دلاور حسین سعیدی شہیدؒ… (3)

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
مولانا سعیدی شہید کے مرحوم بیٹے رفیق سعیدی کی اہلیہ سیدہ سمیہ فرازیہ (بھانجی خرم مرادؒمرحوم) کو اپنے میاں کی جدائی کا شدید صدمہ تھا۔ رفیقِ سفر کی اچانک وفات سے اہلیہ پر گویا بجلی آگری۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا باپ کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔ ننھے بچوں پر قیامت گزر گئی مگر سب نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی برضا کی تصویر بن کر اسلاف کی یادیں تازہ کر دیں۔ سیدہ سمیّہ چند سالوں سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھیں جس کا علاج ہو رہا تھا۔ جوانی ہی میں تقریباً دو سال پہلے کووِڈ کے زمانے میں ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ باپ کے سایۂ شفقت سے محرومی کے بعد اب بچے ماں کی مامتا سے بھی محروم ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! دونوں بیٹیوں کی شادیاں ہو گئی ہیں جبکہ بیٹا منور حسنین سعیدی ابھی زیر تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو سلامتی اور سعادت کے ساتھ زندہ رکھے، آمین!
مولانا کے باقی تین بیٹے شمیم سعیدی، مسعود سعیدی اور نسیم سعیدی اللہ کے فضل و کرم سے پورے عزم کے ساتھ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ظالمانہ حکومت کی چیرہ دستیاں اور مظالم جاری ہیں، مگر تمام اہلِ حق بھی اپنی راہ پر پورے عزم کے ساتھ گامزن ہیں۔ تحریک اسلامی کے ہر کارکن کا جذبۂ ایمانی زندہ ہے، اللہ تعالیٰ اسے زندہ رکھے۔ حق و باطل کی کشمکش ازلی ہے۔ اہلِ حق نے ہر دور میں بلاخوف و خطر باطل کو للکارا ہے۔
ادھر آ ستم گر، ہنر آزمائیں
تُو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں
مولانا سعیدی کو جھوٹے الزامات کے تحت 2013ء میں سزائے موت سنائی گئی تو آپ نے بڑے اطمینان کے ساتھ یہ ظالمانہ فیصلہ سنا۔ پھر قرآنِ پاک‘ جو آپ کے ہاتھ میں موجود تھا‘ بلند کیا اور فرمایا: ''اے منصفِ عدالت سن لو! جن الزامات کے تحت مجھے سزا دی گئی ہے ان میں سے کسی کا بھی دھبہ میرے دامن پر نہیں ہے۔ آپ نے یہ فیصلہ ضمیر کی روشنی اور انصاف کی زبان میں نہیں سنایا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کے فیصلے کے پیچھے کیا ہے؟ میں اپنا معاملہ اللہ کی عدالت پر چھوڑتا ہوں جو اعدل العادلین ہے‘‘۔ آپ کو سزا سنانے والی عدالت پر پوری دنیا میں نفرین اور لعن طعن ہوئی۔ بنگلہ دیش میں اس موقع پر عوام کے ہجوم احتجاج کے لیے سڑکوں پر آ گئے، اس کے نتیجے میں پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کے کارندوں نے ان پرامن عوام پر گولیاں چلائیں جس سے ڈیڑھ سو سے زائد مظاہرین شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس ظلم و ستم کے باوجود ملک میں احتجاج جاری رہا۔ اس دوران سعیدی صاحب کے وکلا نے ایپلٹ کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دی۔ کیس کی نئے سرے سے سماعت شروع ہوئی، مگر انصاف نہ پہلے ملا نہ اب اس کی کوئی توقع تھی۔ بہرحال عدالت میں اس فیصلے کے خلاف کی گئی رٹ کی سماعت کے بعد آپ کی سزائے موت عمرقید میں تبدیل کر دی گئی۔
اللہ کے راستے میں شہادت پانے والے خوش نصیب لوگوں کا تذکرہ آنحضورﷺ نے صحابہ کی مجلس میں کئی مرتبہ فرمایا۔ آپﷺ نے ایک روز صحابہ کرامؓ سے پوچھا: ''تم جانتے ہو شہید کون ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا کہ جو اللہ کے راستے میں قتل ہو جائے وہ شہید ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: پھر تو میری امت کے شہدا تعداد میں قلیل ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ خود بتائیں کہ شہید کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جو اللہ کے راستے میں قتل ہو گیا وہ بھی شہید اور جو اللہ کے راستے پر گامزن رہا اور موت سے ہمکنار ہوا، وہ بھی شہید ہے۔ (صحیح مسلم) ائمہ کرام میں سے حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابن تیمیہؒ کا یہ قول بہت معروف ہے کہ ہمارے جنازے فیصلہ کر دیں گے کہ حق پر کون ہے۔حضرت امام ابوحنیفہؒ کا جنازہ بغداد کے جیل خانے اور امام ابن تیمیہؒ کا جنازہ دمشق کے قلعے سے اٹھا۔ دونوں کو ظالم حکمرانوں نے کلمۂ حق کی پاداش میں پابندسلاسل کیا تھا۔ ان دونوں عظیم ائمہ اور امام احمد بن حنبلؒ کے جنازے واقعتاً حکمرانوں کے لیے عبرت کا تازیانہ تھے۔ دلاور حسین سعیدی شہید کا جنازہ بھی تاریخ انسانی کے عظیم ترین جنازوں میں سے ایک تھا۔ جب آپ کی موت یقینی نظر آ رہی تھی تو جیل حکام نے آپ کو زندان سے شیخ مجیب الرحمان میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال منتقل کیا، وہاں پہنچتے ہی 14 اگست 2023ء کو شام آٹھ بج کر چالیس منٹ پر آپ کی شہادت ہو گئی۔ سعیدی صاحب کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ڈھاکہ میں لاکھوں لوگ ہسپتال کے باہر جمع ہو گئے۔ روزنامہ سنگرام کی ایک رپورٹ میں عوامی تاثرات یوں بیان کیے گئے: ''حکومت کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ مردہ سعیدی اس کے لیے زندہ سعیدی سے زیادہ خطرناک ہو گا‘‘۔ چنانچہ شہادت کے بعد بڑی تعداد میں مسلح دستے ہسپتال اور ڈھاکہ کے دیگر علاقوں میں پھیلا دیے گئے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے ڈھاکہ میں شہید کا جنازہ پڑھنے کا اعلان کیا، مگر حکمرانوں نے اس کی اجازت نہ دی۔ اس موقع پر جمع ہونے والے مجمع پر گولیاں بھی چلائی گئیں۔ اسی کے نتیجے میں ایک کارکن فرقان الدین گولی لگنے سے شہید ہو گیا اور سینکڑوں لوگ زخمی بھی ہوئے۔
مسلح سرکاری دستوں کے گھیرے میں جنازہ شہید کے آبائی علاقے فیروزپور بھیجا گیا۔ اس موقع پر سخت سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تاکہ لوگوں کو جنازے میں شرکت سے روکا جائے۔ فیروزپور کی طرف جانے والے تمام راستوں کو مسلح حکومتی دستوں نے بند کرنے کی کوشش کی، مگر لوگوں کا سمندر ان سب کو بہا لے گیا۔ فیروزپور میں شہید کا جنازہ 15 اگست کو ادا کیا گیا۔ مضحکہ خیز سرکاری اعلان کے مطابق جنازے میں پچاس ہزار لوگ شریک تھے۔ غیرجانبدار ذرائع ابلاغ نے یہ تعداد لاکھوں میں بتائی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ سے چھ لاکھ لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ میلوں تک پھیلے ہوئے لوگوں نے لائوڈ سپیکرز کی آواز اور مکبّرین کی تکبیروں کو سن کر جنازہ ادا کیا۔ بنگلہ دیش سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جنازے کے دوران لوگوں کی آہوں اور سسکیوں کی مسلسل آوازیں ایک دوسرے کو آتی رہیں۔ بعض نوجوان تو اس موقع پر دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا یہ ولی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستا تھا، بستا ہے اور بستا رہے گا۔ احمد ندیم قاسمی نے ایسے ہی عظیم انسانوں کے بارے میں کہا تھا۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
بنگلہ دیش میں ظلم و ستم کی دیوی حسینہ واجد کیسے کیسے ظلم ڈھا رہی ہے، اس کا بھرپور اظہار دلاور حسین سعیدی کی شہادت کے بعد یوں کیا گیا کہ آپ کے لیے دعا کرنے والوں کو بھی ان کے مناصب سے ہٹا دیا گیا۔ کئی لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ انہوں نے شہید کی شہادت کا اعلان کر کے دعائے مغفرت کیوں کرائی؟ روزنامہ سنگرام ڈھاکہ نے اپنی کئی اشاعتوں میں ایسے اندوہناک واقعات کے حوالے دیے ہیں۔ نواکھالی کی معروف جامع مسجد شہید مینار کے خطیب مولانا انور حسین نے نمازِ جمعہ کے بعد سعیدی شہید کی مظلومانہ وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعا کی تو انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور پندرہ سال کی خدمات کے باوجود مسجد سے بھی برطرف کر دیا گیا۔ (ڈیلی سنگرام ڈھاکہ، 22 اگست 2023ء) سعیدی شہید کے قدردان ہر طرح کی سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں میں پائے جاتے ہیں۔ عوامی لیگ جماعت اسلامی کی بدترین دشمن ہے، مگر اس کی صفوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شہید کے عقیدت مند ہیں۔ سعیدی شہید کی شہادت پر جن نوجوانوں نے اپنے سوشل میڈیا پر شہید کے حق میں کوئی پوسٹ لگائی یا کسی معروف عوامی لیگی رہنما نے جنازے میں شرکت کی، ان سب کو بلیک لسٹ کر دیا گیا اور ساتھ ہی ان کا عوامی لیگ سے اخراج ہو گیا۔ (ایضاً)
یہ اوچھے ہتھکنڈے اخلاقی و ذہنی شکست کا واضح ثبوت ہیں۔ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، جھوٹ کی قسمت میں شکست اور ذلت کے سوا کچھ نہیں۔ روزنامہ سنگرام نے اپنی 22 اگست کی اشاعت میں بہت سے واقعات کے حوالے دیے ہیں۔ ایک واقعہ یوں رپورٹ ہوا ہے کہ ضلع جیسور کے ایک مقام گلاپول کی جامع مسجد کے امام مولانا اشرف الاسلام نے نمائندۂ سنگرام کو زخمی حالت میں بتایا: ''میں 21 اگست کو مغرب کی نماز پڑھنے اپنی مسجد میں جا رہا تھا کہ سات‘ آٹھ نقاب پوش نوجوانوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے راستے میں روک لیا کہ تم نے سعیدی کے لیے مغفرت کی دعا کیوں کی؟ اور چاقو اور بلیڈ مارنا شروع کر دیے۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے میں بے ہوش ہو کر گر پڑا تو کچھ لوگوں نے اٹھا کر جنرل ہسپتال جیسور میں داخل کرا دیا‘‘۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر مرسلین نے بتایا کہ امام کے جسم پر تیز دھار آلات سے متعدد گہرے زخم آئے ہیں، بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے اور وہ زیر علاج ہیں۔ مولانا سعیدی شہید کی شہادت پر پُرامن عوام کے خلاف ظلم کے جو واقعات رونما ہوئے، اگر ان کا تذکرہ کیا جائے توایک ضخیم کتاب بن جائے۔ ظالم جتنا بھی ظلم ڈھا لیں، آخرت میں ایک ایک جرم کا حساب دینا ہو گا۔ اس دنیا میں بھی خونِ بے گناہ ظالموں سے حساب لے کر چھوڑتا ہے۔
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اُڑھاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں