"HAC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کے بعد

آپ کو یاد ہوگا، ڈھائی سال پہلے عمران خان صاحب شیروانی پہن کر وزیراعظم کے طور پرحلف لینے کیلئے آئے تھے۔ جب انہیں حلف پڑھنے کیلئے دیا گیا تو انہوں نے قمیص کی دائیں طرف لگی جیب سے عینک نکالنے کیلئے شیروانی اس طرح اٹھائی کہ ایک عجیب سا منظر بن گیا۔ بمشکل تمام عینک نکلی تو حلف پڑھتے ہوئے ایک لفظ پر اٹک گئے۔ یہ مرحلہ گزرا تو قیامت کو قیادت ادا فرما دیا۔ صدر ممنون حسین نے دوبارہ پڑھ کردرست کروایا تو یہ لفظ دہن مبارک سے ادا ہوا۔ اس کے بعد بھی کل ڈھائی سو الفاظ پر مشتمل اس حلف نامے کو پڑھتے ہوئے کئی جگہ تلفظ کو تباہ کر دیا، کہیں اضافتیں نظر انداز کردیں اور'کماحقہ‘ کے آخری حرف پر جو پیش ہے اسے بھی چھوڑ دیا۔ اس تقریب کے آغاز پر بھی وہ شوق اقتدار یا اپنی بہتر صحت کی وجہ سے صدر مملکت سے قدم آگے بڑھا کر سٹیج پر چڑھ گئے جو صرف انہی کی حلف برداری کے لیے سجایا گیا تھا۔ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں سے اس دن‘ جو ان کی زندگی کا اہم ترین دن تھا، ان کی شبیہ ایک ایسے شخص کی ابھری جو اپنے کام کی جزیات پر توجہ نہیں دیتا۔ اپنی زندگی کے اس بہترین دن کے لیے بھی وہ حلف برداری کی تفصیلات نظرانداز کرگئے۔ کتنا آسان کام تھاکہ ان کا کوئی بھی معاون ان کی عینک حلف نامے کی فائل پر رکھ دیتا۔ پھر یہ بھی کیا مشکل تھاکہ اس دن کسی بھی اردو جاننے والے شخص کو تقریب سے پہلے بلا کر حلف نامے کی عبارت کی مشق فرما لی جاتی۔ اسی دن ہم جیسوں کوبھی یہ علم ہوگیا کہ ان کے ارد گرد ایک بھی ایسا شخص نہیں جو طے شدہ تقریبات کے بارے میں ہی کچھ تیاری کرسکے۔
جو بھدا پن تقریب حلف برداری کے ذریعے خان صاحب نے متعارف کرایا، وہ ایک واقعہ نہیں تھا، بلکہ مسلسل عمل کا آغاز تھا۔ جب سے انہوں نے حکومت سنبھالی ہے معیشت کو دیکھ لیجیے، زراعت کے متعلق جناب کے دعوے یاد کرلیجیے، سو دنوں کی منصوبہ بندی ذہن میں دہرا لیجیے، ایک کروڑ نوکریوں کے نعرے، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر، پاکستانی پاسپورٹ کی عزت، پولیس اصلاحات، بلدیاتی نظام غرض کیا کچھ نہیں جس کے کرنے کا دعویٰ نہ کیا ہو اور اسے نہایت پھوہڑ پن کے ساتھ کرکے چھوڑ نہ دیا ہو۔ نالائقوں کی ایک فوج ہے جسے وزیر مشیر بناکر اس قوم کے سر پر سوار کردیا گیا ہے۔ پہلے دن سے لوگوں نے کہا ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو معیشت کا سرے سے کچھ پتا نہیں مگر ان کو وزیرخزانہ بنادیا گیا۔ اب حماد اظہر کو ان کی جگہ لایا گیا ہے تو بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ سال بھر سے زیادہ ان کے پاس وزارت صنعت و تجارت رہی اورانہی کے دور میں چینی کا بحران پیدا ہوا‘ اور چھوٹی صنعتوں کو نقصان پہنچا۔ اب وہ ترقی پاکر ملکی خزانے کے نگران ہو گئے ہیں۔ خان صاحب کی مردم شناسی پر اور تحریک انصاف کے اس دردناک انجام پر کیا کہا جائے اور کیا‘ کیا جائے؟
تاریخ کے ہاتھوں برسر اقتدار پارٹی کی جو درگت بنے گی وہ تو بنے گی لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟ فی الحال عام تاثر یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کوئی بڑی غلطی نہ کرے تواسے اگلی حکومت مل جائے گی۔ فرض کیا ایسا ہوگیا تو کیا پاکستان کی ترقی کا دور شروع ہوجائے گا؟ نظر آنے والی کارکردگی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سے کہیں آگے نظرآتی ہے۔ جب اس کی کارکردگی کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جماعت کو بھی پاکستان کے مسائل کا علم ہے نہ انہیں حل کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹیم۔ 2013 تا 2018 اس نے پاکستان کی معاشی ترقی کا جو ماڈل اختیار کیا وہ اندرونی پیداوار بڑھانے کے بجائے عملی طور پراپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے پیسے کمانے پر مبنی تھا، یعنی اس زمانے میں جو تھوڑی بہت ترقی ہوئی درحقیقت چین کی سرمایہ کاری کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کی تھی۔ ایسی ترقی دیرپا ہوسکتی ہے نہ اس ماڈل پر چلتے ہوئے مقامی وسائل ترقی پاسکتے ہیں۔ اس طرح کی ترقی کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ایک دن اچانک آپ کو اپنا خزانہ خالی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد اس جماعت نے فوج کے خلاف ایک نظریہ تشکیل دے لیا ہے جو اسے آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ اب اگر اسے حکومت مل بھی جائے تو یہ خوف اپنی جگہ قائم ہے کہ اقتدار میں آکریہ جماعت اداروں سے لڑائی چھیڑ دے گی جس کی وجہ سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ گویا مسلم لیگ ن کو اقتدار ملنے سے بھی معیشت سنبھل پائے گی نہ استحکام میسر آسکے گا۔ یہ اپنی طرز کی ایک نالائق حکومت ہو گی جو بظاہر دھیمے لہجے میں اصولی باتیں کرتی رہے گی لیکن ملک کو آگے لے کر نہیں چل پائے گی۔
مسلم لیگ ن کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی ایک آپشن ہے۔ اس جماعت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے گورننس نام کو بھی نہیں آتی۔ سندھ میں تیسری بار مسلسل حکومت کے باوجود یہ صوبہ بدانتظامی کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طورپر اسمبلیوں میں اس جماعت کی کارکردگی دیگر تمام جماعتوں کے مقابلے میں بہترین ہے۔ 1973 کے دستور سے لے کر سندھ اسمبلی کے پاس کردہ قوانین کو دیکھ لیجیے، آپ کو پتا چلے گا کہ یہ واحد جماعت ہے جوملکی ڈھانچے کو درست کرنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے۔ جب انہی قوانین کے نفاذ کی بات آئے گی تو نظر آئے گا کہ یہ وہ جماعت ہے جو ڈھنگ سے کراچی کا نظام بھی نہیں چلا سکتی۔ سندھ میں سرکاری مشینری میں بھرتی کے لئے میرٹ کی دھجیاں اسی جماعت نے اڑائیں۔ ایک روشن خیال جماعت ہونے کے باوجود اپنے زیر نگیں صوبے کی شہری آبادی کو اس نے بنیادی حقوق تک سے بھی محروم کردیا۔ اپنی سیاست کے لیے نسلی تعصب کے استعمال کی مثالیں تو پہلے بھی اس کی سیاست میں مل جاتی تھیں لیکن آصف علی زرداری نے تو اسے باقاعدہ نظریے کے طور پر برتا۔ سندھ تو سندھ پیپلزپارٹی نے ہی پہلی بار جنوبی پنجاب میں تعصب کو ہوا دی، خیبرپختونخوا میں پختون عصبیت کو زندہ کیا، بلوچستان میں قبائلی انداز فکر کو سیاست میں اسی نے نئی زندگی دی۔ یہ جماعت اب نئے تضادات کا شکار ہوچکی ہے کہ اب اسے حکومت مل بھی جائے تومفاہمت کے نام پر جرائم کی پردہ پوشی کے سوا کچھ نہ کرپائے گی۔ معیشت سے تو اس کا سرے سے لینا دینا ہی کوئی نہیں اس لیے، اس پر کیا بات کریں!
وہ زمانہ گزر گیا جب ملک نظریات کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے اور سیاسی جماعتیں اپنے خیالات کی طرف لوگوں کو راغب کیا کرتی تھیں۔ آج کی دنیا معیشت اور گورننس کی دنیا ہے۔ جو ملک ان دو پیمانوں پر پورا نہیں اترتا وہ دنیا کے نقشے پر قائم تو رہتا ہے لیکن کسی قابل نہیں رہتا۔ پاکستان کے ساتھ یہ ہوچکا ہے، آپ زیادہ رجائیت پسند ہیں تو یہ کہہ لیں کہ ہو رہا ہے۔ ہمارا عام فرد بے ہنر، ہمارا اعلیٰ ترین دنیا میں ادنیٰ ترین، گورننس کے ہر پیمانے پر ہم گرتے جا رہے ہیں، سیاست دانوں میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا ملک سے باہر بندوبست موجود نہ ہو۔ اپنی عظمت کے ہم جتنے بھی نغمے گا لیں، دنیا انہیں ایک لطیفے جتنی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اپنی غلطیوں کے اعتراف کی ہمت انفرادی طور پر ہم کرسکتے ہیں نہ اجتماعی طور پر۔ معیشت اب قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے۔ صرف تحریک انصاف نہیں، ہر حکومت کی مبلغ معاشی حکمت عملی یہ ہے کہ فلاں فلاں ملکوں کی رقابت کی وجہ سے ہمیں پیسے مل جائیں گے کیونکہ ہمارا جغرافیائی محل وقوع بڑا اہم ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے اس دھوکے نے ملک کی حالت یہ کردی ہے کہ تحریک انصاف کے ایک وزیر نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنے بیٹے کو ہمیشہ کے لیے بیرون ملک چلے جانے کی اجازت دی کیونکہ بیٹے کو پاکستان میں کوئی مستقبل نظر آرہا تھا نہ اس کے وزیر باپ کو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں