسی پر تشریف رکھتے ہیں یا صادق سنجرانی دوہزار انیس میں چودہ اراکین سینیٹ کی وفاداریاں بدل کر اپنی کرسی بچا چکے ہیں۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک اعلیٰ ترین ریاستی تقریبات میں بطور چیئرمین سینیٹ شریک بھی ہوا کرے گا اور وہاں موجود غیرملکی سفارتکار اسے 'عزت مآب‘ کہہ کر پکاریں گے اور واپسی پر ان کی وارداتِ انتخاب کے بارے میں لطیفے سنایا کریں گے۔ یہی نہیں اگر یہ کسی ملک کے سرکاری دورے پر جائیں گے تو ان کے مشکوک سیاسی معاملات خفیہ طور پر میزبان ملک کا سفارتخانہ پہلے سے ہی بھیج دیا کرے گا۔ اس طرح پاکستان کی عزت میں جو اضافہ ہوگا، اس کا اندازہ لگانے کے لیے چشم تصور کی ضرورت نہیں بس چند دنوں کی بات ہے سب کچھ سامنے آجائے گا۔
ان دو عزت مآبوں کا یہ کمال بھی ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کے انتخاب نے پاکستانی سیاست میں جو زہر گھول دیا ہے اس کا تریاق اگلی نسل ہی کچھ کرے تو کرے، موجودہ نسل کے بس سے تو یہ کام نکل چکا۔ ایسا نہیں کہ ان سے پہلے کبھی اسمبلیوں میں ضمیروں کی خریدوفروخت نہیں ہوئی، ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے چوری کے ساتھ سینہ زوری کرکے نئی مثال قائم کردی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک یہ کام صرف حکومتیں ہی کیا کرتی تھیں۔ یہ اعزاز انہی کی پارٹی کوملا ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر بھی وہ ہارس ٹریڈنگ کرسکتی ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے انیس سو اٹھاسی سے انیس سو نوے تک یہ کام بڑی تندہی سے کیا۔ اسی زمانے کے پنجاب میں نواز شریف صاحب بطور وزیراعلیٰ اپنے حامیوں کو تحصیلداروں اور پولیس انسپکٹروں کی اسامیاں عطا کیا کرتے تھے۔ پھر یہی کام سندھ میں شروع ہوا تو پیپلزپارٹی نے براہ راست ڈی ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر کے درجے کی ملازمتیں ووٹوں کی خریداری کیلئے استعمال کیں۔ مشیت ایزدی کہیے کہ یہ کام صرف اٹھارہ ماہ چلا، لیکن اس طرح بھرتی ہونے والوں نے ملک کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اتنے معاملات کے باوجود اس زمانے میں ان دونوں پارٹیوں میں سے یہ ہمت کسی کی نہیں تھی کہ عوام میں آکر اسمبلیوں کے ووٹ ادھر ادھر کرنے کا اس طرح اعتراف کرے جیسا بالخصوص یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے برسرِ میڈیا کیا ہے۔
ان دونوں عزت مآبوں میں سے یوسف رضا گیلانی کو صادق سنجرانی پر یہ سبقت حاصل ہے کہ ثانی الذکر نے ووٹ چرائے جبکہ اول الذکر کیلئے ووٹوں کا حصول ڈاکا مارکے ممکن بنایا گیا‘ یعنی ان کا صاحبزادہ بنفس نفیس لوگوں کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرتے پکڑا گیا اور اس نے اسے اپنا جمہوری حق بھی قرار دیا۔ بات یہیں تک رہتی توکچھ بھرم رہ جاتا۔ یوسف رضا گیلانی کی فتح کے بعد حامد میر کے پروگرام میں آصف علی زرداری نے فرمایا 'ہمیں بیس ووٹوں کی اکثریت ملنی تھی مگر صرف پانچ کی ملی‘۔ ان کے بعد مریم نواز نے ارشاد کیا 'ن لیگ کا ٹکٹ چلا ہے ووٹ توڑنے کے لیے‘۔ پھر بلاول بھٹو زرداری نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا 'ہمیں پتا ہے کون تیر کے نشان پر اور کون شیر کے نشان پر الیکشن لڑنا چاہتا ہے‘۔ ان تینوں رہبروں کے بیانات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ مستقبل کے خوف یا لالچ کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے اراکین کو خریدا گیا ہے۔ دنیا میں کسی مہذب ملک میں ایسا ہوتا تو اب تک سب کچھ الٹ پلٹ چکا ہوتا مگر یہ پاکستان ہے، یہاں صرف باتیں کی جاتی ہیں۔ جیسے خان صاحب اور الیکشن کمیشن کرتے ہیں۔
عمران خان گزشتہ ڈھائی برسوں میں کچھ نہیں کرپائے۔ پہلے تو ان کی حکومت میں پائی جانے والی فراواں نالائقی نے کچھ نہیں کرنے دیا اور کچھ مہینوں سے اپوزیشن ان کی جان کا آزار بن چکی ہے۔ ان کی بار بار کی تقریروں کے باوجود عوام ڈھائی سالوں میں اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ حکومت چلانا، تبدیلی برپا کرنا یاکچھ بھی کرنا موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں۔ ان سے آخری امید بس یہی رہ گئی تھی کہ اگر حکومت کی ساکھ پر کوئی اخلاقی سوال اٹھ کھڑا ہوا تو وہ اس پر سمجھوتہ نہیں کریں گے‘ لیکن ان کے بارے میں یہ امید بھی سراب ہی نکلی۔ انہوں نے متعین الزام لگایاکہ ان کی پارٹی کے سولہ ارکان قومی اسمبلی بکے ہیں اور اگلے دن ہی ان سولہ ارکان کو شامل کرکے اسمبلی سے اعتماد کو ووٹ لے لیا۔ اگر خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے اسمبلی کا اجلاس بلاتے اور ان سولہ اراکین کا کچا چٹھا کھول کر اسمبلی توڑ دیتے توپاکستان کی جمہوریت ایک چھلانگ لگا کرآگے بڑھ جاتی۔ اس کے بعد شاید بکنے والے تو رہتے مگر خریدنے والے نہ رہتے۔ نئے الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی ہوتا خان صاحب کی اخلاقی حیثیت مثالی ہوجاتی‘ مگر باتوں سے آگے کوئی بڑھے تو۔
الیکشن کمیشن کا ماضی بھی صرف باتیں بنانا ہی رہا ہے۔ ڈسکہ کے الیکشن کے بعد محسوس ہوا کہ الیکشن کمیشن میں جان بھی ہے۔ اب اس کے سامنے یوسف رضا گیلانی کا الیکشن ہے۔ ماضی کی طرح چون و چرا کے چکروں میں الجھنا ہے تو پھر ہم سمجھ لیں گے کہ الیکشن کمیشن سے ڈسکہ والا کام اتفاق سے سرزد ہوگیا تھا ورنہ پاکستان کے نصیب میں کوئی مضبوط ادارہ نہیں ہے۔ ڈسکہ کی طرح فیصلہ کرنا ہے تو علی حیدر گیلانی کی ویڈیو، سندھ کے صوبائی وزیر کی آڈیو، سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کے اعترافات کافی ہیں۔ اگرالیکشن کا نتیجہ رک جانے کے بعد یوسف رضا گیلانی عدالت جا کر اپنا نتیجہ لینا چاہیں تو لے لیں، مگر عوام کو یہ تو پتا چل جائے گا نا‘ کہ ووٹ کی عزت کیلئے کون ہے جو اپنے قد سے کھڑا ہے۔
جب سے مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں ووٹوں کی خریداری کا اعتراف کیا ہے، اسی دن سے اس خاکسار کو یہ سمجھانے والے بہت ہیں کہ سیاست اسی کوتو کہتے ہیں‘ تمہیں اخلاقیات سے کیا‘ تم صحافی ہو آرام سے واقعہ بہ واقعہ حالات کی تشریح کرو اور بس۔ یوسف رضا گیلانی کا جیت جانا ایک سیاسی واقعہ ہی تو ہے، تم اسی تک خود کو محدود رکھو۔ کچھ نے یہ بھی سمجھایاکہ عمران خان کے سولہ ارکان بک گئے تو کیا ان گناہگاروں کو سزا دینے کیلئے بے گناہوں کو بھی نئے الیکشن کی ٹکٹکی پر چڑھا دیا جائے۔ میں اپنے کرمفرماؤں کا شکرگزار ہوں لیکن کوئی مجھے یہ بھی تو سمجھائے کہ ایسی اسمبلی‘ جہاں پندرہ لوگ بک جاتے ہوں اور ان کی خریداری کرنے والے بھی سرعام اعتراف کرلیں‘ کا علاج سوائے ٹوٹ جانے کے اور کیا ہے؟ ایسا سینیٹ جس کے ووٹ خرید کر کوئی اس کا چیئرمین بن جائے تو اس کے باقی رہنے کا جواز کیا ہے؟ کیا میں ایماندار لوگوں کو ان سولہ لٹیروں کا پشت پناہ سمجھوں، جو عوام کے ووٹ کے پیسے کھرے کرتے ہیں؟ ایمانداروں سے ہی تو امید تھی کہ وہ ان چوروں سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے۔