وطنِ عزیز میں کوئی دن بلکہ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ جب کوئی عجوبہ یا حماقت آمیز ڈرامہ سامنے نہ آتا ہو۔ سیاست اور شوبز کی دنیا سے بچ بچا کر نکل جانے کے باوجود کوئی نہ کوئی واقعہ آپ کا تعاقب کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارا مزاج ایسا نہیں کہ ہم ایسے مضحکہ خیز حادثات کا تذکرہ کریں، مگر حالات ایسے ہیں کہ ان سے بالکل آنکھیں بند بھی نہیں کی جا سکتیں۔ کوئی نہ کوئی مہربان ایسے واقعات کا حوالہ دے کر ہماری رائے مانگ لیتا ہے۔ ہر بات پر رائے دینا کوئی فریضہ نہیں‘ مگر بعض محبانِ کرام بھی اپنی ہٹ کے پکے ہوتے ہیں۔ ایک مہربان نے ایک مطبوعہ خبر کا کلپ بھیجا اور بااصرار کہا کہ اس پر آپ کا کیا ردِعمل ہے۔ یہ خبر آپ نے بھی شاید دیکھی ہو:
''معروف یوٹیوبر نے شادی پر دلہن کو گدھے کا بچہ تحفہ دے دیا۔ اذلان اور وریشہ کی شادی دو دن قبل ہوئی تھی، تصاویر، وڈیوز وائرل ہو گئیں۔ یوٹیوبر اذلان نے شادی پر اپنی دلہن کو گدھے کے بچے کا تحفہ دے کر سب کو حیران کر دیا۔ اذلان کی شادی دو دن قبل ہوئی تھی جب دلہے نے دلہن کو تحفے میں گدھے کا بچہ دیا۔ یوٹیوبر نے بتایا کہ انہوں نے دوسرے جانوروں کے بجائے گدھا ہی تحفہ میں کیوں دیا؟ اس لیے کہ انہیں تمام جانور پسند ہیں، لیکن گدھا انہیں سب سے زیادہ پسند ہے۔ مذکورہ وڈیو میں دلہن کا بھی یہی کہنا تھا کہ انہیں گدھا سب سے زیادہ پسند ہے‘‘۔ (10دسمبر2022ء)
ہمیں گدھے یا اس کے بچے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اپنی آبائی روایات کے مطابق گھڑسواری مشغلہ ہوا کرتا تھا، مگر اب مدت ہوئی وہ بھی بھول بھلا چکے ہیں۔ گدھے کے بارے میں ایک دلچسپ تبصرہ یاد آ رہا ہے‘ جو آج کل کے سیاسی حالات دیکھ کر بار بار ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔ سیاسی افراتفری کے دور میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے کسی نے سوال پوچھا کہ مولانا سیاسی حالات کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ آپ نے فرمایا: ''اونٹ ہو تو کوئی کہہ بھی سکے کہ کس کروٹ بیٹھے گا، یہاں تو معاملہ گدھوں کا ہے۔ گدھا تو کسی ایک کروٹ نہیں بیٹھا کرتا، وہ تو ہر جانب پٹخنیاں لگاتا ہے‘‘۔ ایسا ہی معاملہ آج بھی میدانِ سیاست میں ہر جانب دیکھنے کو ملتا ہے۔
لوگ پیشین گوئیاں تو کرتے ہیں، مگر کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کل کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان سیاست دانوں کے پیروکار اور اندھے عاشقان کسی کی بات سننے یا عقل کے ناخن لینے پر ہرگز تیار نہیں۔ اپنا چور اور ڈاکو ہیرو ہے، دوسرے کا چور اور ڈاکو قابلِ گردن زدنی! ایک سیاست دان دوسرے سیاست دان کو سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتا ہے، جواب میں وہ بھی فرماتا ہے کہ ہم نے تین سال صاحب موصوف کا گند اٹھانے میں لگا دیے ہیں۔ پھر مفادات کی خاطر دونوں ایک دوسرے کے جگری یار بن جاتے ہیں اور کوئی پوچھے توکہتے ہیں کہ وہ پہلی بات غلطی میں کہہ دی تھی اب حقیقی بات کہہ رہا ہوں۔
اسی طرح دوسری جانب والے کل کہہ رہے تھے کہ فلاں کا پیٹ پھاڑ کر اس میں سے لوٹی ہوئی دولت نکالیں گے اور وہ جواب میں کہہ رہے تھے کہ آمریت کی نرسری میں پلنے والے یہ لٹیرے ملک کا سب سے بڑا سرطان ہیں جو دولت لوٹ کر بیرونِ ملک لے گئے ہیں۔ جب ذاتی مفادات کے تحت ایک دوسرے کو گلے لگانا پڑا تو دونوں فریقوں نے سابقہ ریکارڈ کے بارے میں کہا کہ وہ تاریخ کی تہوں میں دفن ہو چکا ہے، اس پر مٹی ڈالو، رات گئی بات گئی! کئی عشروں سے یہی یہاں کے شب و روز ہیں۔
صدر ایوب نے آئین توڑ کر 1958ء میں ملک میں پہلا مارشل لالگایا اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گئے تو اپنی من مرضی سے مختلف لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ خوش پوشاک نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کابینہ کا حصہ تھے اور ایوب صاحب کے چہیتے ! جب وہ اقتدار سے نکلے اور اپنے پرانے باس کے خلاف تحریک شروع کی تو ان کا ہر پیروکار ایوب خان کو کیا کہہ کر پکارتا تھا‘ یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ جب ہر جانب یہ نعرے لگ رہے تھے ''ایوب ... ہائے ہائے!‘‘ تو ایوب خان نے کہا ''مجھے معلوم ہے کون میرے خلاف نعرے لگوا رہاہے‘‘۔ یہی زمانے کا چلن ہے اور یہی دنیاداروں کی روش، نہ اخلاق نہ خوفِ خدا۔
قمر جاوید باجوہ صاحب نے جب اپنی سرپرستی میں خان صاحب کو ایوانِ اقتدار میں بٹھایا تو باجوہ صاحب ہی سب کچھ تھے۔ جب انہوں نے اپنا ہاتھ سر سے اٹھا لیا تو پھر وہ ہر برے لقب کے مستحق ٹھہرے۔اللہ معاف فرمائے‘ اس حمام میں سرپرستی کرنے والے اور سرپرستی سے فیضاب ہونے والے سب ننگے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ تمام ادارے دستورِ پاکستان کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور سیاست میں مداخلت نہ کریں۔ اسی میں ان سب کی عزت اور ملک کی ترقی اور تحفظ کی ضمانت ہے۔
اداکاروں کی دلچسپ حرکتوں میں کیا اچنبھا ہے کہ ان کا پیشہ تو انہی اٹھکھیلیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ مفاد پرست ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ کہنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ ایک یوٹیوبر نے گدھے کا بچہ ہی تو تحفے میں دیا ہے، گدھے کو تو کچھ نہیں کہا۔ پنجابی کی ایک دلچسپ حکایت ہے کہ ایک وڈیرا کمہار کے گدھے پر سوار ہوا توگدھے نے اسے نیچے گرا دیا۔ وڈیرے نے گدھے کو تو پیٹا ہی پھر کمہار کی بھی پٹائی کر دی حالانکہ کمہار کا کیا قصور تھا؟ پنجاب میں اس کو کہتے ہیں ''ڈِگا کھوتے توں، روہ کمہار تے‘‘ یعنی گرا گدھے سے اور غصہ نکالا کمہار پر۔ امریکہ بھی پوری دنیا میں اپنی مرضی کے گدھے پالتا ہے جو اس کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔خود امریکہ کے اندر سیاسی میدان میں گدھے کی بڑی شان ہے وہ وہاں کی حکمران ڈیموکریٹ پارٹی کا انتخابی نشان ہے اور ہاتھی کے مقابلے پر طویل مدت سے الیکشن لڑتا چلا آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں بے چارہ گدھا ساری مشقت کے باوجود گالی کا لفظ ہے۔ ایک اور کلپ بھی ایک ضدی دوست نے ارسال کیا ہے:
''مجھے دلہن کے روپ میں دیکھ کر دُلہا نہ رویا تو شادی کینسل‘‘۔ اداکارہ ماورا حسین کہتی ہیںخوب صورت دلہن ملنے پر شوہر کو لازمی شکرانے کے نفل ادا کرنا ہوں گے۔ اداکارہ نے واضح کیا ہے کہ اگر انہیں دلہن کے روپ میں دیکھ کر ان کا دلہا نہیں روئے گا تو وہ اسی وقت واپس چلی جائیں گی اور شادی نہیں کریں گی۔ اداکارہ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ان کے ہونے والے شوہر کو انہیں دلہن کے روپ میں دیکھ کر لازمی طور پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے خوشی سے رونا چاہیے۔ خدا نے انہیں ایسی خوب صورت دلہن دی اور اگر اس بات پر وہ خوش نہ ہوئے تو میں ان سے شادی ہی نہیں کروں گی اور واپس چلی جائوں گی۔‘‘ (روزنامہ دنیا، 11دسمبر2022ء)
یہ سوال کرنے والے صاحب بھی کیا عجیب ہیں۔ موصوف جوڑے نے تو اپنے معاشرے کی تصویر کشی کی ہے۔ زن مریدی کے ماحول کا تعارف یوں کرا دیا ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔ دوسری جانب اداکارہ نے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے محاورے کو نیا رنگ دے دیا ہے۔ اب یہ محاورہ یوں بولنا چاہیے ''اپنے منہ حسن کی دیوی بننا‘‘۔
اصولی طور پر ہمیں حدیث پاک سے سبق لینا چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جب تمہارے حکمران تم میں سے بہترین اور صاحبِ کردار لوگ ہوں گے، تمہارے مال دار لوگ فیاض اور سخی ہوں گے اور تمہارے معاملات باہمی مشاورت سے طے پائیں گے تو زمین کی پشت تمہارے لیے زمین کے پیٹ سے بہتر ہو گی‘‘۔ (یعنی زندگی موت سے بہتر ہو گی) اسی طرح جب تمہارے حکمران تم میں سے بدترین لوگ ہوں گے، تمہارے مال دار کنجوس اور بخیل ہوں گے اور تمہارے معاملات خواتین کے ہاتھ میں ہوں گے تو پھر زمین کا پیٹ تمہارے لیے زمین کی سطح سے بہتر ہو گا۔ (یعنی ایسی زندگی سے موت بہتر ہو گی۔)
آج ساری وہ چیزیں ہم دیکھتے ہیں جو اس حدیثِ پاک میں بدتر زندگی کی عکاسی کے لیے آنحضورﷺ نے ارشاد فرمائی تھیں۔ کیا یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوں کی کوئی اچھی صفات نظر آتی ہیں؟ کیا ہمارے ملک کے سرمایہ دار اور وڈیرے بخل، کنجوسی اور خودغرضی کی انتہا پر نہیں ہیں؟ اصل مسئلہ نظام کو چلانے والے افراد کا محاسبہ اور ان کی اصلاح اور معاشرے میں بااثر اور باوسائل لوگوں سے ان کے مال و جائیداد کا احتساب کرنے کا ہے، پھر جو امانت و دیانت کے اسلامی اصول اور دستورِ پاکستان کی دفعہ 62، 63 پر پورے نہ اتریں، ان کو کسی منصب پر نہ رہنے دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا یہ چھوٹی موٹی باتیں غیراہم ہیں۔