اہلِ فلسطین کی جرأت کو سلام !

''شرّے بر انگیزد عدو کہ خیرِ مادرآں باشد‘‘۔ فارسی میں کہا جاتا ہے کہ دشمن شر پھیلاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اسی میں سے ہمارے لیے خیربرآمد کر دیتا ہے۔ اوپر بیان کردہ حقیقت پر یقین ہے مگر پھر بھی ان سطور کے لکھتے ہوئے دل کی کیفیت ناقابلِ بیان ہے۔ زندگی میں جو روزوشب انتہائی کرب، غم اور پریشانی میں گزرے ہیں، ان کے زخم آج پھر تازہ ہیں۔ راتوں کی نیندیں اُڑ جانے کا تجربہ پہلی بار نہیں، زندگی میں بار بار ہوا ہے۔ اس وقت عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں اعضا مضمحل اور فکروعمل کی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ معصوم فلسطینی بچوں اور بچیوں کی تصاویر اور غزہ کے چپے چپے پر بکھری ہوئی شہدا کی لاشیں، مساجد، مدارس، گھروں، ہسپتالوں کی تباہی اور ملبے کے ڈھیر!
ظلم کی طویل سیاہ رات اور دنیا کے نام نہاد مہذب ممالک اور ان کے درندہ صفت حکمران! کچلی ہوئی معصوم کلیاں اور مسلے ہوئے بے گناہ پھول! ان مظالم کا عشرِعشیر بھی کسی مغربی ملک کے شہریوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا تو اس کے پہلے لمحے ہی پوری دنیا میں شور مچ جاتا۔ بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار اٹھ کھڑے ہوتے، مگر یہ پھول اور کلیاں، یہ لاشے اور تڑپتے ہوئے زخمی، یہ باغیچۂ مصطفیﷺ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بنیادی انسانی حقوق کو نہ جوبائیڈن تسلیم کرتا ہے، نہ ہی برطانوی، جرمن اور فرنچ حکمرانوں کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت ہے۔
مسجد اقصیٰ انہی کلمہ گو بے بس فلسطینیوں کی طرح مظلوم ہے۔ اسے جلانے، ڈھانے اور مسمار و منہدم کرنے کے شیطانی منصوبے طویل عرصے پر محیط ہیں۔ اس عبادت خانے کی ایک تاریخ تو سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام سے وابستہ ہے اور ایک تاریخ نبیٔ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت مسلمہ کے ماضی اور حال کا حصہ ہے۔ جب صہیونیوں نے اس مقدس سجدہ گاہ پر غاصبانہ قبضہ جمایا تو وہ اچھی طرح جان چکے تھے کہ اب اس امت میں کوئی صلاح الدین ایوبی ہے، نہ محمد بن قاسم، کوئی طارق بن زیادہ ہے، نہ محمود غزنوی، کوئی سلطان محمد فاتح ہے، نہ نور الدین زنگی! مسجد پر ان درندوں کا قبضہ ہو گیا تو صہیونی بھیڑیوں نے 21اگست 1969ء کو مسجد کو آگ لگا دی۔ اس سانحہ مسجد اقصیٰ پر امت مسلمہ کے عام لوگوں نے شدید احتجاج کیا، مگر حکمران کچھ نہ کر سکے۔ فلسطینی مسلمان بالکل بے یارومددگار چھوڑ دیے گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے بغیر ہتھیاروں کے ایک بہت بڑی مسلح فوج کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
اس دوران امریکہ فلسطین کے آس پاس کے عرب ممالک کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے پوری سرگرمیوں سے شیطانی منصوبوں کے ساتھ میدان میں آ گیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہو یا اوسلو معاہدہ، سب مسلمان حکمران کو بے حمیتی کے پنجرے میں مقید کر کے اپنے مقاصد پورے کرنے کے امریکی منصوبے تھے۔ ایسے حالات میں عام فلسطینی مسلمانوں پر قیامت گزر رہی تھی۔ یہ قیامت اسرائیل کے قیام سے لے کر آج کے دن تک یکساں یہ مظلوم بھگت رہے ہیں۔ بیت المقدس مسجد اور یروشلم پر یہودیوں کے قبضے کے زمانے میں ایک فلسطینی نوجوان نے مسجد اقصیٰ کی مقدس دیوار پر چند فقرے عربی زبان میں خونِ جگر کے ساتھ لکھ دیے۔ یہ فقرے کیا تھے۔ ایک شاندار ماضی کی تاریخ بھی تھی اور بدترین اور مایوس کن حال کا مرثیہ بھی تھا۔ اس کے ساتھ مستقبل کے لیے ایک سوال تمنا کی صورت میں موجود تھا۔
فقرے ذرا پڑھیے: ''فتحھا عمرؓ۔ حرّرھا صلاح الدینؒ۔ فمن لھا الاٰن؟‘‘ اسے حضرت عمرؓ نے فتح کیا تھا، صلاح الدین ایوبیؒ نے اسے صلیبیوں کے تسلط سے آزاد کرایا تھا، اب (جبکہ صہیونی اس پر قابض ہیں) تو کون اس کا والی وارث ہے؟
فلسطینی قوم کے دلوں میں یہ فقرے پیوست ہو گئے تھے۔ نوجوان ہر لمحے یہی سوچتے تھے کہ وہ کیا کریں؟ ان فقروں کا کیا جواب دیں؟ شیخ احمد یاسینؒ (1937-2004ء) کی قیادت میں انتفاضہ (انتفادہ) کی تحریک اٹھی اور جذبۂ جہاد کے ساتھ پوری آبادی میں نئی روح پیدا ہو گئی۔ شیخ احمد یاسینؒ کو نشانہ باندھ کر اسرائیلی میزائل حملے میں 22مارچ 2004ء کو شہید کر دیا گیا۔ اپنی شہادت سے پہلے آپ فالج کی وجہ سے معذور ہو چکے تھے۔وہیل چیئر پر فجر کی نماز کے لیے جا رہے تھے جب صہیونی حملے کا نشانہ بنے۔ ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسیؒ (1947-2004ء) نے حماس کی قیادت سنبھالی، وہ اپنی بہادری کی وجہ سے شیرِ فلسطین (Lion of Palestine) کہلاتے تھے۔ ان کو بھی شیخ احمد یاسینؒ کی شہادت کے 26دن بعد ہی بمباری سے شہید کر دیا گیا، مگر انتفاضہ کی تحریک نہ مٹائی جا سکی۔ ڈاکٹر خالد المشعل میدان میں اترے اور اسماعیل ہنیہ بھی ایک نڈر جہادی لیڈر اور کامیاب سیاسی رہنما کے طور پر منظر عام پر آئے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی حفاظت فرمائے۔ بے مثال قربانیوں کے باوجود اب تک میدان میں پامردی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ حماس کے نام سے قائم یہ تحریک آج بھی پوری استقامت کے ساتھ مغرب کی قائم کردہ ناجائز ریاست اسرائیل اور اس کی سرپرست دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے پر پوری جرأت کے ساتھ کھڑی ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود ان اللہ والوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ایمان شکست نہیں کھاتا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی!
دیوارِ اقصیٰ کے آخری فقرے کا حماس کے نوجوانوں نے عملی جواب دیا۔ ''نحن لھاالان‘‘ (ہم اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں)۔
7 اکتوبر 2023ء کو ہفتے کے دن حماس نے اسرائیل پر ''طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے جو حملہ کیا اس نے دنیا کو بتا دیا کہ مسئلہ فلسطین دفن نہیں ہو گیا بلکہ آج بھی زندہ ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست ہل کر رہ گئے، اگر حماس کے پاس اسرائیل کے مقابلے میں دس فیصد اسلحہ بھی ہوتا تو آج اسرائیل قصۂ پارینہ بن چکا ہوتا۔ اسرائیل کی تباہ کن بمباری سے نہ ہسپتال محفوظ ہیں نہ انکیوبیٹر پر سینکڑوں معصوم بچے جن کودوائی اور علاج کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں، اگر غیرمسلم آبادی میں کوئی ایک بچہ بھی اس صورت حال سے دوچار ہوتا تو طوفان آ جاتا، مگر ان بے چاروں کے مصائب اور قتلِ عام پر مغربی دنیا کے حکمران جشن منا رہے ہیں۔ یہ دوغلاپن دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں لاکھوں کے مجمع سڑکوں اور چوکوں پر فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں، یہ سب مسلمان نہیں ان میں غیرمسلم بھی شامل ہیں۔ یہ ایک پیش رفت ہے جو ان شاء اللہ گزرتے وقت کے ساتھ مزید طاقتور ہو گی۔
جوبائیڈن بدترین صدر ہ ثابت ہوا ہے۔اس کی شیطانی حرکتوں کے نتیجے میں خود اس کی حکومت میں شامل کئی اہم شخصیات احتجاجاً استعفے دے رہی ہیں۔ یوایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسر جوش پال (Josh Paul) نے سب سے پہلے اپنے منصب سے یہ کہہ کر استعفیٰ دیا کہ امریکی حکومت کی غزہ پر موجودہ پالیسی کے ساتھ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں اس عہدے پر قائم رہوں۔ میڈیا میں یہ خبریں آ رہی ہیں کہ کئی اور اہم عہدیدار اور سیاسی شخصیات بھی اس پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مسلم ملکوں کی حکومتوں سے کچھ نہ ہو سکا، مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بعض چیزوں کو تم شر سمجھتے ہو مگر اللہ ان سے خیربرآمد کر دیتا ہے۔ یہ نیا آہنگ جو پیدا ہوا ہے طویل المیعاد جدوجہد میں ان شاء اللہ اس کے بہت مثبت نتائج نکلیں گے۔ فراموش کردہ مسئلہ فلسطین آج مشرق سے لے کر مغرب تک پوری دنیا میں زندہ ہو گیا ہے۔ صدر بائیڈن اور اس کے شیطان صفت ساتھی سلامتی کونسل میں ویٹو کریں یا دیگر ابلیسی حرکات سے اسرائیل کی سرپرستی کرتے رہیں، وہ وقت قریب ہے جب مظلوم کو اس کا حق ملے گا اور ظالم سے بدلہ لیا جائے گا۔
کئی سال بیت گئے، ہزاروں اہل ایمان مہلک اسلحے کی اندھا دھند بمبارمنٹ سے جامِ شہادت نوش کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مگر کبھی آہ و بکار اور سینہ کوبی نہیں کی۔ اسرائیلیوں کے 14سو لوگ جن میں فوجی بھی تھے مارے گئے تو ہر جانب چیخ و پکار اور رونا دھونا پوری دنیا نے سنا۔ اسرائیل میں ہی نہیں وائٹ ہائوس میں بھی یہی ماتم کا منظر تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ یہودی اللہ کے غضب کا شکار ہیں اور ہمیشہ اس کیفیت میں رہیں گے۔ ارشاد باری ہے:ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدودِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔ (سورۃ البقرہ: 61)
دوسری جگہ فرمایا: کیا میں ان لوگوں کی نشاندہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سُور بنائے گئے، جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی۔ ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سَوَائُ السبّیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ (المائدہ: 60)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں