موت سے کس کو رستگاری ہے

موت اور زندگی کا تعلق صحت اور عمر کے ساتھ نہیں‘ اس کا فیصلہ ربِّ کائنات نے پہلے سے کر رکھا ہوتا ہے۔ کبھی تندرست و توانا انسان رخصت ہو جاتا ہے اور بیمار بیچارا پڑا رہتا ہے۔ بعض اوقات نوعمر داغِ مفارقت دے جاتے ہیں اور بوڑھے آہیں بھرتے رہتے ہیں۔ حافظ ذوالکفل کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔ شروع کے چند سال اس کی صحت بہت اچھی رہی اور وہ اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا اور خوب دوڑتا پھرتا تھا۔ گائوں کے ایک بزرگ کہتے تھے کہ اگر اس کی دن بھر کی دوڑ دھوپ ریکارڈ کی جائے تو شاید میلوں میں ہو گی۔ اپنی دادی اماں کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتا تھا یا یوں سمجھیں کہ دادی اماں اس کے ساتھ ساتھ رہتی تھیں۔ پھر اچانک بیمار ہوا۔ گائوں سے منصورہ لے کر آئے اور شیخ زید ہسپتال سے علاج کروایا گیا۔ اللہ کی رحمت سے چند ہفتوں کے بعد ٹھیک ہو گیا، لیکن جسمانی طور پر پہلے کے برعکس اپنی عمر سے اب کم لگتا تھا۔ صحت اور بیماری زندگی اور موت سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
ابتدائی ایک دو سال کی تعلیم گائوں کی مسجد میں قائم مکتب ومدرسہ سے حاصل کی۔ میرے ماموں جان میاں سخی محمد (ذوالکفل کے دادا اور حافظ غلام محمد دادا کے بھائی) اور دیگر تمام بزرگان ان بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد میاں عبدالماجد صاحب نے دوبارہ متحدہ عرب امارات میں بچوں کو بلا لیا۔ حافظ ضیغم نے وہاں میٹرک، حافظ سعد نے مڈل اور حافظ ذوالکفل نے تیسری کلاس تک تعلیم حاصل کی جبکہ حافظ ذوالنون نے وہاں پہلی کلاس تک پڑھا۔ پھر فیملی پاکستان آ گئی اور دوبارہ تعلیم کا سلسلہ منصورہ میں آ کر شروع ہوا۔ سارے بچے ہی الحمدللہ تعلیم میں ہونہار تھے۔ بڑے بیٹے حافظ ضیغم نے تو بچپن میں گاؤں میں قیام کے دوران ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا جبکہ باقی تینوں بھائیوں نے مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد حفظ کر لیا۔ اس سلسلے میں ان کی والدہ (میری ہمشیرہ) کا بہت بڑا کردار تھا جو خود حافظہ قرآن تھیں۔ قرآن سے بہت زیادہ لگائو تھا، کئی بچیاں ان کے پاس قرآن کی تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ اس کی تفصیل میں نے عزیزہ ہمشیرہ مرحومہ کے حالات بعنوان 'اُمِ ذوالنون‘ میں بیان کر دی ہے۔
میاں عبدالماجد کی ڈائری میں مزید لکھا ہے: ''حافظ ذوالکفل نے حفظ کے بعد بالترتیب میٹرک، ایف ایس سی، بی ایس انجینئرنگ، بی اے، بی ایڈ، ایم اے اسلامیات، ایم فل اسلامیات (اسلامی فکروتہذیب) میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن اور ناظم علاقہ نیوسٹی لاہور رہا۔ دنیوی معاش کی تگ و دوکے ساتھ جماعت اسلامی کی رکنیت بھی حاصل کی اور یو سی اور زون کی مختلف ذمہ داریاں بھی ادا کرتا رہا۔ شادی سے قبل روزانہ رات میرے پاس بیٹھتا اور میری ٹانگیں دبانے کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر ڈسکشن بھی کرتا رہتا۔ حکومتی، سیاسی، ملکی اور بین الاقوامی حالات پر تشویش کا اظہار کرتا اور گہری معلومات کا تبادلہ خیال بھی کرتا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کس قدر خوبیوں اور صلاحیتوں کا مالک تھا‘‘۔
میرا پوتا عزیزم طلحہ ادریس اور ذوالکفل منصورہ سکول سے لے کر یونیورسٹی میں بی ایس تک ایک ساتھ پڑھتے رہے۔ ذوالکفل‘ طلحہ میاں سے ایک سال بڑا تھا۔ مڈل کے بعد حفظ کی کلاس میں بھی دونوں تحفیظ القرآن منصورہ میں ایک ساتھ داخل ہوئے۔سکول میں یہ دونوں ہر کلاس میں اول‘ دوم پوزیشنوں پر رہتے تھے۔ کبھی ایک اول کبھی دوسرا۔تحفیظ القرآن میں طلحہ میاں نے ایک سال تین مہینے میں اور ذوالکفل مرحوم نے ایک سال پانچ مہینے میں مکمل قرآن حفظ کر لیا۔ پہلے جمعیت اور پھر جماعت اسلامی میں اپنی ذمہ داریاں پورے احساس اور محنت سے ادا کرتا رہا۔ ایم فل کے بعد ملکی حالات کی روشنی میں تعلیم سے وابستہ ہو گیا۔ ایک یونیورسٹی کے لاہور کیمپس میں بطور وزٹنگ لیکچرار اور شعبہ ایڈمن میں خدمات انجام دے رہا تھا۔
ذوالکفل گزشتہ سے پیوستہ رمضان میں بیمار ہوا۔ میاں عبدالماجد جامع مسجد منصورہ میں اعتکاف میں بیٹھے تھے۔ وہیں اس کی بیماری کا پتا چلا۔ سب معتکف حضرات نے مسلسل پُرخلوص دعائیں کیں، اللہ تعالیٰ نے صحت دے دی اور حسبِ معمول اپنی سرگرمیوں میں ذوق و شوق سے مشغول ہو گیا۔ عام طور پر کم گو تھا، لیکن کسی فورم پر بات کرتا تو نہایت مؤثر اور مدلل بات کرتا، خطاب کا موقع ملتا تو اپنے مختصر خطابات میں سماں باندھ دیتا۔
میاں عبدالماجد نے ڈائری میں لکھا ہے: ''اللہ تعالیٰ نے حافظ ذوالکفل کو 12فروری 2022ء کو ایک پیارا بیٹا محمد ذکریا عطا کیا۔ عیدالاضحی سے دو دن قبل کچھ بیمار ہوا، لیکن الحمدللہ خود دوائی وغیرہ لینے چلا جاتا۔ جب میں کہتا کہ کسی کو ساتھ لے جایا کرو تو کہتا: میاں جی! میں ان شاء اللہ ٹھیک ہو رہا ہوں۔ لیکن آخری دو دن بیماری کچھ زیادہ بڑھ گئی اور کہتا رہا کہ اللہ کے فیصلے ٹھیک ہوتے ہیں۔ 14 جولائی کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے۔ آخرت کی ساری منزلیں آسان فرمائے۔ اس کا بیٹا اس کے ساتھ بیڈ پر سو رہا تھا۔ جب اس کی روح پرواز کر گئی تو اس کا بیٹا چیخ مار کے اٹھ بیٹھا۔ گویا اللہ نے اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ تیرا باپ اب تیرے پاس نہیں رہے گا۔ اس کے پھول سے بیٹے کو دیکھتا ہوں تو بے اختیار یہ الفاظ زبان پر آتے ہیں۔ اے میرے پھول تجھے کیا خبر کہ تجھ پر کیا گزری۔ اے میرے پھول تجھ پر اک قیامت کی گھڑی گزری۔
اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کا آپ مالک ہے۔ سارے کے سارے اختیار اسی کے ہیں۔ انسان اس کا بندہ اور محتاج ہے۔ ہم اس کے فیصلوں پر راضی ہیں۔ یہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ 22 اور 23جولائی 2021ء کی درمیانی شب حافظ ذوالکفل کی والدہ فوت ہوئیں۔ اس دن بھی میں نے اپنے بچوں اور دیگر سب گھر والوں سے یہی کہا تھا کہ ہمارے عقیدے اور ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کے فیصلوں کو تسلیم کریں اور کسی قسم کا شکوہ زبان پر نہ لائیں۔ اتفاق ہے کہ 7جولائی 2021ء کو حافظ محمد ادریس صاحب کا بیٹا ڈاکٹر حافظ ہارون ادریس فوت ہوا اور ٹھیک دو ہفتوں کے بعد اس کی پھوپھی اور حافظ ذوالکفل کی والدہ کا نتقال ہوا۔ حافظ ذوالکفل کی پھوپھی حافظ محمد ادریس صاحب کی اہلیہ عید الاضحی کے روز وفات پا گئیں۔ ان کے ٹھیک دو ہفتوں کے بعد حافظ ذوالکفل کا انتقال ہوا۔ حافظ ذوالکفل کا جنازہ بھی تاریخی تھا۔ منصورہ مسجد کے اندر باہر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ اس کے حلقہ اثر اور حلقہ احباب کا اس کی وفات کے بعد پتا چلا جب اس کے شاگرد، کلاس فیلو اور جمعیت اور جماعت کے ساتھی اس کے ساتھ اپنے تعلقات اظہار کرتے تھے۔ عموماً ذکر و اذکار اور تلاوت میں مصروف رہتا تھا اور کسی حد تک تہجد کی پابندی کرتا۔
ہر باپ کی طرح مجھے بھی اپنے سبھی بچوں سے بے پناہ محبت ہے۔ صبح فجر کے بعد معمولات ختم کر کے جب میں گھر آتا اور ذوالکفل کے اپارٹمنٹ میں جاتا تو دونوں باپ بیٹا میرے انتظار میں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قبر اور حشر کے تمام مراحل آسان فرمائے، تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ ہم سب کو اس وقت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ حافظ ذوالکفل کی اہلیہ عزیزہ ماریہ ہاشمی محترم صاحبزادہ محمد ابراہیمؒ کی نواسی ہیں۔ ماریہ کے والد افضل ہاشمی مرحوم بھی جماعت کے رکن تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سرآنکھوں پر۔ اب جواں سال بیوی کا سہاگ چھن گیا، معصوم بچے کا سہارا اللہ نے لے لیا ہے۔ زکریا کی ماں بھی رکن جمعیت رہی اور اب رکن جماعت ہے۔ اس نے بہت زیادہ صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ اللہ ہی کی توفیق اور مدد سے ممکن ہوا ہے۔ وہ دیگر خواتین کو بھی صبر کی تلقین کرتی رہی، اللہ اس کی مشکلات کو آسان فرمائے۔ وہ خود بھی چھوٹی عمر میں یتیم ہو گئی تھیں۔ تمام احباب سے دونوں ماں بیٹے کے لیے دعائوں کی درخواست ہے کہ اللہ ان کی سرپرستی اور کفالت فرمائے اور ہمیں توفیق بخشے کہ ان کی سرپرستی کرتے رہیں، آمین!‘‘
آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ مرحوم کے والد نے اس کے بارے میں جو معلومات لکھی ہیں وہ اس کی شخصیت کا بھرپور تعارف کراتی ہیں۔ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے، ہر ایک کو یہاں سے اپنے مقررہ وقت پر چلے جانا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ مسافر جو اپنی زندگی میں اپنی آخرت کیلئے کچھ زادِسفر تیار کر لیتے ہیں۔ جانے والوں کا غم تو فطری بات ہے، مگر ہر بندۂ مومن کا یہ ایمان ہے کہ موت کبھی بے وقت نہیں آتی، وہ اپنے مقررہ وقت پر آتی ہے اور اس وقت کا تعین اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ہم جانے والوں کو دعائوں کا ہدیہ بھیج سکتے ہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائوں کا ہدیہ مرحومین تک ان کی قبروں میں پہنچا دیتا ہے۔ اللہ تمام مرحومین کی قبروں کو منور فرمائے اور جنت کی طرف کھڑکیاں کھول دے کہ وہاں سے ٹھنڈی اور خوشبو دار ہوائیں ان تک آتی رہیں۔ آمین یا رب العالمین! الوداع اے عزیز نوجوان‘ حافظِ قرآن!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں