نفسا نفسی کے اس دور میں محبانِ صادق کا حلقہ بہت بڑی نعمت ہے۔ بعض شخصیات پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوتا ہے کہ وہ خود ایک قابلِ رشک زندگی، خدا خوفی، تعاون علی البِر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صفات کے ساتھ منزل پہ پہنچتے ہیں۔ اس صفت سے کئی لوگ متصف ہوتے ہیں مگر ان خوش نصیب لوگوں میں سے زیادہ قابلِ تحسین وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنے بعد اپنے پیچھے انہی اوصاف سے متصف صلبی و روحانی اولاد بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ دورِ طالب علمی میں جن عظیم المرتبت شخصیات سے عقیدت و محبت کا تعلق قائم ہوا، ان کی طرف سے پیار و محبت اور شفقت و راہ نمائی زندگی کا ایسا اثاثہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔ انہی عظیم لوگوں میں سے حضرت مولانا گلزار احمد مظاہریؒ بھی تھے۔ راقم کی آپ کے تینوں بیٹوں‘ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، ڈاکٹرفرید احمد پراچہ اور سعید احمد پراچہ کے ساتھ باہمی محبت ایک عرصے سے قائم ہے۔ میں نے مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے حالات اور ان سے وابستہ اپنی یادوں کا تذکرہ اپنی کتاب ''مسافرانِ راہِ وفا‘‘ میں کیا تھا۔
جناب حسین پراچہ تو ہمارے جامعہ پنجاب کے قریبی اور پیارے ساتھیوں میں سے تھے۔ محترم فرید پراچہ جماعت اسلامی میں سالہا سال سے ہمارے رفیقِ سفر ہیں۔ سعید پراچہ منصورہ میں ہمارے ہمسائے اور مسجد میں پنج وقتہ نماز کے ساتھی ہیں۔ مولانا گلزار احمد مظاہریؒ اپنے زمانے کے بے مثال خطیب تھے۔ جماعت اسلامی کے چند شعلہ نوا خطیبوں میں ان کا نہایت نمایاں مقام تھا۔ صاحبِ علم خطیب اور مستند عالمِ دین ہونے کے باوجود مظاہری صاحب خطابت کی دنیا سے تصنیف و تالیف کے میدان میں کم ہی کبھی اترے۔ آپ کے دونوں صاحبزادے حسین پراچہ اور فرید پراچہ خطابت و ادب‘ دونوں میدانوں کے شاہسوار ہیں۔ فرید پراچہ صاحب نے تو جماعتی ذمہ داریوں اور سیاسی جدوجہد کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھ دی ہیں کہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ آپ کی کتابیں بالخصوص سفرنامے معلومات کا مرقع ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دلچسپ حقائق سے یوں پردہ اٹھاتے ہیں کہ قاری اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ آپ کی خود نوشت سوانح ''عمرِ رواں‘‘ تو مکمل پڑھے بغیر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ حسین پراچہ صاحب بھی مستقل اور مؤثر کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ تصنیف ہیں۔
پچھلے دنوں افسانوں پر مشتمل میری کتاب ''سر بکف سر بلند‘‘ کی جدید اشاعت منظر عام پر آئی تو بہت سے دوستوں نے اس پر اپنے ادبی و فنی تاثرات کا زبانی و تحریری اظہار کیا۔ برادرم ڈاکٹر فرید احمد کی خدمت میں کتاب پیش کی گئی تو آپ نے کتاب کی تحسین فرمائی اور زبانی پیغام کے ساتھ ایک تحریر بھی قلم بند کر دی۔ اپنی گونا گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر یہ تبصرہ لکھنا آپ کی محبت و اخلاص کا ثبوت ہے، جس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں۔ آج کے کالم میں ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی یہ تحریر نذرِ قارئین کی جا رہی ہے۔ برادرِ عزیز نے محبت کے ساتھ مجھ ناچیز اور کتاب کے بارے میں جو الفاظ لکھے ہیں، ہم نے ان میں کوئی تبدیلی مناسب نہیں سمجھی؛ اگرچہ ہم خود کو ان الفاظ کے قابل نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص و انکسار کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ فرید بھائی لکھتے ہیں:
''سر بکف سر بلند‘‘ از: حافظ محمد ادریس
''محترم حافظ محمد ادریس ایک ہمہ پہلو‘ ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ وہ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما ہیں۔ جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے امیر کے علاوہ وہ کئی سال تک نائب امیر جماعت رہے ہیں۔ وہ داعی الی اللہ اور دلوں کی دنیا بدلنے والے مربّی ہیں، وہ ایسے مدرّس ہیں کہ جن کے دروسِ قرآن قلوب و اذہان کو مسخرکرتے ہیں، وہ فہم و فراست کی دہلیز پر ایمان و ایقان کی شمعیں روشن کرنے والے مصنف ہیں۔ وہ ایسے سیرت نگار ہیں جو اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر اسے چودہ صدیاں پہلے کے دورِ باسعادت میں لے جاتے ہیں۔ وہ ایسے خطیب ہیں کہ جن کی خطابت زینہ زینہ دلوں میں اترتی ہے۔ یقینا ان کے بیان کردہ دورِصحابہ کرامؓ کے واقعات سے گدازیٔ دل کی دولت ملتی اور آنکھوں سے خشیت الٰہی کے موتی رواں ہوتے ہیں۔ اتنی صفات کیا کم ہیں کہ حافظ محمد ادریس کی منفرد حیثیت یہ بھی ہے کہ وہ افسانہ نگار ہیں۔
افسانہ نگاری ادب کی ایک مشکل لیکن پُرکشش صنف ہے۔ افسانہ پڑھنا بہت آسان لیکن لکھنا بہت مشکل ہے۔ افسانہ میں داستان گوئی بھی ہوتی ہے اور تخیل کی بلند پروازی بھی۔ کہانی کا تسلسل ہوتا ہے اور قاری کو ہمہ وقت اپنی تحریرکے سحر میں جکڑنے والا اسلوبِ بیان بھی۔ بلاشبہ افسانہ کسی علمی و تحقیقی مضمون سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے پر افسانوی ادب کی گرفت زیادہ گہری اور مضبوط ہوتی ہے۔ پھر وہ افسانہ نگار جو ادب برائے تفریح اور ادب برائے ادب کے قائل نہ ہوں بلکہ ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کے علمبردارہوں اُن کے لیے افسانہ نگاری اور بھی مشکل ہوتی ہے کہ انہیں افسانے میں نظریے اور کہانی میں مقصدیت کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔
افسانوی صنف کے لحاظ سے اسلامی ادب کو بھی بڑے بڑے قلم کاروں کی رفاقت و امامت حاصل رہی ہے۔ جیسے نسیم حجازی، جیلانی بی اے، سید اسعد گیلانی، فروغ احمد، محمد حسن عسکری، ابن فرید، ام زبیر، سلمیٰ یاسمین نجمی، ام فاروق، نور احمد فریدی، شمس الرحمن فاروقی، فضل من اللہ، آثم مرزا وغیرہ۔ ان لوگوں کے بعد اس محاذ پر ایک خلا نظر آتا تھا جسے محترم حافظ محمد ادریس نے بڑی ادبی مہارت سے پُرکیا ہے۔ آپ کے افسانوں کے چار مجموعے چھپ چکے ہیں۔ حافظ صاحب درویش صفت ادیب ہیں۔ ''صدائے درویش‘‘ ان کے کالموں کا عنوان ہوتا ہے۔ آپ کے افسانے ''دخترِ کشمیر‘‘، ''ناقۂ بے زمام‘‘، ''سرسوں کے پھول‘‘ بھی نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ ان میں موصوف نے تبلیغ نہیں کی، مکمل طور پر رائج الوقت ادبی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا پیغام اپنے افسانوی کرداروں کے ذریعے کامیابی کے ساتھ پہنچایا ہے۔
ہماری رائے میں حافظ محمد ادریس کا افسانوی ادب میں ایک نمایاں مقام ہے۔ وہ افسانہ نگاری میں اپنی کہانی کو ہی مرکزی حیثیت دیتے ہیں، یعنی اپنے کرداروں کی زبان سے بڑی بڑی اسلامی تقاریر کرانے اور خطابت کے زور پر ہی اپنے افسانے کو آگے چلانے کے بجائے وہ کہانی کو خالص ادبی انداز میں آگے چلاتے ہیں۔ ان کی دعوت اور مقصدیت کہانی اور اس کے انجام میں ہی موجود ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کی قاری پر گرفت مضبوط رہتی ہے یعنی قاری کو افسانے کا تسلسل ہی اپنے حصار میں لیے رکھتاہے۔ حتیٰ کہ جب افسانہ اپنے فطری انجام تک پہنچتا ہے تو قاری پر سوچ کے نئے دروازے کھل چکے ہوتے ہیں اور وہ فکر و نظر کے نئے زاویوں سے آشنا ہو جاتا ہے۔
میرے سامنے حافظ محمد ادریس کے افسانوں کا دلچسپ مجموعہ ''سر بکف سر بلند‘‘ کے نام سے موجود ہے جسے بارِ دیگر شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کو صوری و معنوی حسن سے مزّین کیا گیا ہے۔ 200 صفحات پر مشتمل یہ کتاب فی الواقع ایک ادبی شہ پارہ ہے۔
افسانوں کے موضوعات محض مقامی نہیں‘ آفاقی اور روایتی نہیں‘ نظریاتی ہیں۔ مثلاً افسانہ ''بابری مسجد‘‘، ایودھیا میں غوری خاندان کے چشم وچراغ صغیر حسین غوری کی واردات قلبی کی داستان ہے۔ ایسی داستان جس میں قاری کی ملاقات شہاب الدین غوری سے بھی ہوتی ہے اور محمود غزنوی سے بھی، ظہیر الدین بابر سے بھی اور اورنگزیب عالمگیر سے بھی۔
افسانہ ''مامتا کی نعمت‘‘ ایک جج سرفراز کی اندرونی کشمکش کی داستان ہے کہ جس میں سیاسی دباؤ کے باوجود بالآخر جیت ضمیر کی ہوتی ہے۔ ''فطرت کی تعزیریں‘‘ ایک ایسے مظلوم کی داستان ہے کہ بالآخر اس پر ظلم کرنے والا مکافاتِ عمل کا شکار ہو جاتاہے۔ ''غلیل‘‘ کے نام سے ہمیں ارضِ فلسطین کے وہ جری سرفروش یاد آ جاتے ہیں کہ جو یہودیوں کا مقابلہ غلیلوں سے کرتے ہیں۔ یروشلم کے شیخ سعید العامری کا گھرانہ فلسطینیوں کی داستان الم و غم اور ہجرت و عزیمت کا ایک روشن باب ہے۔ ''مظلوم کی آہ‘‘ انسانیت کی خدمت کرنے والی ایک ایسی نرس کی داستان ہے کہ جس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والا بدکار بالآخر قدرت کی گرفت میں آ کر نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ ''فیروز خان‘‘ وڈیرہ شاہی اور ظلم کے خلاف عملی جہاد کرنے والے ایک جری و غیرت مند کردار کی کہانی ہے۔ ''فخر النساء تیموریہ‘‘ ایک ایسے صاحب علم کی داستان ہے کہ جن کے دائرہ تربیت کا ایک جوان جبر کی شکار ایک مظلوم اور اپنے گندے ماحول کی باغی طوائف کو بالآخر اس ماحول سے نکالتا ہے اور یہ منگول رانی اسی صاحب علم سے فخر النساء تیموریہ کا خطاب پاتی ہے۔ اسی طرح اس مجموعے کے افسانے ''کشمکش‘‘، ''تنہائیاں‘‘، ''جنازہ‘‘ اور'' کالم نگار‘‘ مخصوص حالات میں خاص کیفیات کے حامل ہیں۔
میں ان سطور کے ساتھ محترم حافظ محمد ادریس کے افسانوں کے مجموعے''سر بکف سر بلند‘‘ کی اشاعت جدید کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘۔
ہم برادر عزیز گرامی قدر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے کتاب پوری توجہ سے پڑھی اور پھر یہ قیمتی تبصرہ رقم فرمایا۔