"HAC" (space) message & send to 7575

اقبال کا افغانستان

اکتوبر 1933ء میں علامہ اقبال‘ سر راس مسعود اور مولانا سید سلیمان ندوی افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ کی دعوت پر کابل گئے۔ نادر شاہ سے ملاقات کے دوران علامہ اقبال افغانستان کی تعمیروترقی کے مشورے دیتے ہوئے اچانک بولے ''مغربی ملکوں کی تجارت کا مدار سمندری راستوں پر ہے لیکن اب وقت قریب ہے کہ سامانِ تجارت ایک بار پھر سڑک اور ریل کے ذریعے خشکی کے راستے ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے۔ جب ایسا ہو گا تو افغانستان ایک اہم تجارتی مرکز بن جائے گا۔ اس لیے افغانستان کو راستوںکو محفوظ اور ہموار بنانے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے‘‘۔ حاضرین مجلس کیلئے علامہؒ کی یہ بات دور از کار تھی حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی جیسے صاحبِ علم نے بھی ان کی بات کو 'عجیب‘ کہہ دیا۔ انہیں یہ بات شاید اس لیے عجیب لگی کہ افغانستان کے مغرب میں سوویت یونین کا تازہ دم انقلاب وسطی ایشیا کو ہڑپ کر چکا تھا اور دور دور تک تاجکستان‘ ازبکستان اور ترکمانستان کی آزادی کا امکان بھی نہیں تھا۔ چین اتنا گراں خواب تھا کہ افغانستان میں مشرقی ترکستان کے آزادی پسند اپنا بیس کیمپ بنائے بیٹھے تھے اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔ اس زمانے میں اقبالؒ کے ذہن میں یہ خیال آیا‘ نادر شاہ کے سامنے پیش ہوا ‘ شاید اس پر کچھ کام بھی ہو جاتا مگر اس دورے کے چند دن بعد ہی نادر شاہ کو عبدالخالق ہزارہ نامی ایک نوجوان نے قتل کر دیا۔
اقبال کے اس عجیب سے خیال کو ٹھیک 57 سال بعد قابلِ عمل سمجھا جانے لگا۔ ازلی نالائق کہاں سمجھ سکتے تھے۔ ان کے اس خیال کو کوئی سمجھا تو چین سمجھا۔ اس نے شاہراہ قراقرم بنا کر ہمیں خود سے جوڑا۔ وقت آیا تو سی پیک کی صورت میں ہم پر امکانات کی دنیا عملی طور پر کھول دی مگر ہم وہی رہے‘ ہمیشہ کی طرح پیچھے رہ جانے والے‘ خود پر بھروسے سے عاری۔ 1980ء کی دہائی میں ہم نے خود کو افغانستان کی آگ میں جھلسا لیا‘ مگر اتنا بھی نہ کر سکے کہ سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد وہاں کوئی ڈھنگ کی حکومت ہی بنوا لیتے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں مجاہدین مجاہدین کرتے ہماری زبانیں سوکھتی تھیں مگر ہماری ہر کوشش کو تباہ کر ڈالا گیا۔ ان کے بعد طالبان کو اپنا بچہ کہنے والے وقت پڑنے پر ان سے ایک بات بھی کبھی منوا نہ سکے۔ انہوں نے ہمیشہ وہ کیا جو وہ چاہتے تھے۔ اسامہ بن لادن کو ہمارے کہنے پر امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔ ہمارے کہنے پر افغانستان میں جمہوری نظام کا حصہ نہیں بنے۔ ان کا ہمیشہ سے موقف تھا کہ ہم صرف امریکہ سے ہی بات کریں گے۔ انہوں نے بیس برس بعد بات کی تو امریکہ سے کی۔ وقت بھی وہ چنا جو انہیں مناسب لگا۔ اب ہم انہیں دنیا سے متعارف بھی کرا رہے ہیں‘ مگر پھر بھی اس قابل نہیں کہ ان سے اپنی بات منوا سکیں۔
افسوس اس پر ہے کہ پاکستان میں افغانستان پر پالیسی سازی کا طریق کار تلخ تجربوں کے باوجود نہیں بدلا۔ لوگوں کو الگ الگ بلا کر انہیں آدھی ادھوری باتیں بتا دینے سے پالیسی نہیں بنا کرتی۔ ہمارے نظام کے اندر یہ چلن ہے کہ طالبان سے بات کرنی ہے تو پانچ سات افراد کو اسلام آباد بلا کر کسی اچھے ہوٹل میں رکھو پھر طالبان کو ان سے ملواؤ تاکہ یہ افراد اپنا نام نہاد اثرورسوخ ان پر استعمال کریں۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے دنیا ہمیں سنجیدہ نہیں لیتی۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ افغانستان ہو یا کوئی اور حساس معاملہ‘ ہمارے اکابرین اپنی ذاتی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے وہ ہمارے افراد پر کام کرتے ہیں‘ اداروں سے واسطہ نہیں رکھتے۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں ہمارے فیصلے ہمیشہ خوف کے تابع رہے ہیں۔ ضیا الحق کو یہ خوف تھا کہ دنیا ان کا مارشل لا قبول نہیں کرے گی۔ اس خوف سے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ جنرل مشرف نے بھی اپنی حکومت کی امریکی توثیق کے لیے افغانستان کی جنگ قبول کر لی۔ دوسری طرف سیاست دانوں کا حال یہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں پالیسی سازی ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ انہوں نے اگر کچھ کیا بھی تو اتنا ہی غلط کیا جتنا جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف نے کیا۔ 90ء کی دہائی میں اکیلے ہی طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا جو 2001ء میں ہمارے منہ پر آ پڑا۔ ہم نے 1978ء سے لے کر آج تک کوئی ایک فائدہ نہیں جو افغانستان سے پاکستان کے لیے حاصل کیا ہو۔ ہمارا کل حاصل وصول عالمی بدنامی‘ دہشت گردی‘ معاشی نقصان اور معاشرے میں مستقل انتہا پسندی کا مرض رہا۔ اب پھر ہمیں یہ خوف لاحق ہے کہ اگر افغانستان کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ایک بار پھر دہشت گردی پاکستان میں در آئے گی۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ لگتا ہے‘ اسی خوف کے تابع کر رہے ہیں۔ ہمارا کوئی قومی مقصد تو دور کی بات ایسا کوئی ہدف بھی نہیں جو افغانوں اور پاکستانیوں کے درمیان مشترک ہو۔ بس ہم ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ بلا وجہ!
اگر ہم واقعی افغانستان کے بارے میں کوئی پالیسی بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پہلی شرط اس خوف سے آزادی ہے جو ہم نے خود پر طاری کر رکھا ہے۔ ہمیں خود پر اعتماد ہونا چاہیے کہ ماضی میں ہماری جو بھی غلطیاں تھیں‘ ان کی سزا ہم بھگت چکے۔ اب ہم امریکی دباؤ میں آ کر کوئی فیصلہ کریں گے‘ نہ طالبان کی ناراضگی سے ڈر کر۔ ہمیں طالبان کو بتانا ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے آپ کے دوست ہیں۔ ہم سے دوستی کا تقاضا ہے تو آپ ان سے دوستی ختم کریں یا ہم سے کوئی امید نہ رکھیں۔ دوسرے یہ کہ ہم افغانستان کے اندر ایسی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے جو وسیع البنیاد نہ ہو۔ یہ دونوں مطالبات منوانے کے لیے ہمیں افغانستان کے تمام ہمسایوں سمیت‘ سعودی عرب‘ چین‘ روس اور امریکہ کو بھی ساتھ ملانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اب تک ہم صرف دنیا کے پیغام رساں بن کر طالبان سے بات کرتے ہیں‘ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے مفاد کے لیے اس تعلق (اگر کوئی ہے) کو استعمال کرنا ہے اور اگر طالبان ہماری بات نہیں مانتے تو پھر ہمیں بھی ان کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
علامہ اقبال نے افغانستان کے بارے میں جس خیال کا اظہار 1933ء میں کیا تھا‘ آج وہ پاکستان کی افغان پالیسی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ان کا پیش کردہ تصور ہی وہ مشترکہ ہدف ہے جس کی افادیت سے کوئی افغان انکار نہیں کر سکتا۔ ہمیں افغانستان کے ہر طبقۂ فکر کو یہ سمجھانا ہے کہ اس ہدف کا حصول پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان اور افغانستان مل کر چین‘ عرب‘ وسطی ایشیا اور یورپ تک ہونے والی تجارت میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔ اس مشترکہ مقصد کے لیے دونوں ملکوں کو انتہا پسندی اور تعصب سے چھٹکارا پانا ہو گا۔ اگرچہ آج یہ کام مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن منزل کا نشان مل جائے تو راستہ کٹتا جاتا ہے۔ اگر پاکستان اس منزل کا نقیب ہے تو پھر اسے ہی پہلا قدم اٹھانا ہوگا یعنی اسے شفاف پالیسی کے ساتھ ایک واضح حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان ایک پیچیدہ معاملہ ہے جسے امریکہ اور سوویت یونین بھی نہیں سلجھا سکے لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ پاکستان بھی اسے سلجھانے کی کوشش نہ کرے۔ بڑی طاقتوں کی ناکامی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پڑوس میں رہنے والے بھی کچھ نہ کرسکیں۔ یوں بھی پاکستان کے پاس یہ آپشن موجود ہی نہیں کہ وہ افغانستان کے معاملے سے دور رہ سکے۔ ہمیں اس کو سلجھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ اگر پہلے کی طرح انفرادی عزائم یا خوف کو ہی پالیسی کا نام دینا ہے تو الگ بات ہے‘ ورنہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ جیسے اقبال کا ایک تصور پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوچکا ہے‘ بالکل ویسے ہی افغانستان میں بھی ان کا تصور ایک نئے جہان کا آغاز بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ پاکستان کے سبھی حکمران اپنے روایتی تساہل کو چھوڑ کر آگے بڑھ سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں