تمام جھوٹی خدائیوں کے
صنم کدوں کو گرانے والو!
تمہاری یادیں بسی ہیں دل میں
افق کے اس پار جانے والو!
ڈیرہ غازی خان سرداری نظام کا علاقہ ہے۔ لغاری، مزاری، کھوسے، دریشک، لُنڈ، بزدار اور دیگر قبائل اس خطے میں آباد ہیں اور بیشتر علاقوں میں قبیلوں کے سردار عوام پر مسلط ہیں۔ کسی عام آدمی کا ان کے مدمقابل کھڑے ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ ڈاکٹر نذیراحمد‘ جو مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے اس علاقے میں مقیم ہوئے تھے‘ نے بتوں کو توڑ دیا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں ڈاکٹر صاحب جماعت اسلامی کے امیدوار تھے۔ آپ نے سرداروں اور تمن داروں کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی سیٹ جیت لی۔ آپ نے قوم اسمبلی کے افتتاحی اجلاس ہی میں اپنے خطاب میں مقتدر قوتوں کی رعونت کو مردانہ وار للکارا۔ اسی کے نتیجے میں آپ کو 8 جون 1972ء کو قیدِ جسمِ مادی سے آزاد کر دیا گیا۔
میں 8 جون 1972ء کو بعد دوپہر رحیم یار خان پہنچا تھا۔رات کو کافی دیر تک قاری صغیر حسین اور عبدالرزاق صاحبان کے ساتھ تحریک اسلامی کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ گفتگو میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کا ذکر بار بارآیا۔ آپ چند روز قبل صادق آباد کی ایک تربیت گاہ میں تشریف لائے تھے۔ رحیم یار خان کے ساتھیوں نے بھی ڈاکٹر صاحب سے 18 جون کی تاریخ لے رکھی تھی،تمام کارکنان اس دن کے منتظر تھے۔ ہم میں سے کسی کو علم نہ تھا کہ جس وقت ہم اپنے اس عظیم لیڈر کے بارے میں رات کو ستاروں کی چھائوں میں کھلے صحن اور گرم موسم میں بیٹھے یہ باتیں کر رہے تھے وہ ہم سے رخصت ہو کر دور کسی وادیٔ امن و سکون میں گہری نیند سو رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب سے باقاعدہ تعارف1968ء میں ہوا۔ میں ان دنوں جمعیت طلبہ لاہور کا ناظم تھا۔ مرکز جماعت اچھرہ میں مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہورہا تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب کو شب بیداری کے ایک پروگرام میں شمولیت کی دعوت دینے کے لیے ان کی خدمت میں اچھرہ حاضر ہوا تو وہ بیمار تھے۔اس وقت ان کے پاس مولانا معین الدین خٹک اور کچھ دوسرے احباب بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے اپنا تعارف کرایا اور اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ڈاکٹر صاحب کے تمام دوستوں نے ان کی بیماری کا حوالہ دیا۔ناتجربہ کاری اور کم علمی کی وجہ سے میں نے اصرار کیا اور پھر فیصلے کے لیے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے انھوں نے میرے شانے پر اپنا ہاتھ رکھا اور مسکراتے ہوئے آنے کا وعدہ کرلیا۔وہ آئے اور ان کی آمد سے ہماری وہ تربیتی نشست یادگار بن گئی۔ان کا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا تھا،اخلاص سے دھلا ہوا اور عمل پر ابھارنے کے لیے تیر بہدف بنا ہوا تھا۔
اسی تربیتی نشست میں مولانا معین الدین صاحب کا درسِ حدیث تھا۔طے پایا کہ ڈاکٹر صاحب مولانا معین الدین کے درسِ حدیث کے بعد خطاب فرمائیں گے۔پروگرام کے مطابق مولانا معین الدین کا درس رات 11 بجے ختم ہوا۔ڈاکٹر صاحب اس سے پانچ منٹ پہلے پروگرام کے مطابق عبدالوحید سلیمانی کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا موضوع تھا ''فریضہ اقامت دین اور ہم‘‘۔مولانا معین الدین صاحب ان کی تقریر سننے کے لیے وہیں رک گئے۔تقریر رات بارہ بج کر دس منٹ تک جاری رہی۔پھر ڈاکٹر صاحب نے سوالات کے جوابات دیے۔یہ سلسلہ ایک بجے تک چلا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے کارکنوں نے فرمائش کی کہ وہ اپنا تعارف کرائیں۔انہوں نے محض اپنا نام،رہائش اور ذمہ داری تک اپنا تعارف محدود رکھا۔پھر جب وہ مولانا معین الدین صاحب کے ہمراہ رخصت ہونے لگے تو ہم نے ایک کارکن کو ان کے ساتھ بھیجنا چاہا لیکن ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: بھئی کسی کو تکلیف نہ دیجیے ہم چلے جائیں گے،اور ڈاکٹر صاحب چلے گئے۔ مرحوم بہت دور چلے گئے، مگرجاتے ہوئے انہوں نے کسی دوسرے کو کوئی زحمت نہیں اٹھانے دی۔ان کے پاس چند کارکنان موجود تھے۔لیکن انہوں نے ہر گولی اپنے سینے پر روکی اور خاموشی سے چلے گئے۔
1970ء کے آخر میں مَیں ساہیوال جیل سے ایک سال کی قید کاٹ کر رہا ہوا۔ملتان میں ڈاکٹر نذیر احمدصاحب سے ایک پروگرام میں ملاقات ہوئی تو اجتماع کے بعد وہ مجھے اپنے دوستوں سے ملانے کے لیے لے گئے۔میں اس شام ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ملتان میں ان کے کئی دوستوں سے ملنے گیا۔ہم جہاں بھی گئے وہاں میں نے دیکھا کہ ان کی آمد کی خبر سن کر گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی دوڑتے ہوئے آتے اور آ کر ان سے لپٹ جاتے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اس رہنما نے ہر جگہ پیار اور خلوص کے دیپ جلائے۔
ڈاکٹر نذیر احمد نے ضلع ڈیرہ غازی خان کے جاگیردارانہ نظام میں جکڑے ہوئے لوگوں کے اندر عزت اور خود داری کی زندگی کا حساس پیدا کیا،پروانوں کو دوردراز کے ریگزاروں سے اپنے گرد جمع کیا۔وہ شمعِ محفل تھے اور پروانے ان کے گرد منڈلاتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے تحریک اسلامی کا پیغام اس بنجر زمین میں اس محنت سے پہنچایا کہ یہی سنگلاخ ضلع پنجاب کا سب سے زرخیز خطہ بن گیا۔پہاڑوں اور جنگلوں میں رہنے والوں نے اس مومن صادق کو اپنے دکھ دردمیں شریک پایا۔شہر کے باسیوں نے اسے ہر حال میں اپنا غم گسار قائد پایا۔بچوں نے اسے دیکھا تو خوشی سے ان کے چہرے دمک اٹھے کیونکہ اس کا دستِ شفقت ایک باپ کی طرح ان کے سروں پر رہتا۔بوڑھوں سے وہ ملا تو اس طرح جیسے ایک سعادت مند نوجوان اپنے بزرگوں سے ملتا ہے۔ نوجوانوں نے اسے دیکھا تو مصائب اور مشکلات میں جینے کا حوصلہ پایا۔یہ انسان زندگی بھر روشنی کا پیغام بن کر جیا اور جب رخصت ہوا تو اس کی موت بھی قابل ِ رشک بن گئی۔
میں مارچ1970ء میں کیمپ جیل لاہور سے سنٹرل جیل ساہیوال منتقل کیا گیا۔یہ ایک بڑی جیل ہے۔یہاں بلوچ قیدیوں کی بہت بڑی تعداد مقیدتھی۔تمام قیدی نماز روزے کے پابند اور متشرع تھے۔ان کا قائد ایک ستر سالہ بوڑھا بلوچ منگن خان تھا جس کو 48 برس قید کی سزا ہوئی تھی۔منگن خان کو اس بڑھاپے میں بھی خطرناک قیدی سمجھ کر''چھ چکی‘‘ میں بند کیا گیا تھا(اس جگہ خطرناک قیدیوں کی خصوصی نگرانی کا اہتمام ہوتا)۔میں بھی دو مرتبہ معافی نامے کے ذریعے رہائی کی پیشکش ٹھکرانے کی وجہ سے ''خطرناک‘‘ قیدیوں کے زمرے میں لکھ دیا گیا اور اس وارڈ کی ایک کوٹھڑی میں مجھے بند کر دیا گیا۔منگن خان سے نماز کے وقت ملاقات ہوجاتی تھی۔ظہر،عصراور مغرب کی نمازیں ہم سب قیدیوں نے احاطے کے اندر باجماعت ادا کرنا شروع کردی تھیں۔
ایک روز میں اخبار میں ڈاکٹر صاحب کا بیان پڑھ کر قیدیوں کو سنا رہا تھا کہ منگن خان وہاں آیا۔وہ ڈاکٹر صاحب کا نام سن کر خوشی سے اچھل پڑا اور کہنے لگا ''میں نے زندگی میں اس سے زیادہ دلیر اور جرات مند شخص کوئی نہیں دیکھا۔ ماں نے شیر جنا ہے‘‘۔ منگن خان نے بتایا ''میں نے ڈاکٹر کی جیل کی زندگی دیکھی ہے۔کئی مرتبہ مختلف جیلوں میں وہ ہمارے ساتھ مقید رہا۔وہ راتوں کو تہجد اور نوافل اور قرآن خوانی میں جیل کی کال کوٹھڑیوں کو آباد کیا کرتا تھا۔اور دن کے وقت وہ قیدیوں کے حقوق کے لیے افسرانِ بالا کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا تھا۔وہ اکثر ہمارے ساتھ سی کلاس میں رکھا جاتا۔کبھی کبھار ڈاکٹر کو بی کلاس بھی مل جاتی تو عملاً ہمارے ساتھ سی کلاس میں ہی رہتا۔وہ اپنا کھانا لے کر عام قیدیوں کے درمیان آجا تا اور سب کے ساتھ مل کر کھاتا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی خبر سن کر رحیم یار خان سے صبح سویرے ہم تین ساتھی عازمِ ڈی جی خان ہوئے۔کبھی باہمی گفتگو،کبھی خاموشی اور غم،سوچوں کا سفر اور ماضی کے جھروکے!عجیب سفر تھا۔ اب ہم بس میں بیٹھے رحیم یار خان سے ظاہر پیر اور چاچڑاں کے راستے ڈیرہ غازی خان جا رہے تھے۔ہم وہاں وقت پر نہیں پہنچ سکے؛اگرچہ ڈرائیور نے یہ معلوم ہوتے ہی بس چلا دی تھی کہ ہم ڈی جی خان جا رہے ہیں۔اسے بس چلاتے ہوئے دیکھ کر کنڈکٹر لپک کر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ''بس کیوں چلا دی، ابھی بس خالی ہے‘‘۔ ڈرائیور کا جواب تھا ''پیسے تو روز کماتے ہیں۔ آج پیسے کمانے کا دن نہیں۔ ان لوگوں کو ڈاکٹر صاحب کے جنازے میں شریک ہونا ہے‘‘۔ لیکن ہم پیچھے رہ گئے اور ڈاکٹر صاحب آگے نکل گئے۔وہ ہمیشہ ہم سے بہت آگے رہتے تھے۔ ظاہر پیر سے ہم مظفر گڑھ پہنچے اوروہاں سے ڈیرہ غازی خان کی بس میں سوار ہوئے۔رحیم یار خان سے ڈیرہ غازی خان تک ہمارے پورے سفر کے دوران ہر بس اور راستے کے ہر سٹاپ پر شہید ڈاکٹر کے تذکرے تھے۔لوگ اسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔اداس چہروں پر ایک ہی کہانی لکھی ہوئی تھی۔ہم ساڑھے آٹھ بجے شب ڈیرہ غازی خان پہنچے۔ ایک ٹانگے میں سوار ہو کر منزل پر آئے۔ تانگا بان لڑکے سے کرایہ پوچھا تو اس نے کہا: آج کوئی کرایہ نہیں۔ ہم نے اصرار کیا تو روتے ہوئے کہنے لگا: آپ میرے باپ کی تعزیت کے لیے آئے ہیں، میں آپ سے کرایہ لوں؟ اس تانگا بان نے ہم سب کو رُلا دیا۔
اب ہم شہید کی قبر کے گرد کھڑے تھے۔رات کا وقت تھامگرلوگوں کا ایک ہجوم امڈا چلا آرہا تھا۔آنکھوں میں آنسو،چہروں پر عقیدت،زبانوں پر تلاوت قرآن مجید،کلمہ طیبہ اور درود شریف۔ہزاروں دل دھڑک رہے تھے‘ لاکھوں دل دھڑک رہے ہیں۔ میں نے بے ساختہ کہا: ڈاکٹر صاحب!کون کہتا ہے کہ آپ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں؟
جس سمت قدم اٹھ جاتے ہیں،خود منزل آگے آتی ہے
یہ راز کچھ ایسا راز نہیں‘آسودۂ منزل کیا جانیں