چند روز پہلے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان نے فوج کے ذیلی ادارے آئی ایس پی آر کے تحت ہونے والی فلم سازوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دونکتے ارشاد فرمائے۔ اوّل‘ پاکستانیت کو فروغ دیا جائے‘ اور دوم یہ کہ نقل کرنے کے بجائے اپنے موضوعات کو اظہار کا ذریعہ بنایا جائے۔فلم چونکہ شاعری‘ موسیقی‘ کہانی‘ اداکاری‘ گلوکاری ‘ عکاسی غرض یہ کہ سبھی فنون لطیفہ کا مجموعہ ہوا کرتی ہے اس لیے وزیراعظم کی ان ہدایات کا اطلاق بالفعل ان سبھی شعبہ ہائے فن پر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اپنے کھیل کے تجربات بھی بیان فرمائے‘ سیاحت سے وابستہ اپنی امیدوں کا ذکر کیا اور نصرت فتح علی خان مرحوم کی بے مثال صلاحیتوں کو بھی یاد کیا۔ یہ فنون جس فضا میں پنپتے ہیں اسے آپ وسیع تر معنوں میں کلچر کہہ سکتے ہیں‘ یعنی وزیراعظم کی گفتگو کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کی مراد پاکستان کا عمومی کلچر ہے۔
کلچر کیا ہے اور کسی خاص ملک میں کلچر کیسے پنپتا ہے‘ اس بارے میں بے شمار کتابیں موجود ہیں اور شاید ہی دو کتابیں ایسی ہوں جو کلچر کی تعریف یا اس کے فروغ کی وجوہات پر متفق ہیں‘ البتہ ایک بات پر سبھی متفق ہیں کہ جب بھی حکومتیں کلچر کی کسی خاص تعریف پر اصرار کریں یا کلچر کو کسی خاص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں تو پھر معاشرے تباہ ہونے لگتے ہیں۔ کلچر خالصتاً عوام کے خیالات کا آئینہ دار ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ خود ہی ایک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ زمانوں پر پھیلا ہوا ایسا پیچیدہ عمل ہے کہ اسے آج تک سمجھنے کی تگ و دو کی جارہی ہے لیکن سرا ہاتھ میں نہیں آتا۔البتہ کسی بھی کلچر میں جہاں جہاں حکومت یا سیاست نے کوئی پخ لگا رکھی ہوتی ہے وہ ضرور پکڑی جاسکتی ہے مثلاً پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کا کلچر سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا اور اس کی قیمت ہم نے اپنی گردنیں کٹوا کر دی۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ جو ہمارا مشترکہ تہذیبی و ثقافتی سرمایہ تھا اسے دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت برباد اگر نہیں بھی کیا تو دونوں ملکوں کی غالب آبادی کو بدظن ضرور کردیا ہے۔ جیسے بھارت میں بابری مسجد کو منہدم کردیا گیا اور اب سرکاری سرپرستی میں مغل دور کی دیگر عمارتیں نشانے پر ہیں۔ویسے ہی پاکستان میں مذہبی جوش و جذبے سے محلوں‘ شہروں اور دیہات کے نام بدل دیے گئے۔ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہے جب پاکستان میں 'اسلام خطرے میں ہے‘ کا نعرہ لگا کر مذہبی اقلیتوں کا استحصال نہیں کیا جاتا۔ اکثریت کو اقلیت کے خوف میں مبتلا کردینا‘ بے معنی سازشی تھیوریوں کو حقیقت کے طور پر پیش کرنا‘ سیاسی مخالفین کے مذہبی خیالات کی بنیاد پر انہیں تنقید کا نشانہ بنانا یا مختلف سیاسی نظریات کو دلیل بنا کر لوگوں کو غدار قرار دینا ‘ سب کچھ عوام کے اندر فطری طور پر پیدا ہونے والے خیالات نہیں ہوتے بلکہ سیاسی حربے کے طور پر پیدا کیے جاتے ہیں۔ اس لیے جب وزیراعظم عمران خان اوروفاقی وزیر فواد چودھری سرکاری افسروں کی ایک فوج کے جلو میں کلچر کلچر پکارتے ‘ فلمیں بنواتے اور ملک کے بین الاقوامی تاثر کی دہائی دیتے نظر آئیں تو اس خوف سے دل لرزنے لگتا ہے کہ کہیں حکومت پھر کسی مار پر تو نہیں۔
کلچر فی نفسہٖ ایک وسیع اصطلاح ہے جس کے معنی کہنے والے اور سننے والے کی سوچ پر منحصر ہیں۔اس اصطلاح میں پائی جانے والی وسعت اور پیچیدگی کی وجہ سے ہی ترقی یافتہ ملک اسے ریاستی امور میں جگہ نہیں دیتے۔ چونکہ جدید ریاستی کارخانہ صرف قانون کے تابع ہی چلایا جاسکتا ہے اس لیے ان ریاستوں میں کون کیا پہن رہا ہے‘ کیا کھا رہا ہے‘ گھر میں کیسے بسر کرتا ہے جیسے سوالات میں حکومتی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں ریاستی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ کلچر جیسی نازک اور فطری چیز ان کے دائرۂ اختیار میں ہے۔یہ نکتہ انہیں سمجھ ہی نہیں آسکتا کہ حکومتوں کا بنیادی کام قانون نافذ کرنا ہے نہ کہ بحثوں میں الجھنا۔ آ پ ذرا تصور کیجیے کہ جب لاہور کے قریب سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کی عصمت دری کی گئی تو اس وقت لاہور کے سی سی پی ا و نے سوال اٹھایا تھا کہ آخر یہ خاتون رات گئے گھر سے نکلی کیوں؟ اسی طرح ہمارے وزیراعظم نے حال ہی میں فرمایا ہے کہ خواتین کامختصر لباس دراصل مردوں کو زیادتی پر اکساتا ہے۔ یعنی لاہور کے کوتوال سے لے کر وزیراعظم تک بالفاظ دیگر متاثرہ خواتین کو ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں اورکلچر کی مسخ شدہ شکل کو دلیل کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اب وزیراعظم ایک نئی بات کررہے ہیں کہ پاکستانیت کو فروغ دیا جائے۔ گویا سرکاری کلچر کا ایک نیا تصور پیش کیا جارہا ہے۔ پاکستانیت کیا ہے‘ اس کی تعریف کیسے ہوگی‘ کیا حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے الفاظ بنائے اور پھر ان کے معنی بھی ہم پر تھونپ دے؟ ظاہر ہے جب وزیراعظم پاکستانیت کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں تو ان کے نزدیک اس کا کوئی مطلب بھی ہوگا۔ توان کے ارشادات کی روشنی میں کیا یہ سمجھا جائے کہ وہ خاتون جو رات دیر گئے اپنے بچوں کو لے کر موٹروے پر گئی تھی تو اس نے پاکستانیت کی خلاف ورزی کی یا کوئی خاتون وزیراعظم کے طے کردہ معیار سے کم تر کپڑے پہن لے تو کیا اسے پاکستانیت کے تابع کوئی جرم سمجھا جائے گا؟
چلیے پاکستانیت کی سمجھ تو کسی کو آئی یا نہیں آئی لیکن یہ طے ہے کہ وزیراعظم نے اوریجنلیٹی یعنی فن کے نقل نہ ہونے کی جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ بے شک و شبہ ایسی ہے جسے ہر آدمی سمجھ سکتا ہے لیکن یہاں بھی مصیبت یہ ہے کہ نالائقوں کو سب سے زیادہ اوریجنیلٹی سے ہی تو خوف آتا ہے‘ مثلاً پاکستان میں اگر کوئی شخص بھگت سنگھ پر فلم بنانا چاہے تو کیا اسے اجازت ہوگی کہ وہ پوری آزادی سے یہ فلم بنا سکے؟ اس سوال کا اصل جواب اسی وقت ملے گا جب ایسی کوئی فلم بنے گی۔ میرے اس شک کی وجہ یہ ہے کہ بھگت سنگھ کی داستان چونکہ ہماری سرکاری تاریخ سے لگا نہیں کھاتی‘ اس لیے ایسی اجازت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح دلا بھٹی اور خوشحال خان خٹک کی مغل سلطنت کے خلاف جدو جہد کو فلمانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ چلیے پرانی باتیں چھوڑ دیں کیا اکبر بگٹی کی زندگی پر کوئی فلم بنانا چاہے تو اسے مطلوبہ تعاون دستیاب ہوجائے گا؟ اس طرح کے بے شمار موضوعات ہیں جن پر فلمیں بن سکتی ہیں‘ کتابیں لکھی جاسکتی ہیں‘ کہانیاں بُنی جاسکتی ہیں مگر ریاست کی مداخلت کی وجہ سے آزاد فکری کا وہ ماحول ہی سرے سے پاکستان میں نہیں جو فنکار کو اپنے فن میں طاق ہوجانے کے لیے مہمیز کرے۔ ہاں سرکار کی دی ہوئی کہانیاں ہیں جن کو فلما فلما کر کچھ لوگ اچھے پیسے بنا سکتے ہیں‘ اسے ہی نالائقستان میں کلچر کہا جاتا ہے۔
گانا‘ فلم‘ شاعری‘ سیاحت‘ کہانی سب کچھ کلچر کا حصہ ہے۔ اب ذرا سوچ کر بتائیے کہ ایک اچھا گانا طبیعت پر جو اثر ڈالتا ہے اس کو ماپنے کا پیمانہ کیا ہوگا؟ ایک سیاح جو پیسے بھر کے کسی دوسرے ملک یا علاقے میں جاتا ہے‘ آخر اسے کیا حاصل ہوتا ہے؟ ایک اچھی فلم دیکھنے کا حاصل وصول کیا ہے؟ ظاہر ہے ان میں سے کچھ بھی گنتی کی طرح نہیں بتایا جاسکتا مگر یہ طے ہے کہ گانے‘ سیاحتی مقام اور فلم کی قدروقیمت کا تعین عوام ہی کریں گے‘ حکومتیں نہیں۔ حکومت کا اس معاملے میں بس اتنا کردار ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جس میں آزادانہ تخلیق اور اظہار ممکن ہو۔ یہ نہ ہو کہ یونیورسٹی طلبہ سے خطاب کے لیے کسی کو بلانا چاہے تو حکومت اسے اپنا مخالف سمجھ کر خطاب سے روک دے۔ کوئی فلم بنانا چاہے تو اس کے موضوع پر اعتراضات جڑ دیے جائیں‘ کوئی تصویر بنا لے اس پر فتوے لگا دیے جائیں۔ حکومت کے کرنے کا کام بھی یہی ہے اور اس سے توقع بھی اتنی سی ہے۔ ہمیں کیا دیکھنا ہے‘ کیا سننا ہے‘ کیا پہننا ہے اور کیسے رہنا ہے‘ اس طرح کے فیصلوں سے حکومت ‘ ریاست یا عدالت کا کوئی لینا دینا نہیں۔