"HAC" (space) message & send to 7575

جتھے

علم سیاسیات کا ایک اہم موضوع پریشر گروپس ہیں، یعنی ایسے گروہ جو منتخب ہوکر حکومتی ایوانوں میں تو نہ پہنچ سکیں لیکن جلسے جلوسوں اور احتجاج کے ذریعے حکومتی فیصلوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ سیاسی میدان میں اس طرح کے گروپ اسی وقت تک متوازن رہتے ہیں جب تک ان کے مخالف گروہ بھی اتنی ہی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک پریشر گروپ ایسی عدالتوں کی تشکیل کے لیے کوشش کرتا ہے جن میں جج عوام کے ووٹ لے کر آئیں تو اس کے مقابلے پر دوسرا گروہ مستقل ججوں کے تقرر پر زور دینے والا ہو۔ ظاہر ہے دو مختلف الخیال گروہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آئیں گے تو کوئی بھی ریاست کو ڈکٹیٹ کرانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ دونوں اپنے اپنے دائرے میں رائے عامہ ہموار کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے، قانون سازوں کو اپنے دلائل سے قائل کریں گے اور یوں اس کھینچا تانی میں عدالتی نظام کی اصلاح بھی ہوتی رہے گی۔ ایک خیال کے مقابلے میں دوسرا خیال، ایک رائے کے مقابلے میں دوسری رائے اور طے شدہ حدود میں ایک گروہ کے سامنے دوسرا گروہ درحقیقت جمہوریت کے آگے بڑھنے کے فطری لوازمات ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ایک طرح کے گروہ تو رہیں مگر ان کے مقابلے پر دیگر کسی رائے کے حامل گروہ کی موجودگی ممکن ہی نہ رہے تو پھر یہ علم سیاسیات کے پریشر گروپس نہیں رہتے بلکہ جتھے بن جاتے ہیں جو درحقیقت جرم و سزا کا موضوع ہیں مگر پاکستان میں یہ سیاست کا حصہ ہی سمجھے جاتے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مخصوص قسم کے مذہبی گروہ تو موجود ہیں مگر انہیں متوازن رکھنے کے لیے کسی دوسرے گروہ کا وجود ہی ناممکن ہو چکا ہے اور نتیجہ یہ کہ مخصوص گروہ بے قابو ہو کردہشتگردی کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں یا اس کے بالکل قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ذرا گہرائی سے دیکھا جائے تو بظاہر مختلف نظر آنے والے اپنی اپنی فرقہ ورانہ شناخت پر اصرار کے باوجود ایک ہی طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
اس یکساں رویے کی شناخت کیلئے میری عمر کے لوگوں کو کتابیں نہیں کھنگالنا پڑیں گی بلکہ محض یادداشت ہی ان جتھوں کے یکساں انداز فکراور طرزعمل کوواضح کردے گی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ انیس سو ننانوے میں جماعت اسلامی نے اسی طرح کے ایک پریشر گروپ کی حیثیت اختیار کی تھی۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اس کی طاقت صفر تھی۔ اندرون ملک ریاست کو سخت گیر لبادہ پہنانے میں اس کے اکابرین نے اپنا کردار ہمیشہ ادا کیا تھا‘ لیکن ایک خاص حد سے کبھی آگے نہیں بڑھی تھی۔ انیس سو ننانوے میں اس جماعت نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد پر شدید احتجاجی مظاہرے کئے تھے۔ مقصد بھارت کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار تھا‘ جو پورا ہوا۔ اس زمانے میں موبائل فون کیمرہ تو عام نہیں تھا لیکن جماعت نے اپنے مظاہروں اور پھر پولیس کے ردعمل کو فلمانے کا باقاعدہ بندوبست کیا تھا، گویا اپنی حکمت عملی کی جزئیات تک اس نے خوب غوروفکر کر رکھا تھا۔ قانونی دائرے کو توڑ کر منعقد کیے جانے والے ان مظاہروں کو جب سختی سے حدود میں لانے کی کوشش کی گئی تو لامحالہ پولیس کو تشدد کرنا تھا۔ اس تشدد کی بہترین فلمبندی کرکے اسے شہر شہر پہنچایا گیا اور ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا جو چند ماہ بعد فوجی حکومت کے لیے موزوں ہوگیا۔ اس وقت جماعت اسلامی کیا تھی، کیسے استعمال ہوئی اور کس نے استعمال کی، ان سوالوں کے جواب ظاہروباہر ہیں۔
پاکستان میں خارجہ پالیسی کا ایک بڑا چیلنج افغانستان ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کا حملہ ہوا تو ہمارے ہاں سروفروشوں کے گروہ بن گئے۔ انہیں مختلف ذرائع سے بے پناہ پیسہ ملا اور نامعلوم پیسے کے زور پر شدت پسند علما کا ایک ایسا گروہ وجود میں آگیا جس کے پاس جنگ فروشی کے سوا کوئی ہنر نہ تھا۔ اس نے جنگ کو باقاعدہ مذہبی تعلیم کا حصہ بنایا اور امریکی خارجہ پالیسی کا اہم جزو بن گیا۔ اس طبقے کی وجہ سے ریاست اس قابل بھی نہ رہی کہ وقت اور ضرورت کے تابع اپنی پالیسی میں تھوڑی بہت بھی ترمیم کرسکے۔ پھر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہی گروہ اب ریاست کے درپے ہوگیا کہ اس نے خارجہ پالیسی بدلی تو اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ تصور کیجیے کہ ایک دوسرے ملک پر تیسرے ملک نے حملہ کیا اورستر ہزار پاکستانی سڑکوں پر مار دیے گئے۔ یہ گروہ بھی ویڈیو بناتے، اس کی تشہیر کرتے اور پاکستان کی توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ان سے نمٹنے کے لیے ہماری فوج نے کتنی قربانیاں دیں اس کا حساب تاریخ بھی شاید کبھی نہ دے سکے۔ ان ساری قربانیوں کا صلہ یہ کہ سابق امریکی صدر اوباما جب اسامہ بن لادن کا پتا چلا لیتا ہے اور اسے مارنے کیلئے اپنے فوجی پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ہماری ہی سرزمین پر بھیجتا ہے تو وجہ اس کی یہ بیان کرتا ہے کہ ہمارے ریاستی ڈھانچے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دہشتگردوں سے روابط رکھتے ہیں۔
کالعدم تحریک لبیک پاکستان کو دیکھ لیجیے۔ یہ جماعت سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد وجود میں آئی۔ اس نے ابتدائی طور پر مقامی مذہبی مسائل پر سخت پوزیشن لی اور جلد ہی فرانس میں ہونے والی گستاخانہ حرکتوں کو اس نے اپنی تحریک کا جواز بنا کر وہی روش اختیار کرلی جو اس سے پہلے کی جاتی رہی ہے‘ یعنی کسی دوسرے ملک میں ہونے والے جرم کی سزا پاکستان کو دینا۔ اس نے بھی بے لچک رویہ اپنایا، ویڈیوز کے ذریعے اپنے متعلقین کو 'نظریاتی‘ پختگی کا مواد فراہم کیا اور ریاست اس کے سامنے جھک کر ایسے غیر حقیقی کام کرنے کی ہامی بھرنے لگی جو دراصل اس کی بساط سے باہر ہیں۔ یکے بعد دیگرے ریاست کے ساتھ چار معاہدے کرکے اس نے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ ہماری پارلیمنٹ کو بھی اپنی مرضی کے تابع کرلیا ہے۔ گویا ہم دو ہزار اکیس میں بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں انیس سو انچاس میں تھے۔ اس وقت بھی ہم نے پارلیمنٹ سے باہر پریشر گروپوں کی بات مان کر ایک قرارداد منظور کی تھی آج بھی پریشر گروپس اتنے طاقتور ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ کی سب سے بڑی قوت یعنی حکومت نے اس حوالے سے ایک قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی ہے۔
ایک ہی طرح کے گروہ، ایک ہی طرح کے معاملات کو اٹھائیں اور ریاست ہر باران کے سامنے جھک جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک کے مسئلے کو اٹھانا، اس پر تقریریں، ویڈیو، جلسے، دھرنے اور مذاکرات کا طے شدہ طریق کار ہے جو ہر بار ایک ہی طرح کے نتائج پیدا کرتا ہے۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ ہردم تشدد پر تیار ان جتھوں کو ریاست کے اندر کہیں نہ کہیں سے مدد مل جاتی ہے۔ کبھی ریاستی ڈھانچے کے اندر کوئی طاقتور اپنے مخالف کو ٹھکانے لگانے کے لیے انہیں استعمال کرتا ہے تو کبھی سیاستدان انہیں اپنے حریفوں کے خلاف برتنے لگتے ہیں۔ یعنی جہاں ان جتھوں کی حکمت عملی میں ایک تسلسل نظر آتا ہے وہیں ان کے ذریعے فوائد اٹھانے والوں کی سوچ بھی یکساں دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں جمہوریت، معیشت، ترقی، تعلیم بے معنی الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ حقیقت اگر ہے تو فقط اتنی کہ آپ بھی اپنے جتھے کے ساتھ رہیں جو آپ کے عزائم کی تکمیل میں آپ کا مددگار ہوسکے۔ یہ پاکستان ہے یہاں جتھے ختم نہیں ہوتے بس بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں