"HAC" (space) message & send to 7575

طالبان کا افغانستان…(6)

پاکستانی صحافیوں نے افغان طالبان کو اس وقت بھی میڈیا میں مثبت انداز میں زندہ رکھا جب ان کے متعلق مغربی میڈیا صرف منفی خبر دے رہا تھا۔ وہ لوگ جو آج طالبان کی حکومت کا حصہ ہیں‘ انہیں دنیا بھر کا میڈیا باقاعدہ دہشت گرد لکھا کرتا تھا اور پاکستانی میڈیا میں انہیں طالبان رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا تھا۔ حالات بدلے‘ وہی لوگ جو دہشت گرد کہلاتے تھے‘ حکمران بنے تو سب سے پہلے جو میڈیا انہیں برا معلوم ہونے لگا وہ پاکستانی میڈیا ہے۔ اب غیرپاکستانی میڈیا افغان طالبان کو مرغوب ہے اور پاکستانی میڈیا ناپسند۔ طالبان نے چونکہ خود کو سفارتکاری اور جنگ کا فاتح قرار دے رکھا ہے اس لیے ان کے خیال میں پاکستانی میڈیا سے دور رہنے کی حکمت عملی انہیں دنیا میں آزادانہ تعلقات قائم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ خیال کتنا غلط ہے‘ اس کی بحث کا یہ موقع نہیں مگر طالبان کی حکومتی پالیسی بہرحال یہی ہے۔ اس پالیسی کا اثر یہ ہوا ہے کہ پاکستانی صحافیوں سے آف دی ریکارڈ گفتگو تو کرلی جاتی ہے لیکن کیمرے یا اخبار کے لیے باقاعدہ انٹرویو سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس لیے آج جو کچھ میں آپ کو افغانستان کے بارے میں بتانے جارہا ہوں‘ وہ ایک بڑے حکومتی عہدیدار سے ہونے والی گفتگو کا احوال ہے۔ نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ ان بزرگ نے مجھ سے بات کرنے کی ہامی اسی شرط پر بھری تھی کہ ان کا نام کہیں نہیں آئے گا‘ لہٰذا میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کے ہاتھوں مجبور ہوں کہ ان کا نام نہ لکھوں۔
ان بزرگ سے میری ملاقات کا وقت فجر کی نماز کے فوری بعد مقرر ہوا۔ کابل میں جس گھر کا پتا مجھے فراہم کیا گیا تھا وہ میرے ہوٹل سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اس گھر کے باہر چند لوگ بیٹھے تھے جو حلیے سے طالبان ہی لگتے تھے۔ لاہور کے حساب سے پندرہ سولہ مرلے پرمشتمل اس مکان میں جب میں داخل ہوا تو اس کے ٹی وی لاؤنج میں دو درجن سے زیادہ لوگ ناشتہ کررہے تھے۔ مجھے ایک الگ کمرے میں بٹھا دیا گیا جہاں تھوڑی دیر بعد ایک خشک روٹی اور بغیر دودھ کی چائے بطورِ ناشتہ پیش کی گئی۔ یہی ناشتہ ٹی وی لاؤنج میں بھی چل رہا تھا۔ ناشتے کے بعد میں حضرت کے کمرے میں چلا گیا اور میرے ساتھ ان کا مترجم بھی جو کراچی کی ایک یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لے چکا تھا۔ نشست فرشی تھی۔ حضرت ایک تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے سوال پوچھنا چاہا توانہوں نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا اور کہا: پہلے میں بولوں گا پھر آپ جو سوال چاہتے ہیں‘ کرلیجیے۔ میں خاموش ہوا توفرمایا :اس وقت ہمارے پانچ مسائل ہیں‘ سب سے پہلا مسئلہ اقتصادی ہے‘ ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ ملک چلانے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ افغانستان کے اندر ہماری بنائی ہوئی حکومت کو لوگ مانیں گے یا نہیں۔ تیسرا یہ کہ بیرونی دنیا میں ہمیں کون اور کب تسلیم کرے گا۔ چوتھا ہے کہ حکومتی ادارے چلانے کے لیے قابلِ اعتماد لوگ کہاں سے آئیں گے اور پانچواں یہ ہے کہ طالبان کے اندر حکومتی عہدوں کے خواہشمند بہت بڑی تعداد میں ہیں‘ اگر انہیں عہدے نہ ملے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا۔ یہ نکات بتاتے ہوئے وہ اپنے دائیں ہاتھ کی ایک ایک انگلی کھڑی کرتے جارہے تھے اور جب پانچویں نکتے کے ساتھ اپنی ہتھیلی سے چپکا ہوا انگوٹھا سیدھا کیا تو ہاتھ واپس اپنی ٹانگ پر رکھتے ہوئے کہا:یہ پانچ مسائل نہیں‘ پانچ پہاڑ ہیں جنہیں ہم نے سر کرنا ہے مگر کوئی طریقہ سوجھ نہیں رہا۔
ایمانداری کی بات ہے صرف ایک منٹ میں اتنی جامع اورمعلومات سے بھری گفتگو کے بعد ایک لمحے کے لیے مجھے لگا میرے پاس تو کوئی سوال ہی نہیں رہا پوچھنے کے لیے۔ اس ایک لمحے کی خاموشی کے بعد میں نے کہا: میرے بھی پانچ سوال ہیں۔ بولے: کہیے۔ میں نے پوچھا: آپ کو کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ایک بجٹ تیار کیا گیا ہے‘ جس کے ایک حصے میں حکومت کے لازمی اخراجات یعنی تنخواہیں‘ بجلی اور پٹرول وغیرہ کی مدات ہیں اور دوسرے میں ترقیاتی یعنی سڑکوں کی تعمیر و مرمت وغیرہ۔ ان دونوں کے مجموعے کے مقابلے میں ہماری آمدن صفرہی سمجھیں۔ میں نے کہا: پھر بھی کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟انہوں نے کہا :اس کو رہنے دیں۔ میں نے کہا: میں ایک اندازہ لگاتا ہوں آپ بتائیں میں اصل رقم سے کم بتا رہا ہوں یا زیادہ۔ میرے اصرار پر وہ تھوڑے جزبز ہوئے مگر کہا‘ بتائیے آپ کا اندازہ کیا ہے۔ میں نے کہا :پانچ سو ملین ڈالر ماہانہ۔ بولے: یہ آپ سابقہ حکومت کے حساب سے بتا رہے ہیں‘ ہم تو کم پر بھی گزارہ کرلیں گے۔ میں نے کہا: صرف تنخواہوں کے لیے آپ کو ایک سو ملین ڈالرکی رقم ہرمہینے چاہیے۔ یہ سن کر وہ ایک دم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ کہا: اگر تنخواہیں کم کردی جائیں؟ عرض کیا کہ مجھے نہیں لگتا ایسا ہوپائے گا۔
میرا دوسرا سوال تھا‘ کیاآپ نے جو حکومت بنائی ہے اس میں ہم آہنگی موجود ہے اور کہیں باہمی اختلاف تصادم تک تو نہیں پہنچ جائے گا؟ میرا سوال سن کرایک لمحہ توقف کے بعد انہوں نے کہا ''جہاں تک ہم آہنگی کی بات ہے تو وہ بالکل نہیں ہے۔ کچھ لوگ زمانے کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور کچھ پرانی روش پر۔ ان کے درمیان اختلاف ہر روز بڑھ رہا ہے لیکن ہم اس پر قابو پالیں گے۔ مگر یہ بات یاد رکھیے کہ طالبان کے اندر اختلاف جتنا بھی ہو ہماری تنظیم اتنی طاقتور ہے کہ اختلاف تصادم تک نہیں پہنچے گا‘‘۔ تیسرا سوال تھا کہ اگر ادارے چلانے کے لیے لوگ نہیں تو کیا پاکستان سے مدد لیں گے؟ اس پر وہ بولے کہ ہم چاہیں بھی تو ایسا فوری طورپرنہیں کرسکتے کیونکہ لوگ کہیں گے کہ طالبان کے ذریعے پاکستان نے افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے‘البتہ کچھ مشورہ وغیرہ پاکستانی دوستوں سے ہوگا۔ چوتھا سوال تھا کہ افغانستان کا جھنڈا کونسا ہوگا؟ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں انقلاب آیا ہے‘ اس لیے عام کارکن کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ پہلے والا جھنڈا ہی ہمارا جھنڈا ہے‘ البتہ دو تین مہینے بعد شاید ہم پہلے والے جھنڈے کو تھوڑی بہت ترمیم کے بعد ملکی جھنڈا بنا دیں۔ میرا آخری سوال تھا کہ ملا عبدالغنی برادر کو وزیراعظم کیوں نہیں بنایا گیاحالانکہ دنیا ان کو ہی طالبان حکومت کے سربراہ کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ پہلے وہ مسکرائے پھر گویا ہوئے: یہ دنیا کا خیال ہوگا،ہماری تنظیم کے اندر تو ملا برادرکو وزیراعظم بنانے کے لیے ایک دن بھی بات نہیں ہوئی بلکہ یوں کہیے کہ ہماری تنظیم کے اندر ملا برادر کی جو حیثیت ہے انہیں عہدہ اس سے بڑا ملا ہے۔ میرے سوالوں کے جواب دے چکے تو میں نے کہا: آپ کے ساتھ ایک تصویر بنا لوں؟ بولے: اس کا مطلب ہو گا کہ آپ کے ساتھ میری مصاحبت ہوئی ہے‘ ایسا کرنا ابھی درست نہیں۔ میں چلنے لگا تو پھر کہا: مجھے امید ہے کہ میرا نام لے کر آپ مجھے یہ کہنے کیلئے مجبور نہیں کریں گے کہ میں آپ سے ملا ہی نہیں۔ میں نے دروازے سے نکلتے ہوئے پوچھا: یہ باہر اتنے لوگ آپ سے ملنے کے لیے بیٹھے ہیں‘ ان کا مقصد کیا ہے؟ اس دوران وہ چھوٹی سی میز اپنے سامنے رکھ چکے تھے جیسے مدارس کے اساتذہ فرش پر بیٹھ کر اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ ایک ہاتھ میز پر رکھ کر بولے : دروازہ بند کردو۔ میں نے دروازہ بند کیا تو کہا:یہ سب عہدوں اور وزارتوں کے لیے بیٹھے ہیں۔ میں دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔
جس دن میں حضرت سے ملا ‘ اسی دوپہر ایک اہم وزیر کے دفتر پہنچ گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ لوگ ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے ہیں۔ جیسے ہی کوئی بااثرطالبان رہنما دفتر میں دکھائی دیتا ہے تو یہ سب لوگ اس کو گھیر لیتے۔ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہ سب ایک ہی بات کرتے کہ ہم نے امارت اسلامیہ کی بڑی خدمات سرانجام دی ہیں مگر آج تک کوئی صلہ نہیں لیا۔ اب صلہ ملنے کا وقت آگیا ہے تو بتائیے کیا کرنا ہے! (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں