نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے دو تہوار ہیں؛ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ عیدالفطر ماہِ رمضان کی تکمیل پر اظہارِ تشکر کے لیے ہے، جبکہ عیدالاضحی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے عظیم الشان کارنامے کی یادہے۔ ظاہر ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے دو تہواروں کے علاوہ باقی سب تہوار ہم نے خود ازراہِ عقیدت ومحبت بنا لیے ہیں۔ حدیث اور سنت میں ان کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ عبادات اس وقت تک ثمرآور نہیں ہوسکتیں جب تک ان کے اندر وہ روح موجود نہ ہو جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابۂ کرام کے عملی نمونوں میں نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال نے اسی لیے کہا تھا:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے!
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے!
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے تُو باقی نہیں ہے!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس بندۂ مومن نے ایمان واحتساب کے ساتھ روزے رکھے ، اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جس نے رمضان کی راتوں کو ایمان واحتساب کے ساتھ قیام کیا اس کو بھی تمام سابقہ گناہوں سے معافی مل جاتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک روایت جو حضرت عمرؓنے بیان فرمائی ہے‘ ہمارے لیے بہت قابل غور ہے۔ مسند احمد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور مستد رک حاکم کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیاگیا ہے کہ سورۃ المومنون ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ مجلس میں موجود تھے، جب آنحضورﷺ پر نزولِ وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ جب وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمرؓ کی اس روایت کے مطابق آنحضورﷺنے فرمایا: ''مجھ پر اس وقت ایسی آیات نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اترے تو یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔آپﷺ نے اس کی ضمانت دی۔ اسی موقع پر آپﷺ نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں۔
اس حدیثِ پاک کی روشنی میں ہر قاری بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ان آیا ت کی کتنی اہمیت ہے۔ ان آیات میں اہلِ ایمان کو فلاح کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور پھر ان کی صفات بھی بیان کی گئی ہیں۔ ماہِ رمضان اور عید الفطر کے موقع پر ہر بندۂ مومن کو اپنا جائزہ لینا چاہیے اور ان آیات کی روشنی میں خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کس مقام پر کھڑا ہے۔ روزہ فلاحِ اخروی اور رضائے الٰہی کے لیے رکھا جاتا ہے اور عید اس کی تکمیل پر یومِ تشکر کے طور پر منائی جاتی ہے۔ عید سے قبل (چاند) رات کو حدیث پاک میں لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) قرار دیا گیا ہے۔ آئیے! ذرا ان آیات کی روشنی میں خوداحتسابی کا اہتمام کریں۔ پہلی آیت کا ترجمہ ہے: مومنین یقینا فلاح پاچکے ہیں۔ آیت نمبر 2 سے ان فلاح پانے والے مومنین کی صفات یوں شروع ہوتی ہیں۔
1: نماز میں خشوع:اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ خشو ع کے معنی اظہارِ عجزو انکسار اور انتہائی وارفتگی کے عالم میں کسی کے سامنے جھک جاناہے۔ اس کیفیت کا تعلق ظاہری و باطنی دونوں حالتوں سے ہے۔ یعنی دل بھی اللہ کی خشیت سے مالا مال ہو اور پورے جسم کا رواں رواں اس کی مکمل تصویر پیش کررہا ہو۔ظاہر ہے کہ جسے معرفتِ ربانی حاصل ہوجائے، وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے نماز کے لیے جب کھڑا ہوگا تو اللہ کی جبروت و عظمت، اس کے دل و دماغ کی دنیا کو بدل ڈالے گی۔ پھر وہ ساری دنیا سے خود کو کاٹ کر اپنے خالق کے دربار میں اس سے ہم کلام ہوجائے گا۔ جب دل میں خشوع وخضوع ہو تا ہے تو ایک جانب خیالات اور وسوسے دل سے رخصت ہوجاتے ہیں‘ دوسری جانب تمام اعضا و جوارح ساکت و صامت بندگی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ یہ کیفیت مشکل ہی سے پیدا ہوتی ہے لیکن نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ اور ان کی معنویت پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ مشکل کام آسان ہوجاتا ہے۔
نمازیں کیسے بااثر ہوں؟:بلاشبہ پریشانیاں اور تفکرات بھی انسان کی زندگی کا حصہ ہیں اور شیطان نمازہی کی حالت میں دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے کسی وقت توجہ ادھر اُدھر ہوجانا تقاضائے بشری ہے۔ اپنی ذاتی تربیت کے لیے ایک تسلسل اور دوام کی ضرورت ہے۔ نماز کی حالت میں ادھر اُدھر دیکھنے، کسی سے بات چیت کرنے، کوئی چیز پکڑنے سے جو منع کیا گیاہے تو اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ یہ سارے کام خشوع و خضوع کے منافی ہیں۔ جلدی جلدی نماز پڑھنا،جسم کے حصوں سے کھیلتے رہنا،داڑھی اور کپڑوں کو کھنگا لنا اور جھاڑنا، سب چیزیں خشوع وخضوع کے منافی ہیں۔ اگر نماز کے دوران کوئی خیال آجائے تو اسے جھٹک کر اپنی توجہ نماز کی طرف مرتکز کردینا بھی باعث اجرو ثواب ہے۔ ہماری نماز یں اسی لیے بے اثر ہوگئی ہیں کہ ان میں خشوع و خضوع نہیں ہے۔
2: لغویات سے اجتناب: لغویات سے اجتناب کرتے ہیں۔ مومن کی یہ شان نہیں کہ اتنا عظیم نصب العین‘ جو کلمہ طیبہ میں سکھایا گیا ہے‘ اختیار کرنے کے بعد خود کو لغویات کے سپر د کردے۔ ہر وہ کام جس کا نہ کوئی دنیوی فائدہ ہے، نہ اخروی ثواب، لغویات کی نوع میں آجاتا ہے۔ وہ محفلیں اور کھیل تماشے، جو اخلاق سے عاری اور ضیاعِ وقت کا باعث ہوتے ہیں‘ لغویات میں شامل ہیں۔صحت مندتفریح اور ریاضت و ور زش لغویات میں شامل نہیں ہیں۔ لغوباتیں اس قدر غیر پسندیدہ ہیں کہ ایک مومن فطری طور پر ان سے متنفر ہوجاتا ہے۔ وہ ان سب سے اپنا دامن بچا کر زندگی گزارتا ہے۔
قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ رب العالمین نے اہلِ جنت کو عطا کیے جانے والے انعامات میں ایک بڑی نعمت یہ شمار کی ہے کہ وہ جنت میں لغویات دیکھنے اور سننے سے محفوظ ہوں گے۔ آج ہم دنیا میں یقینا اس سے محفوظ نہیں کیونکہ معاشرے میں ہر جانب لچر کھیل تماشے، فحاشی، عریانی اور بے حیائی اور لغویات کلچر اور فیشن بن چکے ہیں۔ ایک ذوقِ لطیف رکھنے والے شخص کے لیے یہ سب چیزیں سوہانِ روح ہیں۔ اس کلچر اور شیطانی چلن کو بدلنے کی جدو جہد کرنا ہی دینی فرض ہے۔
3: تزکیہ: تیسری صفت یہ ہے کہ اہلِ ایمان زکوٰۃ کے طریقے پر کار بند ہوتے ہیں۔ یعنی محض زکوٰۃ دینے کی بات نہیں کی گئی، اس سے بڑھ کر ایک جامع تصور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کو پاکیزہ بنانے کے لیے زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں اور زندگی کے ہر پہلو کا تزکیہ کرنے کے لیے فکر مند اور کوشاں بھی رہتے ہیں۔اس میں اپنی زندگی کے تزکیے کے ساتھ ساتھ گردو نواح کے ماحول کا تزکیہ بھی شامل ہے۔
4: پاک دامنی: چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اپنی جائز جنسی خواہشات اپنی منکوحہ بیویوں اور ملک یمین میں حاصل ہونے والی عورتوں تک محدود رکھتے ہیں۔ اس سے تجاوز اللہ تعالیٰ کے قانون سے بغاوت ہے۔ اس حوالے سے محض شرم گاہوں کی حفاظت ہی مطلوب نہیں، اپنی آنکھوں، کان اور تمام اعضا و جوارح کی حفاظت مطلوب ہے۔ بدکاری وفحاشی کا جہاں شائبہ بھی ہو، مومن کے قدم وہاں رک جاتے ہیں۔
5: پابندیٔ عہد و حفظِ امانت: پانچویں صفت یہ بیان کی گئی ہے وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کی پابندی کرتے ہیں۔ امانت مال و دولت اور مادی سامان کی صورت میں بھی ایک شخص کے پاس محفوظ کی جاتی ہے اور اپنے راز اور ذاتی معاملات بھی ایک شخص امانتاً دوسرے کے حوالے کردیتا ہے۔ جس شخص میں امانت نہ ہو‘ حدیث کے مطابق‘ اس کے دل میں ایمان ہی نہیں ہوتا۔ عہدو پیمان کی پابندی بھی دینی فرض اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس میں کمی بیشی کرنا دین سے رو گردانی کے مترادف ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے: جو عہد کی پابندی نہ کرے‘ اس کا کوئی دین نہیں ہوتا۔
6: حفاظتِ نماز: آخر میں پھر اسی نکتے کو بیان فرمایاگیا ہے، جس سے آغاز ہوا تھا۔ فرمایا:''اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ ابتدا میں نمازکا صیغہ واحد استعمال ہوا تھا، یہاں جمع کے صیغے میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔ نمازوں کی محافظت کا مطلب ہے، اوقاتِ نماز،آدابِ نماز،ارکان و اجزاے نماز،غرض نماز سے متعلق تمام چیزوں کی مکمل نگہداشت کرنا۔ یعنی نماز کو بیگار نہیں گردانتے بلکہ اسے اپنی زندگی کا حصہ اور اپنی روح کی غذا بنالیتے ہیں۔ ادھر نماز کا وقت ہوا، ادھر تمام اعضا وجوارح خود تقاضا کرنے لگے کہ لپک کر مقامِ عبودیت کی طرف بڑھیں، ان لوگوں کا اجر یہ بیان فرمایا گیا ہے : ''یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
ہر بندۂ مومن کے لیے فرض ہے کہ عید کی خوشی مناتے ہوئے ان آیات پر غور کرے۔ ان صفات کی فہرست بنائے اور ان پر کاربند ہوجانے کے لیے کمرِ ہمت باندھ لے، پھر مسلسل اپنا جائزہ لیتا رہے کہ وہ کہاں تک اپنے مقصد میں کامیاب ہواہے اور کہاں ابھی تک خامی و نقص موجود ہے۔ ان شاء اللہ اس کے نتیجے میں اگلے رمضان اور آئندہ عیدالفطر کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ