دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
حسن الہیضبی نے فرمایا کہ خطاب ختم ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کے دل ان کے سینے میں واپس آ گئے ہیں۔ میں نے اپنے دل کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو اب بھی خطیب کی مٹھی میں بند ہے۔ گویا میں اپنا دل اس کے پاس ہی چھوڑ کر آ گیا۔ بس پھر کیا تھا وہ دن اور زندگی کا آخری لمحہ حسن الہیضبی صاحب شدید مشکلات کے باوجود قافلۂ حق کے راہی بلکہ سپہ سالار کے طور پر استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔سزائے موت ان کو بھی دی گئی تھی جو بعد میں عمرقید میں تبدیل کر دی گئی۔ جیل کی سختیاں اس مردِ مجاہد کو ذرا بھی نہ ڈگمگا سکیں۔
سعیدی صاحب بھی بنگلہ دیش میں حسن البناؒ شہید کی طرح انقلابی خطیب تھے۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ شعلہ نوا خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ مجالس میں بہت علمی اور سنجیدہ گفتگو کیا کرتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے آپ نے خوب استفادہ کیا۔ آپ کی ہر تقریر میں اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ ہر مسلمان کو تفہیم القرآن کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غلام اعظم صاحب سے آپ کے تعلقات قائم ہوئے تو آپ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت سے بہت متاثرو مانوس ہوئے۔ سعیدی صاحب نے جماعت اسلامی میں شمولیت بھی پروفیسر صاحب کی دعوت پر اختیارکی تھی۔ اس سلسلے میں دیگر دوستوں نے بھی مسلسل نوجوان خطیب پر کام کیا تھا۔ چنانچہ آپ نے پوری یکسوئی کے ساتھ کاروانِ حق کے لیے خود کو وقف کر دیا۔
جماعت میں شامل ہونے کے بعد آپ نے جماعت کے عوامی جلسوں کے ذریعے اس کے پیغام اور دعوت کو بہت عروج تک پہنچایا۔ آپ نے اپنے آپ کو مکمل طور پر تنظیم کے اندر ضم کر دیا تھا۔ آپ کو عوامی مقبولیت اور جاذبِ نظر شخصیت ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی کے تنظیمی اور سیاسی وِنگ میں بھی خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمان نظامی شہید نے آپ کو اپنا نائب مقرر کیا۔ آپ اس وقت سے لے کر تادم آخر جماعت کے نائب امیر کے مقام پر فائز رہے۔
1996ء کے عام انتخابات میں فیروز پور کے حلقہ نمبر 1سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے آپ کو قومی اسمبلی کی سیٹ پر کھڑا کیا۔ اس حلقے میں ہندوئوں کی بہت بڑی آبادی بستی ہے۔ آپ نے سیاسی جلسے شروع کیے تو لوگوں میں مقبولیت کو دیکھ کر عوامی لیگ ہی نہیں، خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی بھی تشویش میں مبتلا ہو گئی۔ آپ نے عوامی لیگ کے مقابلے پر بہت بھاری اکثریت سے یہ سیٹ جیتی۔ دوسری مرتبہ 2001ء کے عام انتخابات میں اسی حلقے سے آپ نے الیکشن لڑا اور حسبِ سابق بہت بڑے مارجن سے جیت گئے۔ بطور رکنِ پارلیمان دس سال تک آپ نے اسمبلی کے فلور پر اپنی جماعت اور اپنے حلقے کے عوام کی بہترین نمائندگی کی۔
دلاور حسین سعیدی کی شہرت ایک کامیاب سیاسی لیڈر، شعلہ نوا عوامی خطیب اور بے مثال دینی و علمی شخصیت کے طور پر بہت جلد بنگلہ دیش سے باہر بھی پوری دنیا میں پھیل گئی۔ آپ نے مشرق و مغرب ہر جانب سفر کیے۔ مسلمان ممالک اور غیر مسلم ممالک جہاں بنگلہ دیشی آبادی مقیم ہے، سبھی کے بیسیوں سفر کیے اور ہر سفر میں اتنے بڑے بڑے مجمعوں سے خطاب کیا جن کی مثال اب تک نہیں مل سکتی۔ آپ نے دنیا کے پچاس ممالک کے کئی سفر کیے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ان اسفار کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی آپ کی سرگرمیوں میں تسلسل جاری رہا۔ عالمی شہرت کے باوجود آپ کے مزاج میں انتہا درجے کی سادگی اور انکسار تھا۔ آپ نے ڈھاکہ میں اپنا سادہ سا گھر بنایا اور اپنی فیملی کے ساتھ وہیں منتقل ہو گئے۔ حسنِ اتفاق یہ ہے کہ ان کی رہائشی سوسائٹی کا نام شہید باغ ہے۔ گویا کہ شہید اسلام شہادت سے سالہاسال پہلے سے ہی شہید باغ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ ان کا ذاتی گھر چار منزلہ ہے جہاں وہ اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ مقیم تھے۔ ان کے گھر کا معروف نام ''عرفات منزل‘‘ ہے اور مکان کا نمبر سب اہلِ ڈھاکہ کو یاد ہے۔ جب بھی آپ پوچھیں گے تو وہ بتائیں گے کہ 914 شہید باغ، عرفات منزل دلاور حسین سعیدی کا گھر ہے۔
ایک تحریکی دوست جو بطور بلڈر بہت کامیاب بزنس مین تھا، آپ کے پاس آیا اور پیشکش کی کہ وہ آپ کے لیے ایک بڑا شاندار گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا ''اس گھر میں ہم بہت آرام و سکون سے رہ رہے ہیں۔ اس سے بڑے مکان کی ہمیں ضرورت نہیں۔‘‘ پھر یہ بات بھی اس بلڈر دوست اور دیگر ساتھیوں کے لیے حیرت کا باعث بنی کہ بلڈر کے پیش کردہ جو نقشہ جات آپ نے دیکھے ان میں ایسے نقائص کی نشان دہی کی جو اعلیٰ درجے کا آرکیٹکٹ (ماہر تعمیرات) بھی شاید نہ کر سکے۔ پھر ان میں تبدیلی کے لیے جو تجاویز رکھیں وہ بھی حیران کن اور بہترین تھیں جن سے اتنی ہی جگہ پر مکان زیادہ خوب صورت اور کشادہ نظر آیا۔
دلاور حسین سعیدی صاحب کے چار بیٹے تھے اور بیٹی کی رحمت سے محروم تھے۔ بیٹوں کے نام بالترتیب رفیق الاسلام سعیدی، شمیم الاسلام سعیدی، مسعود الاسلام سعیدی اور نسیم الاسلام سعیدی ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم صاحب کے ہاں بھی چھ بیٹے تھے مگر کوئی بیٹی نہیں تھی اور آپ راقم کے ساتھ کئی ملاقاتوں میں اس محرومی کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ (پروفیسر غلام اعظم مرحوم کے تفصیلی حالات ہماری کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘ جلد پنجم، صفحہ 23 تا44 میں ہیں) پروفیسر صاحب مرحوم کی طرح مولانا سعیدی صاحب بھی بیٹی کی کمی محسوس کیا کرتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ حدیث پاک میں بیٹیوں کو جنت کا پروانہ قرار دیا گیا ہے۔ اس موضوع پر آپ کے کئی عوامی خطابات نے نوجوان طالبات اور ان کے والدین کے درمیان ریکارڈ ساز مقبولیت حاصل کی۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب کی وساطت سے سعیدی صاحب کی رشتہ داری سید ہمایوں صاحب سے ہوئی جو خرم مرادؒ مرحوم کے بہنوئی تھے۔ خرم مرادؒ کی ہمشیرہ محترمہ کی شادی سید ہمایوں صاحب سے خالص تحریکی تعلق کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس خوش نصیب جوڑے کو پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں عطا کیں۔ آپ کی بیٹی سیدہ سمیہ فرازیہ کی شادی مولانا دلاور حسین سعیدی کے بڑے بیٹے رفیق سعیدی سے ہوئی۔ یہ شادی بھی مکمل طور پر تحریکی تھی۔ اس تحریکی جوڑے کو اللہ نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں، مگر دونوں میاں بیوی جوانی ہی میں ان معصوم بچوں اور دیگر اعزہ واقربا کو داغِ مفارقت دے گئے۔
دلاور حسین سعیدی شہید پر جب حسینہ واجد کی ظالمانہ و آمرانہ حکومت کی طرف سے جھوٹے مقدمے درج ہوئے تو آپ کو 29 جون 2010ء کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ نام نہاد عدالت کا ڈھونگ تو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا تھا اور بے شمار عالمی اداروں نے اس عدالت کو کینگروکورٹ قرار دیا تھا۔ گرفتاری کے وقت سعیدی صاحب کو پیشکش کی گئی کہ آپ جماعت اسلامی کو چھوڑ دیں تو آپ کو بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا جائے گا۔ یہ سن کر انہوں نے بلاتوقف جواب دیا کہ تم لوگوں نے میرے بارے میں غلط اندازے لگائے ہیں۔ میں راہ حق میں جان تو قربان کر دوں گا، مگر کسی سودے بازی اور جال میں نہیں آئوں گا۔
وہ اور ہی ہوں گے کم ہمت‘ جو ظلم و تشدد سہہ نہ سکے
شمشیر و سناں کی دھاروں پر‘ جو حرفِ صداقت کہہ نہ سکے
اک جذبِ حصولِ مقصد نے‘ یوں حرص و ہوا سے پاک کیا
ہم کفر کے ہاتھوں بِک نہ سکے‘ ہم وقت کی رَو میں بہہ نہ سکے
عوامی لیگ کی طرف سے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے خلاف جتنے بھی کیس بنائے گئے وہ سو فیصد جھوٹے اور بے بنیاد تھے۔ افسوس صد افسوس کہ نہ کوئی عدالت تھی نہ قانون۔ پوری دنیا پر واضح ہو چکا تھا کہ انصاف کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ کینگرو کورٹس کا ڈرامہ مسلسل چل رہا تھا، مولانا دلاور حسین سعیدی پر جو گھنائونے الزامات لگائے گئے وہ حکومت اور اس کے کارندوں کی کمینگی اور ذلالت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جس شخص کی پاکیزگی کی مسلمان ہی نہیں ہندو بھی قسم کھاتے ہیں اس پر آبرو ریزی، قتل و غارت گری، آتش زنی، لوٹ مار اور نامعلوم کیا کیا گھٹیا الزامات لگائے گئے۔ ظلم کی دیوی نے خونِ ناحق کی حرمت اور انسانی اقدار و اخلاق‘ سب کا جنازہ نکال دیا۔
پوری دنیا میں ان مظالم پر احتجاج ہوا مگر مودی حکومت نے اس پر جشن منائے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ عالمی قوتیں جو سرکاری سطح پر اس قسم کے مظالم پر حرکت میں آتی ہیں، خاموش تماشائی بنی رہیں۔ ان دوغلوں سے کیا شکوہ، اصل المیہ تو یہ ہے کہ مسلم ممالک اور خود پاکستان کے حکمرانوں کو بھی سانپ سونگھ گیا۔ گویا ''حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے!‘‘ کا سماں تھا۔ اس ڈرامہ کورٹ میں سماعت کے دوران مولانا سعیدی کے بڑے بیٹے رفیق الاسلام سعیدی 2013ء میں کورٹ کے اندر ہارٹ اٹیک کی وجہ سے گرے اور دم توڑ گئے۔ باپ کے لیے اپنے جوان اور جانشین بیٹے کی اچانک موت کا یہ صدمہ کتنا جان کاہ تھا، ہر زندہ ضمیر شخص بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے، مگر آفرین ہے اس عظیم مبلّغِ اسلام اور قائدِ تحریکِ اسلامی کی عزیمت پر کہ انہوں نے صرف اتنا کہا: ''اے لختِ جگر! اس زندگی میں بندۂ مومن پر آزمائشیں آتی ہیں، مگر اللہ ان پر بے پناہ اجر بھی دیتا ہے‘‘۔ (جاری)