اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاکے بعد!

تاریخ میں جب بھی شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ کا تذکرہ آتاہے تو ان کی بہن سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے حالات و واقعات بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ وہ عون اور محمد رضی اللہ عنہما کی والدہ ہیں جو اپنے عظیم ماموں کے ساتھ میدانِ کربلا میں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت زینبؓ کی ولادت 4ھ میں ہوئی۔ آنحضورﷺ کی رحلت کے وقت ان کی عمر 6 سال سے کچھ زائد تھی۔
حضرت زینبؓ کی زندگی اول و آخر عظمتوں کی داستان ہے مگر میدانِ کربلا اور اس کے بعد کی منزلوں میں ان کا جو کردار سامنے آتاہے اس کی بہت کم مثالیں انسانی تاریخ میں ملتی ہیں۔ ایک بار وہ میدانِ کربلا میں 9 محرم کو صورت حال دیکھ کر قدرے پریشان ہوئیں اور ان کی زبان پر دردناک اشعار آئے۔ حضرت زینبؓ کے اشعار کا مفہوم یوں تھا: ''اے کاش میں یہ منظر دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہتی، جب میرا بھائی اور پورا خاندان ظالموں کے نرغے میں آ گئے ہیں۔ نانا جان، والدہ محترمہ، بابا جان اور برادرِ بزرگ سیدنا حسنؓ،سب کی جدائی پر دل پھٹ گیاتھا مگر ان سب کے بعد جس سے آنکھیں ٹھنڈی ہوتی تھیں اور جو میرے دل کا قرار تھا، اب وہ بھی مجھ سے چھن جائے گا۔ اے کاش میں اس کے بدلے میں اپنی جان قربان کر دیتی اور اسے کوئی گزند نہ پہنچتا‘‘۔ان جذبات میں کوئی تصنع ہے نہ کسی قسم کی غیر فطری بات۔ یہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہیں اور ان میں کوئی مبالغہ بھی نہیں۔
اس موقع پر حضرت امام حسینؓ نے عزیمت کا پہاڑ بن کر اپنی بہن کو نہایت بلیغ انداز اور پُر عزم الفاظ میں صبر کی تلقین فرمائی۔ انہوں نے فرمایا: '' اے میری بہن ! صبر کو اپنی ڈھال بنائو۔ اللہ سے لو لگائو۔ اللہ کے ذکرسے تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کو بقا ہے باقی ساری کائنات کا مقدر فنا ہے۔ ساری کائنات سے اعلیٰ و ارفع اور مقدس ہستی ہمارے نانا جان خاتم الانبیاﷺ کی تھی ( وہ بھی دنیا میں ہمیشہ نہیں رہے ) ہمیں انہی کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنی ہے۔ اے میری پیاری بہن !میری بات سنو۔ میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتاہوں کہ میں راہِ حق میں شہادت پا جائو ں تو گریبان نہ پھاڑنا، نہ بین کرنا ، نہ چہرے اور بالوں کو نوچنا‘‘۔ میدانِ کربلا کا معرکہ گرم ہوا تو سب سے پہلے حضرت زینبؓکے نو عمر بیٹے عون و محمد بن عبداللہ رضی اللہ عنہمایزیدی فوجوں کے مقابلے پر نکلے۔ وہ بڑی بہادری سے لڑے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے دادا جعفرؓاور والد عبداللہؓبھی شیر دل تھے اور وہ خود تو شیر خدا حضرت علیؓ کے نواسے تھے۔
سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد تمام خواتین کو قیدی بنایا گیا۔ پورے قافلے میں سے صرف آپؓکے ایک نوعمر بیٹے حضرت علی بن حسین المعروف زین العابدینؓ،جو شدید بیمار تھے‘ بچ پائے۔ کچھ بدبختوں نے زین العابدینؓ پر بھی ہتھیار اٹھانا چاہے مگر حضرت زینبؓ ان کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور فرمایا: خدا کی قسم جب تک میں زندہ ہوں میرے بیمار بھتیجے کو کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ حضرت زینبؓ نے غم و الم کے اس موقع پر اپنے نانا محبوب ِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کو خطاب کیا اور میدانِ جنگ کا درد ناک نقشہ کھینچا، جہاں اہلِ بیت کے لاشے بکھرے پڑے تھے اور جہاں آپﷺکے محبوب نواسے سیدنا حسینؓ کابے سرجسم پڑا تھا بس پھر کیا تھا‘دشمن اپنی دشمنی کے باوجود بے ساختہ رونے لگے۔
یہ سارے مناظر دل فگار تھے مگر اگلی منزلیں مشکل تر تھیں۔ قافلۂ اہلِ بیت کو یزید کے دربار میں لے جانے سے پہلے کوفے کے ظالم گورنر عبیداللہ بن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا۔ قافلے کا گزر کوفے کے بازاروں میں سے ہوا تو بے وفاکوفی ہزاروں کی تعداد میں اس منظر کو دیکھنے کے لیے گھروں سے نکل آئے ۔ اس موقع پر حضرت زینبؓسے کوفیوں کی عہد شکنی اور غداری پر خاموش نہ رہا گیا ۔ انہوں نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے دھوکے بازو! بدعہدی کرنے والو! خدا تمہیں کبھی سکون عطا نہ کرے ۔ تم نے میرے بھائی کے ساتھ جو غداری کی اس نے ثابت کر دیا کہ تمہارے خمیرمیں خیر نہیں۔ تم خوشامدی اور بزدل ہو۔ نواسۂ رسول کے قتل میں تم بالواسطہ شریک ہو۔ تم نے بیعت کر کے توڑ دی اور حمایت کا اعلان کر کے پیٹھ پھیر گئے۔ یاد رکھو تم خدا کے قہر سے نہ بچ سکو گے۔
عبیداللہ بن زیاد نے کوفہ میں دربار منعقد کیا اور اسیرانِ کربلا اس کے سامنے پیش کیے گئے۔ بدبخت نے اس مصیبت زدہ اور غم سے چور خانوادۂ رسول کے قافلے کو اذیت پہنچانے کے لیے بہت بے ہودگی اور یاوہ گوئی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے یہ الفاظ تاریخ کے صفحات میں خود تاریخ کے لیے اذیت کا باعث ہیں۔ اس نے کہا: خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم لوگوں کو رسوا کر دیا اور تمہاری منحرف سوچ کو نیچا دکھا دیا۔ شیر خدا حضرت علیؓ کی بیٹی اس دہشت گردی کے عالم میں بھی بے خوف کلمہ حق بلند کرتے ہوئے بولیں: تعریف اور حمدو شکر ہے اس ہستی کے لیے جس نے اپنے محبوبﷺ کے ذریعے ہمیں عزت بخشی۔ ان شاء اللہ فساق رسوا اور ذلیل ہوں گے اور ان کے نظریات لعنت زدہ قرار پائیں گے۔ یہ گفتگو بڑی طویل تھی۔ عبیداللہ بن زیاد جب زچ ہوگیا تو اس نے امام زین العابدینؓ کی طرف اشارہ کر کے کہا: اس لڑکے کو کیوں قتل نہیں کیا گیا ؟ اسے میرے سامنے قتل کر دیا جائے۔ حضرت زینبؓاپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور فرمایا : پہلے مجھے قتل کرو ، پھر اسے قتل کرنا۔
آخر یہ قافلہ کوفہ سے شام کی طرف سرکاری دستوں کے محاصرے میں روانہ کر دیا گیا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد یہ مظلوم یزید کے دربار میں پیش کیے گئے۔ نواسۂ رسول کا مبارک سر جسے آنحضورﷺپیار سے بوسہ دیا کرتے تھے‘ نیزے کی اَنی پر پرویا ہوا تھا۔ یزید کے دربار میں ان مظلوموں کو پیش کیا گیا تو اس نے امام کا سر دیکھ کر کہاکہ میں نے اسے نیزے پر پرونے کا حکم نہیں دیا تھا۔ یہاں بھی یزید کے ساتھ جو مکالمہ ہوا،اس میں حضرت زینبؓ نے کمال حکمت و دانش اور جرأت و بہادری کے ساتھ اس کے تمام اعتراضات کا بھر پور جواب دیا۔ یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ نے ایک مؤثر اور دردناک خطاب فرمایا۔ اس میں انہوں نے یزید کو باور کرایا کہ اپنے زعم میں وہ سمجھ رہاہے کہ اسے کامیابی مل گئی اور اہلِ بیت سرنگوں ہو گئے، مگر حقیقت میں اہلِ بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے پورے ٹولے نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیاہے ۔ ؎
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کچھ دن یزید نے ان لوگوں کو دمشق میں ٹھہرائے رکھا، پھر اس نے حکم دیا کہ ان خواتین کو سواریوں پر سوار کیا جائے اور مدینہ پہنچایا جائے۔ صحابی رسولؓﷺحضرت نعمان بن بشیرؓانصاری کو جو دمشق میں مقیم تھے، ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اپنی نگرانی میں قافلے کو مدینہ تک پہنچائیں۔ اونٹوں پر محمل رکھے گئے تھے۔ حضرت زینبؓ نے فرمایا کہ محملوں پر سیاہ چادریں ڈال دی جائیں‘ اس لیے کہ محملوں میں حضورﷺ کی بیٹیاں سوار تھیں اور سفر لمبا تھا۔ ان کو یہ سفر پردے میں کرنا تھا کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ یہ خاتونِ جنت کی بیٹیاں تھیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ ان کے جنازے کے وقت چشمِ فلک بھی ان کے کفن کو نہ دیکھ سکے۔ واقعاتِ کربلا کی خبر مدینہ منورہ پہنچ چکی تھی۔ جب یہ قافلہ مدینہ کے قریب پہنچا تو مدینہ میں موجود صحابہؓو تابعینؒاور اہلِ مدینہ بڑی تعداد میں ان کے استقبال کے لیے شہر سے باہر نکلے۔ مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓسب سے آگے آگے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ فرما رہے تھے کہ یہ قوم اپنے نبی کو روزِ قیامت کیا منہ دکھائے گی؟ اپنے غم خوار صحابہ کو دیکھ کر حضرت زینبؓبھی رونے لگیں۔ حضرت جابرؓکو خطاب کر کے کہا: اے میرے نانا کے صحابی! آپ نے جس بچے کو اپنے ہاتھوں سے اپنے آقاﷺ کے مبارک کندھوں پر کئی بار بٹھایا تھا، اس کا جسد اطہر گھوڑوں کے سموں سے کچلا گیا اور اس کا سر نیزے کی نوک کی زینت بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت زینبؓ پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور وہ گر گئیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب حضرت زینبؓ فرطِ غم سے غش کھا گئیں۔ انہیں اٹھا کر ان کے گھر لایا گیا۔ پورے مدینہ پر غم کی چادر تن گئی اور ہر گھر میں بڑے چھوٹے، مرد و خواتین سبھی زارو قطار روئے۔ اگلے دن حضرت زینبؓ مسجد نبوی میں تشریف لے گئیں۔ آنحضورﷺکے روضۂ مبارک پر حاضر ہوئیں اور صلوٰۃ و سلام عرض کرنے کے بعد اس پورے منظر کو بیان کیا جس سے آلِ رسول دوچار ہوئی تھی۔ اس موقع پر بھی سب لوگ رونے لگے مگر حضرت زینبؓنے آج اسی انداز میں لوگوں کو صبر کی تلقین کی جس انداز میں شبِ کربلا میں ان کے محبوب بھائی نے انہیں تلقین فرمائی تھی۔
حضرت زینبؓ اور ان کی دوسری بہنوں نے صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیرؓ کو بلایا۔ ان کے حسنِ سلوک اور غم خواری کا شکریہ ادا کیا اور دورانِ سفر ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اپنی چوڑیاں اتار کر پیش کر دیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ اس وقت ہمارے پاس کچھ اور ہوتا تو وہ بھی آپؓکی خدمت میں پیش کر دیا جاتا۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ یہ بات سن کر زار و قطار روئے اور کہا: اے بنات ِرسول! خدا کی قسم میں تو آپؓ کی خدمت کو اپنے لیے توشۂ آخرت سمجھتا ہوں۔ اگر میں نے دنیا کے لالچ میں یہ کام کیا ہو تو مجھے قیامت کو کیا اجر ملے گا۔ اللہ آپ کے غموں کا مداوا فرمائے‘ آپ اپنی چوڑیاں اپنے پاس رکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں