سیاست دانوں کے دعوے اور ریاست مدینہ!

مدینہ کی اسلامی ریاست امتِ مسلمہ کے لیے آئیڈیل ہے مگر محض نعروں سے وہ وجود میں نہیں آسکتی۔ اس کے لیے ایمان اور عمل لازمی ہے۔ مدینہ کی ریاست میں نبی پاکﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓکا انتخاب اس طرح ہوا کہ پوری امت نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اسی طرح چاروں خلفائے راشدین لوگوں کی آزادانہ رائے اور بیعت سے اس منصب پر فائز ہوئے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓنے منتخب ہونے کے بعد جو پہلا خطاب فرمایا وہ اتنا جامع اور ایمان افروز ہے کہ اسلامی ریاست کا بہترین منشور ہے۔ آپؓ نے فرمایا: بخدا میں نے کبھی اس منصب کی تمنا نہیں کی تھی۔ اب تم لوگوں نے مجھ پر یہ بوجھ ڈال دیا ہے تو جان لو کہ تم میں سے جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک اس کے حقوق اسے نہ دلادوں اور تم میں سے جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے وہ حقوق واپس نہ لوں جو اس نے ناروا طور پر دبا رکھے ہیں۔ میں اگر قرآن وسنت کے مطابق حکم دوں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں اس سے ہٹ جاؤں تو مجھے سیدھا کردو۔
حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو آپ نے بھی ہمیشہ اپنے آپ کو محاسبے کے لیے پیش کیا۔ جب ایک موقع پر کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ آپ کا کرتا ایک چادر سے نہیں بن سکتا حالانکہ مالِ غنیمت میں سے ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی تھی گویا آپ نے ایک کے بجائے دو چادریں لے لیں۔ اس پر آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓسے کہا کہ تم جواب دو تو انہوں نے مجمع عام میں فرمایا: ایک چادر ابا جان کو ملی تھی اور ایک مجھے۔ میں نے اباجان کے پرانے کرتے کی جگہ نیا کرتا سلوانے کے لیے اپنی چادر بھی ان کو دے دی۔ اس پر سوال کرنے والے مطمئن ہوگئے اور کہاکہ امیرالمومنین! ہم آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔
ایک مرتبہ کسی صحابی نے محاسبہ کرنے والوں کو ٹوکا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: '' نہیں ان کو اپنی بات کہنے دو، اگر یہ ہمارے اندر کوئی غلطی محسوس کریں اور خاموش رہیں تو ان میں کوئی خیر اور بھلائی باقی نہیں رہے گی اور اگر ہم ان کی باتوں کو نہ سنیں اور انہیں مطمئن نہ کریں تو ہمارے اندر کوئی خیر اور نیکی نہیں رہے گی‘‘۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ خود آنحضورﷺ جب اپنے آپ کو محاسبے کے لیے پیش کرتے تھے تو میں اور میرے گورنر اور جرنیل کس باغ کی مولی ہیں کہ ہم محاسبے سے بالاتر ہوں؟
مدینہ کی اسلامی ریاست جوآغاز میں چند مربع میل رقبے پر واقع تھی‘ آنحضورﷺ کے وصال سے قبل تک پورے جزیرہ نما عرب تک پھیل چکی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں گرد و نواح کے خطوں پر بھی اسلام کا پرچم لہرانے لگا جبکہ حضرت عمرؓ کے دور میں ہر روز سینکڑوں مربع میل کاعلاقہ اسلامی ریاست کا حصہ بنتا تھا۔ اسی دور میں آنحضورﷺ کی پیش گوئی پوری ہوئی کہ قیصر و کسریٰ کی نام نہاد عروج وعظمت یعنی سپرمیسی (Supremacy) خاک میں مل گئی۔ شکست کھا کر شاہ قیصر یور پ تک محدود ہوگیا اور کسریٰ کا نام و نشان مٹ گیا۔ اس کے پایۂ تخت مدائن پر صحابہ کرامؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی کمان میں 16 ہجری میں اسلام کاجھنڈا لہرادیا۔ عدل و انصاف کے اس نظام کی وجہ سے حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں اسلامی ریاست مغربی افریقہ میں یورپ کے ساحلوں تک اور ایشیا کے بیشتر حصوں، ہند اور چین کی سرحدوں تک وسعت پذیر ہوگئی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ تینوں خلافت سے قبل تجارت اور کاروبار کرتے تھے مگر تینوں خلفائے راشدین نے اپنے دورِ خلافت کے دوران کوئی کاروبار نہیں کیا ۔ پہلے، دوسرے اور چوتھے خلفائے راشدین بقدر کفاف مالیات سے اعزازیہ وصول کرتے تھے، جبکہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنیؓنے مالیات سے کبھی کچھ بھی وصول نہ کیا۔ آپؓ تمام صحابہ کرام میں سب سے زیادہ متمول تھے۔ اللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ کرتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر آپؓ نے کئی سو اونٹ مع سازوسامان مجاہدین کے لیے پیش کیے۔ مدینہ میں میٹھے پانی کا کنواں بئر رومہ ایک یہودی کی ملکیت تھا۔ وہ مہنگے داموں پانی فروخت کرتا تھا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اللہ کا کوئی بندہ یہ کنواں خرید کر وقف کردے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے یہودی کی منہ مانگی قیمت پرکنواں خرید کر مخلوقِ خدا کے لیے وقف کردیا۔ شہادت کے وقت آپؓ نے لوگوں کو بتایا کہ آپ کے پاس کل پونجی صرف دو مکان ہیں، ایک مکہ میں اور ایک مدینہ میں‘ دو اونٹ ہیں، دوجوڑے کپڑوں کے ہیں اور چند درہم۔ گویا آپ نے اتنی بڑی ریاست کا حکمران بننے کے بعد دولت تو کیا بنانا تھی‘ ساری دولت اس عرصے میں فلاحی کاموں پر خرچ کردی۔
اسلام نے ہر شعبۂ زندگی کی طرح معیشت کی پالیسی بھی بہت واضح انداز میں بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر میں فرمایاکہ دولت تمہارے مالدار لوگوں ہی کے اندر مرتکز نہیں ہونی چاہیے۔ (آیت:7) دولت کی گردش اور اس کاعوام تک پہنچنا معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ میں ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی زبانی روایت ہوئی ہے جس کے مطابق آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایاتھا کہ اسلامی ریاست کی معاشی پالیسی یہ ہے کہ امرا سے پیسہ لیاجائے اور غربا کو دیاجائے۔ اسی طرح سود ، رشوت ، جوا،چوربازاری ،ذخیرہ اندوزی اور دیگر غیر اخلاقی ذرائع آمدن مکمل طور پر ممنوع قرار دیے گئے۔ اسلامی معیشت میں ان چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں ۔ حکومتی کارندے اپنے منصب پر رہتے ہوئے تحفے تحائف بھی وصول نہیں کرسکتے۔ یہ تحفے (توشہ خانے میں نہیں) بیت المال میں جمع ہوتے تھے۔ آنحضورﷺ نے اغنیا اور فقرا کے درمیان دولت کی تقسیم کے حوالے سے جو اصول متعارف کرایا‘ اسی کی بنیاد پر مدینہ میں فلاحی ریاست کا تصور پروان چڑھا۔
مدینہ کی ریاست میں جوں جوں وسعت پیدا ہوتی گئی اسی کے مطابق معاشی وسائل بھی بڑھتے گئے۔ حضرت عمرؓ کے دور میں وہ لمحہ مبارک آگیا جب آپؓ نے مکمل طور پر مدینہ کو اسلامی فلاحی ریاست میں ڈھال دیا۔آغاز میں آپؓ نے حکم دیا کہ جب کسی بچے کادودھ چھڑادیاجائے تو بیت المال سے اس کاوظیفہ جاری کردیاجائے۔ایک رات آپ مدینہ کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے بچے کے رونے کی آواز آئی۔ جب واپس پلٹے تو بچہ ابھی تک رو رہاتھا ۔ آپ اس پر پریشان ہوگئے اور دروازے پر دستک دے کر بچے کے اتنی دیر تک رونے کی وجہ پوچھی۔ بچے کی ماں نے جواب دیاکہ بچہ ابھی دو سال کانہیں ہوا مگر میں غربت کی وجہ سے اس کا دودھ چھڑا رہی ہوں کیونکہ امیرالمومنین کے حکم کے مطابق ،وظیفہ دودھ چھڑانے پر ہی لگتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓکی آنکھوں میں آنسوآگئے اوراپنے آپ سے کہا: ''اے عمر !تم نے نہ جانے کتنی مائوں اور ان کے بچوں کو اذیت پہنچائی ہو گی‘‘۔ اگلے روز سب سے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کا وظیفہ لگادیاجائے۔ اس کے بعدہر بچے کی پیدائش کے ساتھ اس کا وظیفہ لگ جاتاتھا۔ تمام بوڑھے ، معذور اور بے سہارا لوگوں کو بھی بیت المال سے ان کا گزارہ الائونس ان کے گھر پہنچایاجاتاتھا۔ قطاروں میں کھڑاکرکے کسی کی عزتِ نفس مجروح نہیں کی جاتی تھی۔ اس میں مسلم اور غیرمسلم کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ خلیفۂ وقت راتوں کو شہر کی گلیوں میں چکر لگاتے تھے کہ کوئی شخص کسی مشکل میں تو نہیں ہے ۔ حکمران جاگتے تھے تو رعایا امن و سکون کے ساتھ میٹھی نیند سوتی تھی۔
مالیات کے معاملے میں اتنی شفافیت تھی کہ ایک مرتبہ ناظم مالیات (وزیرخزانہ) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے بیت المال کا سارا پیسہ مستحقین میں تقسیم کرنے کے بعد کمرے کی صفائی کرائی تو ایک کونے سے ایک درہم ملا۔ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ اس ایک سکے سے کیا فرق پڑتاہے، وہ حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے کو دے دیا۔ جب آپؓ نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں سکہ دیکھا تو پوچھایہ کہاں سے لیا ہے۔ اس نے بتایاکہ یہ ابو موسیٰ اشعریؓ نے دیا ہے تو آپؓ نے حضرت ابو موسیٰؓ سے صورت حال معلوم کی اور پھر وہ بیت المال کاسکہ انہیں واپس کرتے ہوئے فرمایا: ابوموسیٰؓ تمہیں آل عمر سے کیا دشمنی ہے کہ تم ان کے ہاتھ میں آگ کے انگارے دے رہے ہو۔
حضرت علیؓ کا یہ بھی معمول تھاکہ جب بیت المال کی ساری رقم اسلامی اصولوں کے مطابق خرچ کردیتے تو مالیات کے کمرے میں دو نفل ادا کرتے ۔ پھر زمین کے اوپر پائوں مار کر کہتے: ''اے زمین تجھے قیامت کے دن اللہ کے دربار میں گواہی دیناہوگی کہ اللہ کے بندے علی نے جو کچھ اس کے نام پر وصول کیا، اسی کے احکام کے مطابق ایک ایک پائی اس کے راستے میں خرچ کردی۔ پھر آپؓ نے سورۃ الزلزال کی آیات تلاوت فرمائیں:
یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا o بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا۔
اس روز (زمین) اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی۔ کیونکہ تیرے رب نے اُسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہو گا۔
آج کے حکمرانوں کو یہ بات بالکل بھول گئی ہے کہ زمین ہر انسان کی ہر حرکت پر گواہی دے گی اور وہ سچی گواہی ہوگی۔ یہاں تو سچی جھوٹی آڈیو‘وڈیو لیکس کے ہنگامے ہیں، وہاں ذرّے ذرّے کا درست حساب ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں