علی احسن شہید‘ یاروں کا یار!

علی احسن محمد مجاہد ایک عظیم مسلمان، عظیم انسان اور اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہنے والا فرزندِ توحید تھا۔ علی احسن نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا مگر ظالم کے سامنے سرنگوں نہ ہوا۔ اس پیارے بھائی کی یادیں دل میں بسی ہیں۔ 22 نومبر 2015ء کو اسے جرم بے گناہی میں بنگلہ دیش کی ظالم حکمران حسینہ واجد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس دردناک واقعہ پر مرحوم بھائی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ گیا اور یادوں کے دریچے کھلتے چلے گئے۔ آج دو سال بعد بھی پیارے دوست کی یادیں دل میں تازہ ہیں۔ پاکستان کے باہر جس ملک میں بھی جانا ہوا، کوئی نہ کوئی بنگالی بھائی مل گیا جو علی احسن کا مدّاح تھا۔ علی احسن محمد مجاہد کے ساتھ جمعیت کے زمانے میں راجندرو کالج فرید پور میں زیر تعلیم ایک دوست سے بیرون ملک ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ ایک اور بنگلہ دیشی ساتھی بھی موجود تھے، جن سے وہیں اپنے مذکورہ دوست کے ذریعے تعارف ہوا۔ دونوں نے اپنی یادوں کے دریچے کھولے اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے بے ساختہ دونوں کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ ظاہر ہے کہ اپنے شہید بھائی کے یہ تذکرے سن کر میں بھی اپنے آنسو نہ روک سکا۔
اس ساتھی نے کہا کہ علی احسن محمد مجاہد دورِ طالب علمی سے ہی حقیقی معنوں میں قائد اور مربی تھے۔ میں نے مدرسے کی تعلیم کے ساتھ میٹرک کیا تھا۔ ایک روز مجھ سے فرمایا کہ راجندروکالج فرید پور کا سب سے اچھا کالج ہے، اس میں داخلہ لے لو۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے کوشش کی لیکن سائنس کے مضامین میں گنجائش موجود ہے، جبکہ آرٹس میں سب سیٹیں پُر ہو چکی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میرے پاس پوری معلومات ہیں، تم کامرس میں داخلہ لے سکتے ہو، وہاں نشستیں بھی موجود ہیں۔ اگر اس مضمون میں مشکلات ہوں گی تو سال کے دوران آرٹس میں مائی گریٹ ہونے کا موقع نکل آئے گا۔ چنانچہ میں نے انھی کی ہدایت پر عمل کیا اور اللہ کے فضل سے اپنی تعلیم کے مدارج مکمل کیے۔
دوسرے ساتھی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ میں جو کہانی بیان کرنے جا رہا ہوں وہ قدرے دردناک ہے۔ جب 1971ء میں پاک فوج نے بھارتی جرنیلوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ اب بنگلہ دیش بن کر رہے گا۔ اس موقع پر میں ڈھاکہ میں علی احسن محمدمجاہد کے ساتھ موجود تھا۔ وہ ہمارے طالب علم رہنما اور ناظم تھے۔ انھوں نے اپنے سب ساتھیوں کو رات کے وقت اکٹھا کیا، وہ رات ہمارے لیے ایک یادگار رات ہے۔ درد اور رنج بھی حد درجے کا تھا اور امید بندھانے والے نے ہمیں اس انداز میں رہنمائی بھی دی تھی کہ ہرساتھی خود کو توانا محسوس کرنے لگا۔ یوں تو ہم نے جمعیت کی زندگی میں کئی شب بیداریاں کی تھیں، مگر وہ شب بیداری مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔ علی احسن محمد مجاہد نے کچھ ایسا خطاب کیا جس کا ایک ایک لفظ دلوں میں اترتا چلا گیا۔ انھوں نے کلمۂ شہادت پڑھا، پھر جمعیت کے دستور کے مطابق حلف نامے سے قبل پڑھی جانے والی سورۂ الانعام کی آیت تلاوت کی۔ یہ آیت ہمیں جمعیت کے زمانے میں ہی یاد ہوئی۔ قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ پھر انھوں نے فرمایا ہم نے اپنی وفاداریاں کسی فرد کے ساتھ نہیں، اللہ کی سچی کتاب اور رسولِ برحقﷺ کی سنت مبارکہ کے ساتھ وابستہ کیں۔ دنیا میں ہرچیز فنا کے گھاٹ اترنے والی ہے، مگر ہمارا یہ بنیادی منبع کبھی بھی نہیں مٹ سکتا۔
دوستو! مشکل وقت آ گیا ہے، لیکن ایسے حالات میں مومن کی ڈھال صبر اور اس کا ہتھیار عزم وہمت ہے۔ اس کی نظر ظاہری وسائل سے زیادہ اللہ کی تائید ونصرت پر ہوتی ہے۔ پاکستان ہمارا وطن تھا اور ہے، ہم اسے اللہ کے نام پر وجود میں آنے کی وجہ سے مسجد کا درجہ دیتے ہیں۔ اگر اس کی جگہ بنگلہ دیش بن گیا تو ہمیں کہیں بھاگ کے نہیں جانا ہے، اسی سرزمین پر اللہ کے دین کے لیے حالات کے مطابق کام کرنا ہے۔ مجھے آنے والے وقتوں میں پیش آمدہ آزمائشیں نظرآ رہی ہیں، مگر اللہ کی نصرت سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہم اپنے کسی عمل پر شرمندہ نہیں ہیں، کیونکہ اللہ جانتا ہے کہ ہم نے ہر کام اس کے کلمے کی سر بلندی کے لیے کیا ہے۔ اللہ کے راستے میں جان بھی چلی جائے تو اس میں کوئی گھاٹا نہیں۔ ہجرت کرنا پڑے تو یہ بھی سنت رسولﷺ ہے۔
دوستو! ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، لیکن مجھے نہیں معلوم آنے والے کل ہم میں سے کون کس حال میں ہوگا اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ہم دوبارہ آپس میں اس عارضی زندگی میں مل پائیں گے یا نہیں۔ البتہ مجھے یہ یقین ہے کہ اگر ہم نے اپنا نظریہ اور راستہ نہ بدلا تو اللہ کی جنتوں میں ہم ضرور ایک دوسرے سے بغل گیر ہوں گے۔ یہاں تک بات کرتے کرتے میرے بنگالی بھائی کی آواز رُندھ گئی۔ وہ ملی جلی انگریزی اور اردو میں بات کر رہے تھے اور میں نوٹ کر رہا تھا۔ انھوں نے اپنے آنسو پونچھے اور ہم نے بھی اپنے آنسو خشک کیے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ میرے قائد نے ہم سب کو حکم دیا کہ یہاں سے نکل جائیں اور منتشر ہو جائیں۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ اس پر انھوں نے فرمایا کہ میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ اس لمحۂ موجود میں تم سب یہاں سے چلے جاؤ اور میں تم سب سے بعد میں یہاں سے نکلوں گا۔ ہم ان کے حکم کی اطاعت پر نکل گئے، مگر ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جس کے دل میں خواہش نہ ہو کہ کاش میں اپنے قائد کے ساتھ رہوں۔ بہرحال اطاعت لازمی تھی، ہم سب وہاں سے منتشر ہوگئے‘‘۔ اس دوست کی داستان قدرے طویل اور انتہائی ایمان افروز تھی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ برادرم سلیم منصور خالد نے بھی ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ماہِ دسمبر 2015ء میں یہی مضمون زیادہ تفصیل اور بلاغت کے ساتھ لکھ دیا۔
بنگلہ دیش بن جانے کے بعد علی احسن محمدمجاہد بھائی کے والد جناب مولانا محمد علی پر ایک مقدمہ بنا جس میں انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران جب عید کا موقع آیا تو علاقے کے تمام لوگوں نے جن میں عوامی لیگ کے کارکنان اور رہنما بھی شامل تھے، بہت بڑا مظاہرہ کیا کہ عید سے قبل مولانا کو رہا کیا جائے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اس صورت حال کے پیش نظر حکومتی اہلکاروں کو حکم دیا کہ وہ موصوف کو عید کی نماز پڑھانے کے لیے پیرول پر رہا کر دیں۔ نمازِ عید کے بعد انھیں پھر جیل بھیج دیا گیا۔ اس پر دوبارہ عوامی احتجاج نے شدت اختیار کر لی۔ آخر کار شیخ مجیب الرحمن نے فرید پور کے عوامی لیگی رہنماؤں کی درخواست پر مولانا کو ان جھوٹے مقدمات سے بری کر دیا۔ یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ جس شخص نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی اس نے تو ایک بے گناہ کو جیل سے رہا کر دیا مگر اُسی کی بیٹی ایک نہیں ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے باوجود ابھی تک خون سے سیر نہیں ہوئی۔ نامعلوم وہ کتنے مزید لوگوں کو جرم بے گناہی میں موت کی وادی میں دھکیلے گی۔ اس ظالم کو معلوم نہیں کہ ایک ایک جرم کا حساب دینا پڑے گا۔
علی احسن محمد مجاہد کے بڑے بھائی اس وقت بھی فرید پور میں جماعت کے رہنما ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے بھائی کی شہادت پر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ان کا بھائی بالکل بے گناہ تھا اور اس نے آخری دم تک کسی قسم کی کمزوری یا بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے زندگی بھر اللہ کی عبادت اور بندوں کی خدمت کو اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔ آخری لمحات میں اللہ کی رحمت کے ساتھ یہی سرمایہ اس کا حوصلہ بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ علی احسن محمد مجاہد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں بہت فعال کردار ادا کیا۔ تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط میں ہمیشہ انھی کی خدمات سے جماعت نے استفادہ کیا۔
علی احسن محمد مجاہد ڈھاکہ سٹی جماعت کے امیر رہے۔ پھر مرکز میں انھیں ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ مطیع الرحمن نظامی صاحب کے ساتھ بطور قیم جماعت زندگی کے آخری لمحے تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔ بنگلہ دیش حکومت میں بطور وزیر (2001ء تا 2006ئ) ان کی کارکردگی آج بھی اعلیٰ ترین اور بے مثال سمجھی جاتی ہے۔ مشرقی پاکستان ہو یا بنگلہ دیش، علی احسن محمد مجاہد طالب علم رہنما ہوں یا جماعت اسلامی کے قائد، انھوں نے ہر تحریک میں اگلی صفوں میں قیادت کے منصب پر اپنے فرائض ادا کیے۔ صدر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں آمریت کے خلاف طلبہ تحریک میں علی احسن محمد مجاہد کی خدمات یادگار ہیں۔ صدر ایوب خان کے دور میں راقم الحروف کو تین بار پس دیوارِ زنداں جانا پڑا۔ علی احسن محمد مجاہد بھی دو مرتبہ گرفتار ہوئے۔ وہ ہم سے ایک آدھ سال جونیئر تھے، مگر ان کا نام اس دور میں بھی پورے ملک میں معروف تھا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے احباب‘ سب گواہی دیتے ہیں کہ جب بھی کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوئی تو مشاورت کے دوران مشکل عقدے علی احسن محمد مجاہد کے ذہن رسا اور وزنی استدلال کے ذریعے باآسانی حل ہو جاتے رہے۔ علی احسن شہید تو دنیا میں نہیں آئے گا مگر ہم ایک دن اس سے جا ملیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں